عمران خان

ندیم عبدالقدیر

پہاڑجیسے ارادوں اور فولاد  جیسے عزم کے مالک عمران خان پاکستان کے اگلے وزیر اعظم ہونگے۔

عمران خان کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ ان کی سیمابی شخصیت ہمیشہ کسی نہ کسی منزلِ ناممکن کی متلاشی رہی  ۔ صحرا کوتسخیر کرنا  اورستاروں پر کمند ڈالنا ان کی فطرتِ جلیلہ کا حصہ رہا  ہے۔ دنیا میں کم ہی لوگ کامیابی کی اس منزلِ مراد کو  پہنچ پا ئے ہیں جسے عمران خان نے سر کرلیاہے۔ کرکٹ ورلڈ کپ کی کامیابی، کینسر اسپتال کی تعمیراور ناقابل یقین طور پر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن جانے تک کا عمران خان کا سفر پریو ں کے دیس کی کہانی جیسا لگتا ہے۔

عمران خان پاکستان کے فلک پر امید کا نیا روشن ستارہ ہے، لیکن کیا عمران خان پاکستان کی ایک طویل اور سیاہ رات میں کسی  صبحِ نو کا دیباچہ بن سکیں گے۔ کیا عمران خان دہشت گردی، غریبی اور بدعنوانی سے جھلسے گلشنِ پاکستان میں کسی بہار کی تمہید ثابت ہونگے۔ امیدیں جب اپنی حدوں سے تجاوز کرجائیں تو مایوسی  کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ شاید کچھ یہی حال پاکستان میں عمران خان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا خواب وزیر اعظم بننا ہی تھا انہیں  معلوم  ہونا چاہئے کہ جنرل پرویز مشرف ۲۰۰۲ء میں ہی عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کرچکے تھے لیکن عمران خان نے یہ پیشکش مسترد کردی تھی۔ وہ کوئی کٹھ پتلی وزیر اعظم بننے کے خواہشمند نہیں تھے۔

  ۸۷ء کے ورلڈ کپ کے بعد عمران خان نے دنیائے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا لیکن جنرل ضیاء الحق کے کہنے پر آزادانہ طور پر کام کرنے کی شرط کے ساتھ لوٹے۔ قسمت نے یاوری کی اور اگلا ورلڈ کپ پاکستان کے نام رہا۔ کرکٹ سے سبکدوشی کے بعد  جب انہوں نے کینسر اسپتال کا سنگِ بنیاد رکھا تو لوگوں نے انہیں پاگل قرار دیا  کہ پاکستان میں ایسا اسپتال بنانا ناممکن ہے۔ انہوں نے تمام تنقیدوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے کینسر کا ایشیا کا سب سے بڑا اسپتال تعمیر کرکے دکھادیا۔ جب میدانِ سیاست میں قدم رکھاتو مخالفین نے انہیںہدفِ ملامت بنایا۔ ’ سلطنت ِشریف‘ اور ’ سلطنت  بھٹو‘ کے مقابلے میں  عمران خان کی حیثیت کسی پیادے کی بھی نہیں تھی۔ شریف اور بھٹو کے وظیفہ خوروں نے عمران خان کے خلاف ایک محاذ کھول دیا۔ تنقید، تضحیک، ملامت اور لعنت کے استعارات سے نوازا، لیکن عمران خان بھی فیض احمد فیض کے ان اشعار کی طرح   زندہ تشریح ثابت ہوئے   کہ ؎

واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا 

تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی

یہ پٹھان بھی ڈٹ گیا۔ ہماری طرح پاکستان میں بھی الیکشن دولت کے بل بوتے پر لڑے جاتےہیں۔ شریف اور بھٹو خاندان کے پاس وسائل اور دولت کی فراوانی تھی جبکہ عمران خان اس سے محروم تھے۔اس محرومی اور اس تنگدستی کے باوجود بھی کپتان کے قدم متزلزل نہیں ہوئے۔ انہوں نے پاکستان کی سیاست کو نئے نظریات سے آگاہ کیااور سادگی پسندی کو اندازِ زندگی کے طور پر متعارف کرایا۔بدعنوانی کے خلاف جہاد چھیڑا اور سمجھا یا حصولِ دولت کی ایک غیر اعلانیہ دوڑ  اس ملک کے لئے کس قدر ہلاکت خیز ہے۔  پہلے الیکشن میں عمران خان  دو سیٹوں سےمیدانِ انتخابات میں اترے اور دونوں   نشست پر ناکامی ہاتھ لگی۔تنقید، تضحیک اور رسوائی کا نشانہ بنے۔ اس کے بعد کے عام انتخابات میں  وہ  اپنی پارٹی کے واحد رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ پارٹی قائم کرنے کے بعد تیسرے الیکشن کا انہوں نے بائیکاٹ کیا۔  قدرت  بھی عمران خان پر دھیرے دھیرے اپنے خزانے دراز کرتی رہی۔ چوتھے الیکشن میں تحریکِ انصاف نے۳۰؍نشستیں جیتنے میں کامیابی حاصل کی اور پانچویں الیکشن میںپاکستان کی سب سے بڑی پارٹی بن کر تاریخ رقم کردی۔

