عید الفطر: حقیقت، اہمیت، فضیلت، پیغام، تقاضے اور احکام و مسائل
مفتی شکیل منصور القاسمی
ایک مہینہ کی بھوک وپیاس، ریاضتوں اور لذات نفس کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد کھانے پینے کی پہر سے رخصت ملنے پر جو طبعی خوشی ہوتی ہے، اسی طرح دن کا روزہ، رات کی تراویح، بشکل زکات وصدقات غرباء ومساکین کی ہمدردی وغمخواری کی خدا تعالی کی جانب سے توفیق ارزانی پر جو عقلی خوشی مسلمانوں کو حاصل ہوتی ہے، شرعی دائرے میں رہتے ہوئے اسی خوشی کے اظہار کا نام ” عید الفطر ” ہے۔
لفظ عید کے لغوی مفہوم میں ” لوٹنا "شامل ہے، جہاں ہر سال اس دن کے آنے اور پلٹنے کی وجہ سے اسے عید سے موسوم کیا جاتا ہے، وہیں مہینہ بھر کی روحانی ریاضتوں اور نفسانی واخلاقی طہارتوں وپاکیزگیوں کے بعد ایک نئی روحانی زندگی کے "عود” کر آنے کی وجہ سے بھی اس دن کو عید کہا جاتا ہے۔ یعنی رحمت، مغفرت، اور جہنم سے خلاصی کے عشروں کی سعادتوں سے بہرہ ور ہونے اور گناہوں کی کثافتوں سے پاک وصاف ہوجانے کے بعد دوبارہ ایک نئی پاکیزہ زندگی عطا ہوتی ہے ؛ جس کی وجہ سے بھی اس تاریخی دن کو عید کہا جاتا ہے۔
دیگر اقوام وملل کی طرح ہماری عید محض اظہار مسرت، رقص وسرود یا موج مستی وتعیشات کا نام نہیں ہے، بلکہ ہمارے مذہب میں عید کی بنیاد : روح کی لطافت، قلب کے تزکیہ، نفس وبدن کی طہارت، ایثار وہمدردی ہر ایک سے اظہار محبت، ہمدردی ویگانگت، آپسی اتحاد واتفاق، ملی اجتماعیت ووحدت، عجز وانکسار اور خشوع و خضوع پہ قائم ہے۔
یعنی عید صرف علامتی خوشی اور رواجی مسرت کا دن نہیں ؛ بلکہ مذہبی تہوار، ملی شعار اور عبادتوں کے بدلے کا دن ہے۔
شوال کی پہلی تاریخ کو "عید الفطر” اور ذی الحجہ کی دس تاریخ کو "عید الاضحی” کہا جاتا ہے۔
عید الفطر کی رات یعنی چاند رات کو "ليلة الجائزة ” اور عید الفطر کے دن کو ” یوم الْجَوَائِزِ” یعنی انعامات و بدلے کا دن حدیث میں کہا گیا ہے۔
حضرت ابن عباس سے موقوفاً مَروی ہے :”يَوْمُ الْفِطْرِ يَوْمُ الْجَوَائِزِ“
عید کا دن ”یوم الجَوَائِز“یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔(کنز العمال :24540)
نبی کریمﷺ اس دن کو مذہبی تہوار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ”إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا“ (بیشک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری:952)
اللہ تعالی عید الفطر کے دن فرشتوں کو گواہ بناکر روزہ داروں کی مغفرت فرمادیتے اور ان کے گناہوں کو سیئات سے بدل دیتے ہیں، چنانچہ روزہ دار عید گاہ سے بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں۔
چاند رات ہم کیا کریں ؟
عید الفطر کی رات بڑی فضیلت اور برکت والی ہے، یہ انعام کی رات اور اللہ تعالی سے مزدوری لینے کی رات ہے، اس رات میں اللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں کو رمضان کی مشقتوں، قربانیوں اور ریاضتوں کا بدلہ دیا جاتا ہے، دعائیں مقبول ہوتی ہیں، جنت واجب ہوتی ہے، دل کو روحانی زندگی نصیب ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
”مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ“
جس عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔(ابن ماجہ:1782)(طبرانی اوسط:159)
ایک جگہ نبی کریمﷺاِرشاد فرماتے ہیں :
”مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِيَ الْخَمْسَ وَجَبتْ لَهُ الْجنَّة لَيْلَةَ التَّرويَة وَلَيْلَةَ عَرَفَة وَلَيْلَةَ النَّحْر وَلَيْلَةَ الْفِطْرِ وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَان“
جو پانچ راتوں میں عبادت کا اہتمام کرےاُس کیلئے جنّت واجب ہوجاتی ہے : لیلۃ الترویۃ یعنی 8 ذی الحجہ کی رات، لیلۃ العرفہ یعنی9ذی الحجہ کی رات، لیلۃ النّحر یعنی10ذی الحجہ کی رات، لیلۃ الفطر یعنی عید الفطر کی شب اورلیلۃ النّصف من شعبان یعنی شعبان کی پندرہویں شب۔(الترغیب و الترھیب: 1656)
