علامہ شبلی نعمانی اور عبدالسلام ندوی
(خطوط کی روشنی میں)
سلمان فیصل
علامہ شبلی نعمانی ممتاز و معروف سوانح نگار، شاعر، ادیب،نقاد،محقق، انشاء پرداز ،خطیب ، اور ایک نابغہ روز گار تھے۔ آپ کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ آپ کے فکروفن کی حیثیت ہمہ گیر اور آفاقی ہے۔ آپ صرف ایک بہترین مصنف ہی نہیں بلکہ ایک مفکر، ماہر تعلیم ، مؤرخ ، مصلح اور جید عالم دین بھی تھے۔ آپ کی تحریریں دینی، سماجی اور اصلاحی ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ آپ ایک صاحب طرز نثر نگار تھے۔ موازنۂ انیس ودبیر کے ذریعہ حالی کی قائم کردہ تنقیدی بنیاد کو مستحکم کرتے ہوئے عملی تنقید کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ اسی طرح آپ نے الفاروق، النعمان، الغزالی وغیرہ لکھ کر سوانحی ادب کی بنیاد کو مضبوط کیا ۔ مزید برآں ’’سیرۃ النبی‘‘ کی تصنیف اس کائنات آب و گل میں آپ کے رتبے اور مقام کو اعلی و ارفع کرنے کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی اعلی مرتبے کے حصول میں معاون و مددگار ثابت ہوگی۔شبلی ایک شاعر بھی تھے، انھوں نے غزلیں اور نظمیں کہیں، مثنوی اور قصائد میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کی مشہور مثنوی ’صبح امید ‘ہے جو کہ مسدس حالی سے Inspireہو کر لکھی گئی تھی۔ تصنیفات و تالیفات شبلی کے علاوہ مقالات شبلی کے مطالعے سے بھی ان کی وسیع القلبی ،کشادہ ذہنی اور فکر میں گہرائی وگیرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مختلف موضوعات پر مبنی مقالاتِ شبلی بھی علامہ شبلی کے افکار و نظریات کے علمبردار اور ان کی ہمہ جہت اور متنوع شخصیات کے عکاس ہیں۔
علامہ شبلی نعمانی سر سید کے رفقاءِ خاص میں جگہ رکھتے تھے۔ سرسیدوحالی کی صحبت میں آپ کی شخصیت میں مزید نکھار آیا ۔ آپ نے جو کچھ سیکھا اور زندگی کے جن تجربات سے روشناس ہوئے ان سب کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے شاگروں کی تربیت میں بھی صرف کیا۔ آپ کے خاص شاگردوں میں سید سلیمان ندوی، عبدالسلام ندوی، عبدالباری ندوی، ضیاء الحسن علوی، اکرام اللہ خاں ندوی وغیرہ اہم ہیں۔ ان شاگردوں نے حق شاگردی ادا کرتے ہوئے آپ کے علمی و ادبی کارواں کو آگے بڑھایا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے شبلی کی سیرۃ النبی کی تکمیل کرکے حق شاگردی ادا کیا۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے شعرالعجم کی طرز پر شعرالہند لکھ کر علامہ شبلی کے طرز تصنیف کو آگے بڑھانے کی بہترین کوشش کی ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی علامہ شبلی نعمانی کے خاص شاگردوں میں شبلی نعمانی کے سب سے زیادہ قریب رہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے آپ کی تربیت خاص انداز سے کی۔ مولانا عبدالسلام ندوی بھی اردو ادب میں ایک خاص مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ ان کی ادبی حیثیت مسلم ہے۔
