بی جے پی ہاری، ’ہندوتوا‘ نہیں ہارا

 ڈاکٹر عابد الرحمن

پانچ ریاستوں میں بی جے پی ہار گئی، تین ریاستوں راجستھان چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں تو اس کو اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے، لوک سبھا انتخابات قریب ہیں اور ایسے میں تین بڑی ریاستوں میں بی جے پی کی ہار واقعی اسکو شدید دھچکے سے کم نہیں، ان انتخابی نتائج سے ایسا لگتا ہے کہ مودی لہر کا زور اب اتنا کم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے گڑھ میں بھی نہیں چل پارہا ہے۔ ویسے ان انتخابات میں بی جے پی نے جس طرح کی پرچار مہم چلائی اور جیسی سیاست پچھلے کچھ دنوں میں ان کی طرف سے سامنے آئی ہے اس سے ان کا فرسٹریشن ظاہر ہوتا ہے جو بشمول مودی اوپر سے نیچے تک یکساں نظر آرہا ہے،یہ مودی جی کا فرسٹریشن ہی تو ہے کہ پوری انتخابی مہم کے دوران ان کے پاس نہرو گاندھی خاندان کے خلاف بولنے کے سوا کچھ نہیں تھا، انہوں نے نامدار و کامدار سے لے کر کانگریس کی ودھوا تک ان کے خلاف ہر تضحیک آمیز لفظ اور لہجہ استعمال کرڈالا،ترقی کے متعلق اور کرپشن کے خلاف وہ بولے مگر نہرو گاندھی خاندان ہی اس سب میں مقدم رہا، ان کی پارٹی کا فرسٹریشن یہ کہ وہ ترقی کی سیاست چھوڑ کر پوری طرح ہندوتواکی علامتی سیاست پر اتر آئی اور پورے ملک میں شہروں اور اسٹیشنوں کے ناموں کی تبدیلی کا شور مچانا شروع کردیا ان انتخابات میں ان کے اسٹار پرچارک یوگی ادتیہ ناتھ نے اپنی نام بدلی کی سیاست کو ہر علاقے میں برتنے کا وعدہ کیا۔

 اسی طرح انتخابات سے کچھ ہی پہلے سنگھ نے بھی تبدیلی کا ڈھونگ رچایا پھرقلا بازی کھا کر اپنے حواریوں وی ایچ پی وغیرہ کے ساتھ رام مندر کے لئے دھرم سنسدوں اور سبھا ؤں کے ذریعہ دراصل ان انتخابات میں بی جے پی کے لئے عوام کو لبھانے کی کوشش کی، لیکن ان سب کے باوجود بی جے پی ہار گئی، تو کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ ملک کے ہندوؤں نے ہندوتوا سیاست کو مسترد کردیا؟ انتخابات کے دنوں میں ہندوتوا میں آئے زبردست ابال کے باوجود بی جے پی کی ہار سے بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ لوگوں نے مودی یوگی کی سیاست کو مسترد کردیا ہے لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوتوا سیاست کا یہ استرداد مکمل نہیں ہے یا اتنا نہیں ہے کہ جو سیاست کو مذہب کے اثر سے باہر لانے کے لئے کافی ہو۔ ان نتائج کی ایک اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کی ہار اور کانگریس کی جیت فیصلہ کن نہیں ہے۔

تین بڑی ریاستوں میں ان کا ایک دوسرے سے سیدھا مقابلہ تھا، ان میں سے راجستھان کی روایت رہی ہے کہ وہاں ہر مرتبہ اقتدار بدلتا رہتا ہے سو اب بھی یہی ہوا لوگوں نے بی جے پی کو اتارکر کانگریس کو مسند اقتدار پر چڑھا تو دیا لیکن دونوں کی ہار جیت میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے کانگریس کوواضح اکثریت سے کچھ کم سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا، اسی طرح دونوں پارٹیوں کو تقریباً برابرا ووٹ ملے۔ یہی حال مدھیہ پردیش کا بھی ہے جہاں کانگریس جیتی ضرور لیکن بی جے پی بھی اس سے بہت پیچھے نہیں رہی بلکہ وہاں تو کانگریس کے مقابلہ بی جے پی کوزیادہ ووٹ ملے۔ پھر بھی سیٹیں کانگریس کو زیادہ ملیں یہ جمہوری ریاضی بھی عجب ہے جس کو سمجھنے کے لئے اس پر اثر انداز ہونے والے دوسرے عوامل، امیدوار، ڈمی امیدوار اور ووٹوں کی تقسیم وغیرہ کو دیکھنا ہوگا۔ خیر، سوال ہے کہ کیا لوگوں نے بی جے پی کے ہندوتوا کے رد میں کانگریس کو چنا؟ایسا نہیں کہا جاسکتا بلکہ معاملہ اس کے الٹ نظر آرہا ہے، کانگریس کی طرف لوگوں کے جھکاؤ کی وجہ بھی ہندوتوا ہی نظر آرہی ہے۔