ایک جگہ ارشاد ہے :
”خَمْسُ لَيَالٍ لَا تُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءَ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ“
پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعاء کو ردّ نہیں کیا جاتا :جمعہ کی شب، رجب کی پہلی شب، شعبان کی پندرہویں شب، اور دونوں عیدوں(یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی راتیں۔(مصنف عبد الرزاق :7927)
اس لئے مارکٹوں اور بازاروں میں مٹر گشتی کرنے کی بجائے خدا کے حضور عجز ومسکنت سے اور خوب گر گرا کے مانگنے کی رات ہے، اسے ضائع کرنا بڑی محرومی کی بات ہے۔
عید کی نماز کن لوگوں پر واجب ہے؟
جس شخص میں درج ذیل امور پائے جائیں اس پر جمعہ وعیدین کی نماز واجب ہے:
(۱) شہر یا بڑے گاوٴں میں مقیم ہونا کیونکہ جو شخص چھوٹے گاوٴں یا جنگل میں ہو اس پر جمعہ فرض نہیں۔
(۲) صحت مند ہونا کیونکہ جو مریض مسجد جانے سے معذور ہو یا مسجد جانے کی صورت میں بیماری بڑھ جانے یا دیر میں شفایابی کا یقین یا غالب گمان ہو تو اس پر جمعہ فرض نہیں۔
(۳) آزاد ہونا کیونکہ غلام پر جمعہ فرض نہیں۔
(۴) مرد ہونا پس عورتوں پر جمعہ فرض نہیں۔
(۵) بالغ ہونا پس نابالغ پر جمعہ بلکہ کوئی عبادت فرض نہیں، وہ غیر مکلف ہے۔
(۶) عاقل ہونا پس مجنون پر بھی کوئی عبادت لازم نہیں، وہ بھی غیر مکلف ہے۔
(۷) بینا ہونا پس نابینا پر جمعہ فرض نہیں۔
(۸) چلنے پر قادر ہونا پس اپاہج پر اور پیر کٹے ہوئے شخص پر جمعہ فرض نہیں۔
(۹) قید خانہ وغیرہ میں قید نہ ہونا، پس قیدی پر جمعہ فرض نہیں۔
(۱۰) مسجد جانے میں کسی دشمن کا خوف نہ ہونا پس خائف پر جمعہ فرض نہیں۔
(۱۱) سخت بارش اور کیچڑ وغیرہ نہ ہونا۔
عیدین کے مسنون اعمال
(۱) شریعت کے موافق اپنی آرائش کرنا۔
(۲) غسل کرنا۔
(۳) مسواک کرنا۔
۴)عمدہ سے عمدہ کپڑے جوپاس موجود ہوں پہننا۔
(۵)خوشبو لگانا۔
(۶)صبح کوبہت سویرے اٹھنا۔
(۷)عیدگاہ میں بہت سویرے جانا۔
(۸)عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز جیسے چھوہارے وغیرہ کھانا۔
(۹)عیدگاہ جانے سے پہلے صدقۂ فطر دے دینا۔
(۱۰)عیدکی نماز عیدگاہ میں جاکر پڑھنا۔
(۱۱)جس راستے سے جائے اس کے سوا دوسرے راستے سے واپس آنا۔
(۱۲)پیدل جانا۔
(۱۳)راستے میں اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبروللہ الحمد آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔
عید الفطر کے دن نوافل پڑھنا
عید کے دن فجر کی نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد سے عید کی نماز ادا کرنے تک نفل نماز ادا کرنا مطلقاً (عیدگاہ ہو یا گھر یا کوئی اور جگہ) مکروہ (تحریمی) ہے، اور عید کی نماز کے بعد سے اس دن کے زوال تک صرف عیدگاہ میں نفل نماز ادا کرنا مکروہ ہے، جب کہ عید کی نماز کے بعد گھر میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے۔ جیساکہ "طحطاوی علی الدر المختار” میں ہے:
‘ولا يتنفل قبلها مطلقاً … و كذا لا يتنفل بعدها في مصلاه؛ فإنه مكروه عند العامة، و إن تنفل بعدها في البيت جاز … قوله: (فإنه مكروه) أي تحريماً علي الظاهر…الخ (كتاب الصلاة، باب العيدين، ١/ ٣٥٣، ط: رشيدية- فتاوی بنوریہ، فتوی نمبر : 143909202023)
عید کے دن صدقہ فطر نکالنا
خوشی ومسرت کے موقع پہ اسلام نے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کا حکم فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: فرض رسول الله زكوة الفطر وقال أغنوهم في هذا اليوم — غریبوں کی اس دن مالی مدد کرو۔ أخرجه الدار قطني كتاب الزكاة، (2/152)، رقم (67)، والبيهقي في السنن الكبرى، في كتاب الزكاة، باب وقت إخراج زكاة الفطر، (4/175)، رقم (7528)، من حديث ابن عمر رضي الله عنهما.)