مولانا عبدالسلام ندوی نے جہاں درجن بھر سے زائد دینی کتابیں لکھیں وہیں آپ کے رشحات قلم نے ادبی ذخیرے میں بھی اضافہ کیا ہے۔آپ ایک اچھے عالم دین ہونے کے ساتھ نقاد،سوانح نگار،مؤرخ، شاعر، مترجم اور مضمون نگار بھی تھے۔ تاریخی وسوانحی کتابوں میں انقلاب الامم، اسوہ صحابہ، سیرت عمر بن عبدالعزیز،تاریخ فقہ اسلامی،تاریخ اخلاق اسلامی اور فقراء اسلام اہم ہیں۔ حالی و شبلی کی تنقیدی بصیرت سے فیض حاصل کرتے ہوئے تنقیدی میدان میں بھی انھوں نے شعرالعجم کی طرز پر شعرالہند لکھا۔یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل اردوکی ادبی تاریخ ہے۔’ اقبال کامل‘ مولانا عبدالسلام ندوی کی مایہ ناز تصنیف ہے۔ اقبال کی شخصیت، فکرو فن کے تمام گوشوں پر مفصل روشنی ڈالنے والی غالباً یہ پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالسلام ندوی کا خون جگر بھی شامل ہے۔ اس کی تصنیف و تکمیل میں مولانا نے بہت محنت و مشقت کی ۔ تب جاکر علامہ اقبال پر کامل کتاب تصنیف کر سکے۔اقبالیاتی ادب میں یہ کتاب مرجع اور سند کا درجہ رکھتی ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے اس کے علاوہ متعدد تنقیدی مقالات لکھے ہیں ۔آپ ایک اچھے مترجم بھی تھے۔
علامہ شبلی نعمانی اور مولانا عبدالسلام ندوی کے مابین استاذ شاگرد کا رشتہ تھا ، اس کے علاوہ دونوں حضرات ایک دوسرے سے بے حد قریب بھی تھے۔ ان کی قربت اور ان کے مابین رشتوں کا علم دونوں کے درمیان ہوئی خط و کتابت سے ہوتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے مولانا کے نام آٹھ (۸) خطوط لکھے ۔ ان خطوط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کا رویہ مولانا کے تئیں کس قسم کا تھا۔ دونوں کے درمیان تعلقات کیسے تھے۔ مولانا عبدالسلام ندوی علامہ شبلی نعمانی کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور علامہ ان کو عزیز رکھتے تھے اور مختلف امور پر ان سے بھی رابطہ اور مشورہ کرتے تھے۔علامہ ان کو نصیحتیں بھی کرتے اور حسب ضرورت تنبیہ بھی کرتے تھے۔علامہ شبلی نعمانی مولانا عبدالسلام ندوی پر بھروسہ بھی کرتے اور ان کی علمی استعدادکے معترف اور قدرداں بھی تھے۔ مکاتیب شبلی حصہ دوم میں مولانا عبدالسلام ندوی کے نام پانچویں خط میں لکھتے ہیں کہ ’’ تم جاتے ہو تو رسالے کا کیا حشر ہوگا‘‘۔ یہ خط الٰہ آباد سے 3؍مارچ 1914 کو لکھا گیا تھا۔ اس خط میں اُس رسالے کا ذکر ہے جس کو علامہ شبلی مولانا عبدالسلام ندوی کے ساتھ جاری کرنا چاہتے تھے لیکن مولانا عبدالسلام ندوی ’’الہلال‘‘ میں جانا چاہتے تھے۔ اسی لیے علامہ شبلی نے ان کو لکھا کہ تمھارے بغیر رسالے کا کیا حشر ہوگا۔ پھر اسی خط میں آگے لکھتے ہیں :
’’تم الہلال میں جاؤ مضائقہ نہیں لیکن یہ شرط کر لو کہ تم الہلال میں جذب نہ ہو جاؤ یعنی جو لکھو اپنے نام سے لکھو ورنہ تمھاری زندگی پر بالکل پردہ پڑ جائے گا اور آئندہ ترقیوں کے لیے مضر ہوگا۔‘‘ (مکاتیب شبلی، حصہ دوم،مطبع معارف اعظم گڑھ،1971، ص:152)
مذکورہ بالا خط کے ان جملوں سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ شبلی مولانا عبدالسلام ندوی کو کس قدر عزیز رکھتے تھے ۔ انھیں اس بات کا دکھ تھا کہ وہ علامہ شبلی کو چھوڑ کر مولانا آزاد کے الہلال میں کام کرنے جانا چاہتے ہیں۔ علامہ شبلی انھیں تنبیہ کرتے ہیں کہ اگر الہلال میں جانا ہی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن وہاں جو کچھ لکھیں اپنے نام سے لکھیں۔ علامہ کی جانب سے یہ نصیحت اور تنبیہ دونوں تھی اور اس قسم کی نصیحت اور تنبیہ کسی خاص کو ہی دی جاسکتی ہے۔
علامہ شبلی نعمانی مولانا عبدالسلام ندوی کو علمی کاموں میں مشورہ بھی دیتے تھے۔ اس کی ایک مثال ان کے ایک دوسرے خط میں ملتی ہے۔ یہ خط الٰہ آباد سے 29؍فروری1914 کو لکھا گیا تھا:
’’مولوی عبدالسلام!