پاکستان چونکہ ایک اسلامی ریاست ہے اورنیوکلیائی طاقت کا  حامل بھی،  اسلئے  اسلامی بلاک میں  اس کی اہم جگہ بن جاتی ہے۔ اسلامی بلاک کا اہم رکن ہونے کے باعث برصغیر میں اس کی اہمیت خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ اس لحاظ سے عمران خان کو بر صغیر میں نئی قیادت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ برصغیر میں امن کی کاشت کریں گے اور خون خرابے کے اسباب کا سد باب کرنے کے تئیں محنت۔

عمران خان پاکستان کی سیاست میں ایسی واحد شخصیت  اٹھی ہے۔ جس کیلئے طالبان اور اسلامی تحریکیں بھی  رضامند ہیں،جو پاکستانی فوج  کی بھی  پسند ہے، امریکہ  کیلئے بھی قابل قبول ہے اور پاکستانی عوام نے بھی جس کے حق میں اپنا فیصلہ سنادیا۔ یہ سب ملا کر عمران خان کو ایسی شخصیت بنا دیتےہیںجس سے سب کو خیر امید ہے۔

 عمران خان نے اپنی اولین تقریر میں ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کا بہت بعد میں ذکر کیا۔ پہلے پاکستان میں  ملک سے غریبی اور بھکمری کے خاتمہ کو اپنا مقصد بتایا۔ شاہانہ زندگی سے پرہیز کرنا اپنا اصول قرار دیا۔ پھر خارجہ پالیسی میں پہلے چین، پھر افغانستان اور پھر برصغیر کی بات کی۔ برصغیر کی باتوں کی تفصیلات میں ہندوستان کا  ذکر آیا۔

ہندوستان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستانی میڈیا کے رویے پر اظہارِ افسوس کیا۔ عمران خان نے صاف طور پر کہا کہ ہندوستانی میڈیا نے ان کی شبیہ کو مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ہندوستان کی بات کرتے ہوئے انہوں نے   خیر سگالی پرزور دیا۔ برصغیر میں امن قائم کرنے کے مقصد کو بیان کیا۔ دو طرفہ مذاکرات کی بات کرنے میں  وہ  کشمیر کا تذکرہ کرنا نہیں بھولے۔ انہوں نے کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی کا بھی موضوع اٹھایا۔عمران خان کےانداز سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کے خواہشمند ہیں اور امن کے متقاضی ہیں، جو یقیناً خوش آئند بات ہے۔

عمران خان کی تقریر کی سب سے اہم بات ان کا ریاستِ مدینہ کا حوالہ دینا رہا ہے۔ انہوںنے اپنی  تقریر میں آپﷺ کے نظریات پر چلتے ہوئے پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرکے ساری دنیا پر واضح کردیا کہ بنی نوع انسان کیلئے  اگر کوئی رول ماڈل ہوسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف نبی آخرالزماں محمد ﷺکی ہی ذاتِ مبارکہ ہے۔ عمران خان کے اس عزم پر اکبرالہ آبادی کا مصرع یا د آتا ہے۔ ؎

کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

  کیا واقعی عمران خان ایسی فلاحی ریاست یا اس کا کوئی معمولی سے ہی عکس جیسی ریاست قائم کرپائیں گے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے،کیونکہ اگر عمران خان ایسی کوئی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوتےہیں تو یہ شیطان کی بہت بڑی شکست ہوگی۔ کیا شیطان اپنی شکست کا نظارہ بیٹھ کرکرتا رہے گا، یا پھر اپنے درندوں کو ابھارے گا؟اندرونِ پاکستان سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اسلام کے تمام دشمن ایسی ریاست ایسے نظام کو خاموشی سے  پھلتا پھولتا اور پروان چڑھتا دیکھیں گے؟ یہ بڑا سوال ہے، کیونکہ ایسی کوئی بھی مثال دنیا کے موجودہ ابلیسی نظامِ حکومت کے خاتمہ کا اعلان ہوگی۔

عمران خان کی جہدِ مسلسل کا اگلا مرحلہ پچھلے سے زیادہ سخت کوش ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