ان انتخابات کے پرچار کے دوران راہل گاندھی مندر مندر گئے پوجا پاٹ کی اور اسکی تشہیر بھی کی اپنا گوترا بھی بتا یا نہ صرف خود کو ہندو ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی بلکہ وزیر اعظم مودی جی کے ہندو ہونے پر بھی سوال کھڑا کردیا، یہی نہیں مدھیہ پردیش میں اپنے الیکشن مینیفیسٹو بنام ’وچن پتر ‘میں گوشالا ئیں بنانے اور گائے کے پیشاب اور گوبر کے ذریعہ اپلوں کی پیداوار کے لئے ایک مذہبی اور روحانی ڈپارٹمنٹ قائم کر نے کا بھی وعدہ کیا۔

اسی طرح جب سنگھ اور بی جے پی کے لوگ عوام کو رام مندر کے ذریعہ اکسا رہے تھے اس وقت راجستھان میں راہل گاندھی کے ایک آدمی نے دعویٰ کیا کہ کانگریسی وزیر اعظم ہی رام مندر کی تعمیر کرواسکتا ہے،یعنی لوگ کراہل گاندھی کو وزیر اعظم بنائیں وہ رام مندر تعمیر کروائیں گے اور راہل گاندھی کی طرف سے اس پر کوئی صفائی بھی نہیں آئی یعنی جو کچھ کہا گیا وہ پارٹی لائن سے ہٹ کر نہیں تھا۔ یعنی راہل گاندھی کی کانگریس بھی بی جے پی کی راہ پر چل پڑی ہے، ان انتخابات میں کانگریس کی طرف جو لوگ آئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بی جے پی کے ترقیاتی ماڈل کی ناکامی سے بدظن ہوکر ہی ادھر آئے ہیں، ان کے ادھر آنے میں کانگریس کی ہندوتوا سیاست کی کارفرمائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی پچھلے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی اپنے آپ کو ہندو اور ہندوؤں کی پارٹی ثابت کر نے کی جان توڑ کوشش کررہے ہیں، انتخابی مہمات میں وہ اپنے ہندوتوا کا خوب خوب پرچار کررہے ہیں بلکہ اب گؤشالاؤں کے وعدے سے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ہندوتوا کے سنگھی گلیاروں میں بہت اندر تک جا چکے ہیں، ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں وہ اپنی پارٹی کے گؤ رکشا دل بھی بنا لیں اور گؤ رکشکوں کے ذریعہ کئے جانے والے تشدد اور لنچنگ میں بی جے پی کے ممبران کی طرح خود ملزمین اور مجرمین کی حمایت میں بھی بولنے لگ جائیں۔

 ایک بات اور کہ ہندوتوا سیاست مسلم دشمنی کے بغیر ادھوری ہے یہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں مسلمانوں کی کھلم کھلم مخالفت نہ ہو، ابھی راہل گاندھی مسلم مخالفت تک تو بہر حال نہیں پہنچے لیکن وہ مسلمانوں سے مسلسل دوری بنائے ہوئے ہیں بلکہ اپنی سیاست میں انہوں نے مسلمانوں کو بالکل بازو ہٹا دیا ہے۔ یہ دراصل راجیو گاندھی اور کانگریس پارٹی کی روایتی ’نرم ہندوتوا‘ سیاست سے ایک قدم آگے کی اور سنگھ و بی جے پی کی سخت ہندوتوا سیاست سے ایک قدم پیچھے کی سیاست ہے۔ لیکن قومی سطح پر جیتنے کے لئے یہ سیاست ناکافی ہے، اب نرم ہندوتوا کا زمانہ نہیں رہا، یہ سخت گیر ترین ہندوتوا کا زمانہ ہے۔

 اب دیکھنا ہوگا کہ قومی سطح پر حیات نو کے لئے راہل گاندھی ہندوتوا کے گلیاروں میں اور کتنی اندر تک گھستے ہیں، اسے کاہے کا تڑکا دیتے ہیں، مسلمانوں کو اپنی سیاست کے کس خانے میں رکھتے ہیں اور ہندوؤں کو کس طرح اکساتے ہیں۔ ویسے کانگریس کی نرم ہندوتوا سیاست نے بی جے پی کوسخت گیر ہندوتوا اپنا کر مضبوط ہونے میں مدد کی تھی ہو سکتا ہے اب راہل گاندھی کی یہ ہندوتوا سیاست بی جے پی کو مزید سخت گیر ترین ہندوتوا کی طرف دھکیلے، ایسے میں کانگریس اور بی جے پی کا فائدہ ہو نہ ہو نقصان مسلمانوں کا ہو گا،کانگریس کی اس جیت پر بغلیں بجانے والے مسلمانوں کو اس بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