محمد صادق جمیل تیمی
متحدہ ہندستان وپاکستان کی بیسوی صدی کئی لحاظ سے اہمیت کے حامل رہی۔ اس صدی میں جہاں معاشی ومعاشرتی ترقی ہوئی وہیں چند ایسے امت میں خوشہ چیں جنم لیے جنہوں نے اپنے افکار وخیالات سے ایک دنیا کو اسیر کیا۔ انہیں میں سے ایک شاعر مشرق علامہ اقبال تھے جنہوں نے اپنے تابندہ اشعار سے مسلمانوں کو یقین محکم عمل پیہم او راڑان شاہین کا سبق پڑھایااور مسلمانوں کو ابھارا کہ قرآن کی روشن تعلیمات ہی میں ان کے مستقبل کی کامیابی وکامرانی کا راز مضمر ہے۔ قرآن ہی ہماری زندگی کا راز ہے۔ ذیل کی سطور میں علامہ اقبال کی سوانح و قرآن سے ان کے مراسم اور علامہ کے اشعار میں قرآنی تمثیلات پیش خدمت ہیں، ملاحظہ ہوں :
علامہ اقبال کی مختصر سوانح عمری :
آپ ۹؍ نومبر ۱۸۷۷ء کو صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوے، عربی فارسی او راردو کی تعلیم سیالکوٹ ہی میں حاصل کی، لاہور اوریٹیل کالج میں ۱۸۹۳ء سے لیکر ۱۸۹۷ء تک تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۹۹ء میں یہاں سے ایم اے فلسفہ سے کیا، او ر۱۹۰۷ء کو ایران میں فلسفہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی او ر۱۹۲۲ء میں انہیں سرکے خطاب سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر صاحب آخری سانس تک دین اسلام کی خدمت کرتے رہے آخرکار اسلامی تاریخ او راس کے حقائق واسرار سے اپنے اشعار کا جاود جگانے والا ۱۹۳۸ء میں آخری سانس لی او رہمیشہ ہمیش کے لیے ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ رہتی دنیا تک کے لئے ’بانگ درا، بال جبرائیل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز جیسے اہم شعری سرمایے دے کر گئے۔
علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت :
اردوشاعری کے افق پر یوں توسیکڑوں روشن ستارے نمودار ہوے او رتمام شعراء نے اپنی مخصوص انداز میں طبع آزمائی کی لیکن علامہ اقبال کا انداز کچھ الگ نوعیت کی تھی۔ شاعری کی دنیا میں قدم رکھتے ہی اردو شاعری میں ایسی روشنی اور جگمگاہٹ پیداکی جو آج بھی افق ادب پر عیاں وبیاں نظر آتی ہے۔ اور اس کی شاعری کی کرنیں جب اردوشاعری پر پڑی تو وہ شاعر ی شفق کا گلزاربن گئی او ررنگ نور سے معمو ر ہوگئی۔ علامہ کے اشعار میں جہاں درد سوز حرارت او رتپش نظر آتی ہے وہیں فکرکی روشنی منطقی استدلال فلسفیانہ انداز او رعقل وخرد کے چراغ جلتے نظر آتے ہیں بالکل اسی طرح قرآن کریم کا ادبی اسلوب بھی اسی کے مشابہ ہے۔
علامہ اقبال کا کلام پاک سے لگاؤ:
علامہ اقبال کا قرآن کریم کی تلاوت سے بے حد شغف تھا۔ ہمہ وقت قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف رہتے تھے حتی کہ مرض الموت میں بھی دوسروں کو اپنے سرہانے تلاوت قرآن کی تلقین کیے تاکہ انہیں سکون حاصل ہو، اقبال کو قرآن مجید سے کتنی الفت ومحبت تھی اس شعر سے آپ انداز ہ کرسکتے ہیں۔
تیرے ضمیرپہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
علامہ اقبال خود فرماتے میں، جب میں ایم اے میں پڑھتا تھا تو صبح کو نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتا تھا والد صاحب مسجد سے نماز پڑھ کر آئے اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیاکہ کیا کررہے ہو ؟ تومیں نے جواب دیا قرآن مجید پڑھ رہا ہوں انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کو اس انداز سے پڑھوگویا کہ وہ تمہارے اوپر نازل ہواہو۔ چنانچہ اس دن سے میں قرآن کریم غور سے پڑھنے لگا ( کلام اقبال میں قرآنی آیات واحادیث ص: ۴۳)۔ علامہ کو قرآن کریم سے بے حد شغف تھا۔ وہ بچپن ہی سے بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنے کے عادی تھے۔ بیماری کے دنوں میں بھی جب کسی نے قرآن حکیم خوش الحانی سے پڑھا تو آنکھ میں آنسو جاری ہوگئے اور ان پر لرزش واہتزاز کی سی کیفیت طاری ہوگئی، آپ کلام پاک کو خاص دل سوزی او رشغف کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے پڑھتے او ررورتے جاتے یہاں تک کہ اوراق مصحف تربتر ہوجاتے او ردھوپ میں سکھا یا جاتا ( اقبال کے کلام میں قرآنی آیات واحادیث ص: ۴۴)۔ علامہ اقبال قرآن مجید کو پڑھتے تو اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرتے بلکہ نماز کے دوران جب وہ باآواز پڑھتے تو وہ آیات قرآنی پر غور کرتے اور ان سے متاثر ہوکر روپڑتے۔ ڈاکٹر صاحب کی آواز میں ایک خاص کشش تھی جب وہ قرآن پاک کو باآواز بلند پڑھتے تو سننے والوں کا دل پگھل جاتا ( سیرت اقبال ص: ۹۹، ۱۰۰)۔
بات دراصل یہ ہے کہ علامہ اقبال کا شغف قرآن مجید سے بے حدتھا اسی وجہ سے اس کے اشعار میں قرآنی تمثیلات وتلمیحات وتشبیہات جا بجا ملتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس پر مزید خامہ فرسائی کرنے سے قبل تمثیلات کے معنی ومفہوم کو واضح کردیا جاے تاکہ مضمون کی فہمائش میں سہولت ہو۔
تمثیلات کی لغوی تعریف: تمثیلات، تمثیل کی جمع ہے، مثل یمثل تمثیلاًمادہ ’’ مثل‘‘ باب تفعیل کا مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے، اردو میں سب سے پہلے ۱۶۳۵ء کو ’’ سب رس‘‘ میں مستعمل ملتا ہے جس کا معنی : مثال، تشبیہ یامشابہ کے ہیں ( المعجم الوسیط ص: ۱۰۳۱)۔
اصطلاحی تعریف: وہ حجت ہے جس میں ایک جزو کا حکم دوسری جزو میں کسی ’’علت مشترکہ‘‘ کی وجہ سے ثابت کیاجاے۔ ( نصاب المنطق ص: ۱۳۵)۔
علامہ اقبال کوقرآن مجید سے لافانی محبت تھی چنانچہ ان کا تقریباً ہر شعرقرآن پاک کی کسی نہ کسی آیت کا مفہوم ہے، حسب ذیل شعرملاحظ کیجیے:
اسے صبح ازل انکار کی جرات ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا وہ راز داں تیراہے یا میرا
اس شعرمیں اقبال درج ذیل آیات کی طرف اشارہ کیا ہے: {وإذا قال ربک للملئکۃ إنی خالق بشرا من صلصال من حما مسنون فاذاسویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوالہ سٰجدین فسجد اللملئکۃ کلھم اجمعون إلا ابلیس ابی ان یکون مع الساجدین }( سورۃ الحجرات :۲۷۔ ۳۱)
آگے کہا کہ:
صبح ازل جو حسن ہوا دلستان عشق
آواز کن ہوئی تپش آموزجان عشق
مندرجہ بالا شعر میں اس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے کہ : {إنما امرہ إذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون }( سورۃ یسن : ۸۲) اللہ تعالیٰ دوسری جگہ ارشاد فرمایا :{إنا عرضنا الأمانۃ علی السموات والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الإنسان إنہ کا ن ظلو ما جھولا } (سورۃ الاحزاب : ۷۲) اس آیت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ :
میرے بگڑے ہوے کاموں کو بنایا تونے
بار جومجھ سے نہ اٹھا وہ اٹھا یا تونے
( بانگ درا، ص: ۵۵)
اسی آیت سے اقبال کا مندرجہ ذیل شعر بھی منسوب ہے :
سختیاں کرتاہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں
پاے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں، جاہل ہوں میں
عظمت آدم سے متعلق قرآنی آیت : { ولقد کرمنا بنی آدم وحملنھم فی البر والبحر ورزقنھم من الطیبت فضلنھم علی کثیر ممن خلقناتفضیلا } ( سورۃ بنی اسرائیل : ۷۰) مذکورہ آیت کے حوالہ سے اقبال کہتے ہیں :
جاے حیرت سے برا سارے زمانے کاہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیو ں کرہوا
