جواب چاہیے مجھے، جواب ڈھونڈتا ہوں میں

مدثراحمد

جب بھی کرناٹک میں انتخابات کا اعلان ہوتا ہے اس وقت مسلم متحدہ محاذ نام سے بناہوا ایک گروہ بنگلور سے نکل کر پوری ریاست کا دورہ کرتے ہوئے وہاں پر کسے ووٹ دینا ہے اور کسے نہیں، یہ طئے کرتا ہے اور اس گروہ کی جانب سے باقاعدہ طورپر ایک پرچہ جاری کیاجاتاہے جسے عام لوگ حکم نامہ بھی کہہ سکتے ہیں جسے پوری شدت کے ساتھ سیاسی جماعتیں خصوصََا کانگریس کے امیدوار عام لوگوں میں تقسیم کرواتے ہیں اور اس پرچے کا درجہ اس قدر بلند ہوتاہے کہ عام لوگوں کو اسے فتوے کی مانند پیش کیا جاتاہے۔

مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا اور غیر فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے جو کام کیا جاتاہے وہ قابل ستائش ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے منشور کو تیار کرتے وقت اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے تجویز دینے والے محاذ جیسے ذمہ داران انتخابات کے بعد کہاں چلے جاتے ہیں؟۔ کیا ان لوگوں کی ذمہ داری صرف ووٹ دلوانے کے لئے کام کرنا ہے ؟اور کیاانتخابات کا موسم ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کے مسائل حل کروانے کی انکی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ؟۔

کرناٹک میں پچھلی کانگریس حکومت کے وقت بھی اسی محاذ نے باضابطہ طورپر کانگریس اور جے ڈی یس کے کچھ امیدواروں کی تائید کرنے کے لئے مسلمانوں کو ہدایت نامہ جاری کیاتھا اور مسلمانوں نے جم کر کانگریس پارٹی کو اقتدار پر پہنچایا، بعد میں مسلمانوں کے لئے ٹیپو جینتی کا اعلان ہوا، حج ہائوز کا افتتاح ہوا، بقرعید کے موقع پر کھلے عام بیلوں کی قربانیاں دینے کا موقع ملا اور کچھ حد تک مختلف فنڈس کے ذریعے سے ترقیاتی کام انجام دیے گئے، اسی طرح سے اس دفعہ بھی بی جے پی کو روکنے کے لئے الیکشن کے ٹریک پر محاذ کے ذمہ داروں نے پٹریاں ہی اکھاڑدی تھیں جس کے سبب پوری طرح سے نہ صحیح لیکن اکثریت کے ساتھ کانگریس کامیاب ہوئی اور جے ڈی یس کے ساتھ حکومت قائم کرچکی ہے۔ جس محاذ نے پچھلے اسمبلی و پارلیمانی انتخابات میں فلاں فلاں کو ووٹ دینے کا مطالبہ کیا تھا اسی محاذ کو انکی خواہش کے مطابق کامیابی ملی مگر الیکشن کے بعد محاذ کے ذمہ داران ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اور وہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے بات کرنے کے لئے وقت نکال نہیں پارہے ہیں۔

جسٹس سچرکمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرنے کی بات کمار سوامی نے اپنے انتخابی منشور میں  واضح  طور پر بیان کیاہے لیکن چھ مہینے گزرنے کے بعد بھی کمار سوامی کی زبان پر اس تعلق سے ایک لفظ جاری نہیں ہواہے، کمار سوامی شاید مسلمانوں سے ناراض ہونگے کیونکہ مسلمانوں نے تو اس دفعہ اعلان کیاتھاکہ کانگریس کو دوبارہ اقتدار میں لاناہے، تو مسلمانوں کی قیادت و رہنمائی کرنے والی محاذ کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے ڈی سی یم ڈاکٹر پرمیشور کے سامنے بات رکھتے، لیکن محاذ کے ذمہ داروں نے نہ تو سی یم سے بات کرنے کی زحمت گوارہ کی نہ ڈی سی یم کے سامنے، سی یم یا ڈی سی کی بات اور ہے لیکن پچھلے دنوں مسلمانوں کا سلطان کا لقب حاصل کرنے والے سدھرامیا کے سامنےتو مسلمانوں کے حقوق کے تعلق سے بات کی جاتی۔ آج مسلمانوں کو تعلیمی، اقتصادی و سماجی شعبوں میں ریزرویشن کی ضرورت ہے جو پچھلے کئی سالوں سے چھینا جارہاہے، اس ریزرویشن کو دلوانے کے لئے کسی کو خیال نہیں ہے بس اپنا اپنا الو سیدھا کروانے کے لئے اہل علم حضرات اور تنظیموں کے ذمہ داران سیاستدانوں کی چاپلوسی کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

آخر کب تک چاپلوسی کی سیاست اور قیادت کرتے ہوئے مسلمانوں کو برباد کرتے رہیں گے اس سوال کا جواب ہم آج بھی ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہمارا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹیپوجینتی منانے کے بعد مسلمانوں کے تمام مسائل حل ہوچکے ہیں ؟۔ کیا حج ہاوز حاصل کرنے کے بعد تمام مسلمانوں کو رہنے کے لئے مکان مل گیا ہے۔ پرائم منسٹر 15پوائنٹس پروگرام کے مطابق ہر مسلمان کو رہنے کے لئے گھر دینے کی ہدایت دی گئی ہے لیکن پچھلے دس سالوں میں کتنے مسلمانوں کو خاص رعایت کے ساتھ گھر دیا گیا ہے، کرناٹک میں مسلمانوں کو جسٹس سچر کمیٹی کی سفارشات کے مطابق کتنی سہولیات دی گئی ہیں؟

حالانکہ مرکزی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے جسٹس سچرکمیٹی کی سفارشات کو مکمل طورپر نافذ کردیا ہے لیکن کہاں اور کیسے یہ کوئی نہیں جانتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنی ذمہ داری کے ساتھ ووٹ دلوانے کا کام کیا جاتاہے اتنی ہی ذمہ داری کے ساتھ ووٹ ڈالنے والوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے بھی محاذ جیسی کمیٹیاں حکومتوں پر دبائو ڈالیں تبھی جاکر مسلمانوں کا بھلا ہوسکتاہے ورنہ عام مسلمان سمجھیں گے کہ الیکشن کے موقع  پر یہ لوگ پیکیج پرکام کرتے ہیں۔

آج امت کی صحیح رہنمائی کرنے والوں کی ضرورت ہے نہ کہ کچھ وقت کے لئے رہبر، کچھ وقت کے رہزن بننے والوں کی ضرورت امت کو ہے۔ امت مسلمہ میں جتنے چالاک اور حکمت والے ہیں اتنے ہی معصوم اور بھولے بھالے بھی ہیں۔ آخر کب مسلمانوں کو ہمارے اپنے قائدین صحیح رہنمائی کرینگے یہ سوال میرے ذہن میں ہے اور جواب چاہئے مجھے جواب ڈھونڈتاہوں میں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