تم بھولے کیوں بن جاتے ہو تم خود اگر قرآن مجید پر کوئی کتاب لکھتے تو کن عنوانوں کو لیتے ۔ انھیں شروع کرو پھر میں بتاتا بھی جاؤں گا۔ سردست چند حسب ذیل ہیں۔
1۔ زبان کی تہذیب، غیر قابل اظہار چیزوں کو دوسری طرح سے ادا کرنا مثلاً لامستم النساء اذا جاء احد منکم من الغائط
2۔ احکام تورات کے خلاف احکام
3۔ تاریخی ترتیب قرآن۔ سورتوں کی تعیین تو آسان ہے۔ اتقان میں بھی مذکور ہے لیکن صحاح ستہ سے مستنبط کرنا چاہیے پھر مہما امکن آیتوں کی ترتیب
4۔ مدنی ومکی سورتوں کی خصوصیات امتیازی
(مکاتیب شبلی، حصہ دوم، ص: ۱۵۱)
علامہ شبلی نعمانی نے اس خط میں مولانا عبدالسلام ندوی کو قرآن کریم پر ایک کتاب لکھنے کا مشورہ دیا ہے اور انھوں نے موضوعات اور عنوانات بھی تجویز کردیے ہیں کہ ان موضوعات پر لکھا جاسکتا ہے اور کس طرح سے لکھا جاسکتا ہے، اس کو اشارۃ بیان کیا ہے۔ علما ءِ کبار کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے خاص شاگردوں سے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھواتے تھے۔ اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی نے مولانا عبدالسلام ندوی کو مشورہ دیا تھا۔
ایک اچھے استاذ اور معلم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی اپنے شاگردوں کی خطا اور نسیان پر گرفت بھی کرتے اور ان کی اصلاح بھی کرتے تھے۔ ایک خط میں علامہ شبلی نے مولانا عبدالسلام ندوی کولکھا ہے:
’’عزیزی عبدالسلام!
رسالہ ادیب کی نسبت تم نے جوریمارک لکھا ہے وہ ایڈیٹوریل میں لکھا جس سے قیاس ہوتا ہے کہ میرا لکھا ہوا ہے مجھے اس سے نہایت افسوس ہوا۔ میرا وہ طرز عبارت نہیں ہے اور جو مصرع تم نے نقل کیا اس کو میں اپنے حق میں ازالہ حیثیت عرفی سمجھتا ہوں آئندہ احتیاط رکھو کہ ایسے مبتذل اور عامیانہ فقرے درج نہ ہونے پائیں۔
شبلی، دہلی 26؍مارچ 1910
(مکاتیب شبلی، حصہ دوم،ص:149)
مذکورہ بالا خط میں علامہ شبلی مولانا عبدالسلام ندوی کو ایک تحریر پر گرفت کرتے ہیں جو انھوں نے ’الندوہ‘ کے اداریے میں لکھا تھا ۔ یہ تحریر علامہ شبلی کو پسند نہیں آئی تو انھوں نے اس پر گرفت کی اور اصلاح کی۔ اس تحریر سے متعلق مکاتیب شبلی حصہ دوم میں مرتب نے حاشیے میں یہ وضاحت درج کی ہے:
’’مکتوب الیہ اس زمانے میں ’الندوہ‘ کے ایڈیٹر تھے انھوں نے الٰہ آباد کے رسالہ’ ادیب‘ پر الندہ نمبر 3 جلد 7 میں ریویو کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’حال میں الٰہ آباد سے ادیب ظاہری شکل و صورت میں اس آب ورنگ سے نکلا کہ تمام لوگ پکار اٹھے
ع اس طرح کا جمال ہو ایسا شباب ہو‘‘۔
(مکاتیب شبلی، حصہ دوم،ص:149)
مرتبِ مکاتیب شبلی علامہ سید سلیمان ندو ی نے یہ وضاحت کی ہے کیوں علامہ شبلی نے اپنے خط میں مولانا عبدالسلام ندوی کو تنبیہ کی تھی۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے رسالہ ادیب کی جو تعریف کی تھی وہ علامہ شبلی نعمانی کو پسند نہیں آئی اور دوسری بات یہ کہ وہ اداریے کی تحریر تھی جس سے قارئین کو گمان ہوتاکہ شبلی اس رسالے کے بارے میں ایسا سوچتے ہیں جبکہ شبلی کی یہ رائے بالکل نہیں تھی۔ لہٰذا انھوں نے اپنے شاگرد کے نسیان پر گرفت کی اور اصلاح کی۔ یہ ایک اچھے استاذ کی مثال ہے۔
استاذ شاگر کے درمیان کبھی اختلاف بھی پیدا ہوجاتے ہیں ۔ ایسا ہی کچھ علامہ شبلی نعمانی اور مولانا عبدالسلام ندوی کے درمیان میں بھی ہوا لیکن یہ استاذ کی اعلی ظرفی کہ اپنے خاص شاگرد کو کس انداز سے مخاطب کر رہے ہیں:
’’مولوی عبدالسلام!