ایک اور شعر میں علامہ اقبال دومختلف آیات یعنی :{ إنا اعطینک الکوثر }(سورۃ الکوثر: ۱) اور {ومزاجہ من تسنیم عینا یشرب بھا المقربون } (سورۃ المطففین : ۲۷۔ ۲۸) میں کہتے ہیں :
آتی ہے ندا فراز کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر وتسنیم کی موجوہ کو شرماتی ہوئی
علامہ اقبال نے قرآن پاک میں موجود پیغمبر وں کے ذکر کو بھی جابجا موضوع سخن بنایا ہے، مثلاً : آیت:{ یانار کونی بردا وسلما علی إبراھیم واراد وابہ کیدا فجعلنٰھم الآخسرین}(سورۃ الإنبیاء: ۶۹۔ ۷۰)
بے خطر کو د پڑے آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا ے لب بام ابھی
او رسیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوے اقبال نے اس آیت :{ ولما جاء موسیٰ لمیقاتنا وکلمہ ربہ قال رب ارنی وانا اول المومنین } ( سورۃ الاعراف : ۱۴۳) کے حوالے سے کہیں ہیں :
ذرا سا تودل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کچھ دکھانے دیکھنے کا تقاضاطو رپر
کیا خبر تجھ کو اے دل فیصلہ کیوں کرہوا
کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا
چھپا یانورِازل زیر میں نے
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
اور نبی آخرالزماں ﷺ کے سفر معراج کے بارے میں قرآنی آیت :{ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام إلی المسجد الأقصی } ( سورۃ بنی اسرائیل: ۱) کے حوالے سے اقبال کا کہنا ہے :
سبق ملاہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے افلاک
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے سورۃ الفتح آیت نمبر : ۲۹؍ میں فرمایا :{ محمد رسول اللہ والذی معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم } اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا :
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہوتو فولاد ہے مومن
( ضرب کلیم، ص: ۴۱)
آپ کو مذکورہ شعر کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کرہے ہیں کہ مومن جب اپنے دوستوں او راحبابوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہ ریشم کی طرح نرم او رملائم ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس جب حق وباطل کے مابین معرکہ آرائی ہوتی ہے تو وہ فولاد او رلوہے کی طرح سخت بن جاتے ہیں :
ہزار چشمے ترے سنگ راہ سے پھوٹیں
خودی میں ڈوب کر ضرب کلیم پیدا کر
(ضرب کلیم، ص: ۴۶۳)
اس شعر میں شاعر اسلام نے قرآنی آیت :{ وإذ استسقی موسی لقومہ فقلنا اضرب بعصاک الحجر فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا}(سورۃ البقرۃ : ۶۰) کی طرف اشارہ کرکے مسلمانوں کی توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اگر تم اس بات کے خواہاں ہوکہ تمہارے سنگ راہ چشمے جاری ہو ں تو اپنے اندر خودی کی صفت پیدا کر۔
مختصر یہ ہے کہ شاعراعظم کے کلام کا سرسری جائزہ لینے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں وبیاں ہوگئی کہ ان کا کلام قرآنی تمثیلات کا مرکزومخزن ہے ان کے کلام کے تقریباً تین چوتھائی میں قرآن وحکمت کی تعلیمات کے علاوہ کچھ او رپیش نہیں کیا ان کا یہ دعوی حرف بحرف بالکل درست اور صحیح ہے، اوران کی شاعری قرآن کے ایک لفظ سے بھی باہر نہیں ہے اس کا ذکر انہو ں نے اسرار خودی کے اندر کیا ہے، علامہ اقبال کی شاعری میں قرآنی تلمیحات کے سلسلے میں مشہور ناقد سجاد انصاری نے کہا اگر قرآن اردو میں نازل ہوتاتو علامہ اقبال کی نظم او رابولکلام کی نثر میں نازل ہوتا۔ ( اقبال کا فن، ص: ۵۶)۔
تبصرے بند ہیں۔