بھائی تم ناراض ہوگئے۔ البشیروغیرہ کا مجھ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے ہمدرد یا کسی نے تمھارے متعلق ایک حرف نہیں کہا یہ خبر بھی تمھیں میں نے دی۔ میری غرض تو صرف اس قدر تھی کہ کام بھی کرتے جاؤ۔
تم کہتے ہو کہ اپنے ہواخواہ کی مبالغہ آمیز سفارش کرتا ہوں۔ بھائی تم سے بڑھ کر کون ہوا خواہ ہوگا کہ باوجود میرے منع کرنے کے تم نے سلسلۂ مضامین نہ چھوڑا۔
مولوی ابوالکلام یہاں نہیں لیکن تمھارے بہت طالب ہیں اور مجھ سے وعدہ لیا ہے کہ الہلال میں جانے کی اجازت دوں گا۔
اور الہلال میں جاؤ تو ناراض ہوکر کیوں جاؤ
تم میری وجہ سے یا میں تمھاری وجہ سے بدنام ہوچکے پھر اخیر میں ناچاقی یہ کس قدر افسوس کی بات ہے۔
شبلی، دہلی 21؍اپریل 1914
(مکاتیب شبلی، حصہ دوم، ص:153۔154)
مذکورہ بالا خط میں شبلی نے مولانا عبدالسلام ندوی کی ناراضگی کا ذکر کیا اور پھر ان کو ناصحانہ انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس خط میں علامہ نے انھیں ’بھائی‘ کے لفظ سے خطاب کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ شبلی نعمانی مولانا عبدالسلام ندوی کو کتناعزیز رکھتے تھے ۔ دونوں کے درمیان جو اختلاف ہوا اور دشمنوں نے اس کو استعمال کرکے ان کے خلاف سازشیں کیں، ان سب کا حوالہ دیتے ہوئے علامہ شبلی نے مولانا عبدالسلام ندوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ناراض ہونے کی اب ضرورت نہیں ہے ہاں اس معاملے پر افسوس ضرور ہے۔اس خط سے متعلق مرتب نے حاشیے میں ا س واقعہ کا مختصراً ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے وونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوئے تھے اور ناراضگی ہوئی تھی۔علامہ شبلی نعمانی نے مسعود علی ندوی کو بھی اس معاملے سے متعلق خطوط لکھے تھے اور مولانا عبدالسلام ندوی کے بارے میں ان سے گفتگو کی تھی۔
علامہ شبلی نے جو خطوط مولانا عبدالسلام ندوی کو لکھے تھے ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علامہ شبلی کے شاگرد عزیز تھے۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے علامہ شبلی نعمانی کو جو خطوط لکھے وہ حاصل نہیں ہوسکے ہیں جس کی وجہ سے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ ادھورا ہے۔ پھر بھی کوشش کی گئی ہے کہ حتی الامکان دونوں کے تعلقات واضح ہوجائیں۔ علامہ شبلی نے دوسروں کے نام لکھے خطوط میں بھی مولانا عبدالسلام ندوی کے بارے میں لکھا ہے، مثلا مسعود علی کے نام کئی خطوط میں مولانا عبدالسلام ندوی کا ذکر ہے کہ ان سے فلاں فلاں کام کہہ دو یا وہ فلاں کام کرلیں تو بہتر ہوگا۔ اسی طرح انھوں نے دوسروں کے نام لکھے خطوط میں مولانا عبدالسلام ندوی کے بارے میں تعریف بھی کی ہے۔ ایم مہدی حسن کے نام ایک خط میں علامہ شبلی نے لکھا ہے:
’’عبدالسلام نہایت ہونہار ہے وہ پورا مصنف ہوسکتا ہے اور ہوگا انگریزی نہیں جانتا لیکن پڑھ رہا ہے ندوہ اس قسم کے جواہر چمکانے والا ہے۔‘‘
(مکاتیب شبلی، حصہ دوم،ص:209)
علامہ شبلی نے یہ خط 13 دسمبر 1906 کو بانکی پور سے لکھا تھاگویا کہ اس وقت مولانا عبدالسلام ندوی کم عمر ہی تھے اور اس نوجوانی کی عمر میں علامہ شبلی ان کے لیے تعریفی کلمات لکھے تھے۔ یعنی انھیں اندازہ تھا کہ آگے چل کر مولانا عبدالسلام ندوی ایک بڑے عالم اور ادیب کی صورت میں ابھرنے والے ہیں۔ اس خط سے پہلے علامہ شبلی مولانا عبدالسلام ندوی کے بارے میں ایم مہدی حسن کو اکتوبر 1906 کے ایک خط میں لکھ چکے تھے کہ :
’’ہمارے ہاں یعنی ندوہ میں عبدالسلام نہایت قابل لڑکا ہے جو غالباً خالی ہونے والی کرسیوں کا مستحق ہوگا۔‘‘
(مکاتیب شبلی، حصہ دوم، ص:۲۰۸)
ایم مہدی حسن کے نام لکھے گئے ان دونوں خطوط سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ شبلی نعمانی مولانا عبدالسلام ندوی کی علمی استعداد سے واقف تھے اور ان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو جانتے تھے۔ لہٰذا ان کی تعریف بھی دوسروں سے کرتے تھے اور ان سے علمی کام بھی لیتے تھے جس سے مولانا عبدالسلام ندوی کو علامہ شبلی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
سید سلیمان ندوی نے ’حیات شبلی‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ انھوں نے علامہ شبلی کے خاندانی اور ابتدائی حالات سے عدم واقفیت کی وجہ سے سب سے پہلے مولانا عبدالسلام ندوی کو حیات شبلی لکھنے کو کہا تھا اور مولانا عبدالسلام ندوی نے لکھا بھی لیکن وہ ابھی تک شائع نہیں ہوئی اورشائع نہ ہونے کی غالباً یہ وجہ ہوئی کہ بعد میں سید سلیمان ندو ی کے بقول اقبال سہیل نے مولانا عبدالسلام ندوی کے مسودے کو گھٹا بڑھا کر اور علی گڑھ کے بہت سے نئے واقعات کا اضافہ کرکے نیا مضمون تیار کیا جو سیرت شبلی کے عنوان سے ’’الاصلاح‘‘ میں چھ قسطوں میں شائع ہوا۔ لیکن اقبال سہیل کے سیاست میں داخل ہونے کے سبب یہ کام رک گیا ۔لہٰذا سید سلیمان ندوی نے ’’حیات شبلی‘‘ کے نام سے شبلی کے متعلق بہت سی چیزوں کو اکٹھا کیا اور کتاب کی صورت میں شائع کیا۔
مولانا عبدالسلام ندوی کی لکھی ہوئی حیات شبلی اب تک شائع نہ ہونے کی یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کا مسودہ بقول سید سلیمان ندوی اقبال سہیل نے کچھ گھٹا بڑھا کر ’’الاصلاح‘‘ میں قسطوار شائع کیا تھا۔ اور پھر سید سلیمان ندوی کی ’حیات شبلی‘ منظر عام پر آگئی لہٰذا مولانا عبدالسلام ندوی کی لکھی ہوئی ’حیات شبلی‘ شائع ہونے سے رہ گئی۔ بہر حال اگر وہ شائع ہوتی ہے توشبلی سے متعلق نئے گوشے سامنے آنے کے امکانات روشن ہیں۔ مولانا عبدالسلام ندوی کی ’حیات شبلی‘ شائع ہونے سے دونوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت اور زیادہ واضح ہونے کی پوری امید ہے۔
تبصرے بند ہیں۔