اسی لئے ہر صاحب نصاب شخص پر اپنے اور اپنے زیر کفالت لوگوں کی طرف سے عید کے دن فطرانہ ادا کرنا واجب ہے، صدقہ فطر عید سے پہلے رمضان میں دینا بھی جائز ہے حتی کہ اگر کسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو عید کے بعد بھی دے سکتا ہے؛ یہ عبادت مالی ہے جو تاخیر سے ساقط نہیں ہوتی ہے۔ لیکن عید الفطر کے روز سورج نکلنے کے بعد عید گاہ جانے سے پہلے فطرانہ ادا کرنا مستحب وپسندیدہ ہے، صدقہ فطر چار قسم کی چیزوں : گیہوں، جو، کھجور، کشمش میں واجب ہے،
گیہوں میں قریب پونے دو سیر اور باقی تینوں میں ساڑھے تین سیر بعینہ وہ چیز یا اس کی قیمت ادا کی جایے، قیمت دینا زیادہ بہتر ہے، فطرانہ کا مقصد غرباء کی حاجت روائی ہے، اس لئے صاحب حیثیت اور متمول لوگ کھجور اور کشمش وغیرہ کی قیمتوں کے ذریعہ فطرانہ ادا کریں تاکہ بیچاروں کا فائدہ ہوجائے۔
خوب اچھی طرح یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ صدقہ فطر ہمارے یہاں اگرچہ صاحب نصاب لوگوں پر واجب ہے، لیکن یہ انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے، فقیر اور غیر صاحب نصاب لوگوں کو بھی نکالنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
صدقہ فطر عورت پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے نہ شوہر کی طرف سے۔
[ مردوں پر جس طرح اپنی طر ف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے اسی طرح نابالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقہ فطر دینا واجب ہے۔ اگر اولاد مال دار ہو تو پھر باپ کے ذمہ اپنے مال میں سے دینا واجب نہیں بلکہ اولاد کے مال میں سے ادا کرے اور بالغ اولاد کی طرف سے بھی دینا واجب نہیں۔ البتہ اگر کوئی بالغ لڑکا، لڑکی مجنون ہو تواس کی طرف سے اس کا والد صدقہ فطرادا کرے۔عورت پر صرف اپنی طرف سے فطرہ ادا کرنا واجب ہے، بچے یا والدین کی طرف سے نہیں۔
صدقہ فطر کے مستحق بھی وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں یعنی ایسے غریب لوگ جن کے پاس اتنا مال نہیں ہے جس پر صدقہ فطر واجب ہوتاہو۔اور وہ مسلمان ہو، سید اور ہاشمی نہ ہو۔
صدقہ فطر دینے میں اپنے غریب رشتہ داروں اور دینی علم کے سیکھنے سکھانے والوں کو مقدم رکھنا افضل ہے۔جن لوگوں سے یہ پیداہواہے جیسے ماں باپ، دادا، دادی، نانا،نانی اور اس طرح اس کی اولاد ہے جیسے بیٹی، بیٹا، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی ان کو صدقہ فطر نہیں دے سکتا، ایسے بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو بھی صدقہ فطر نہیں دے سکتا۔خالہ، خالو، ماموں، مامی، ساس، سسر، خسر، سالہ، بہنوئی، سوتیلی ماں، سوتیلا باپ سب کو صدقہ فطر دینا درست ہے۔
صدقہ فطر سے مسجد، مدرسہ، اسکول، غسل خانہ، کنواں، مسافر خانہ، پُل، سٹرک غرضیکہ کسی طرح کی عمارت بنانا یا کسی میت کے کفن دفن میں خرچ کرنا یا کسی میت کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کرنا درست نہیں ہے۔
جب تک کسی شخص کے صدقہ فطر کے مستحق ہونے کی تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک اس کو صدقہ نہیں دیناچاہیے اگر بے تحقیق دے دیا پھر معلوم ہواکہ وہ غریب ہی ہے تو ادا ہوگیا ورنہ دیکھا جائے کہ دل کیاگواہی دیتاہے ؟ اگر دل اس کے غریب ہونے کی گواہی دے تو ادا ہوگیا ورنہ پھر سے ادا کرے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر دوسرے شہر میں اس کے غریب رشتہ دار رہتے ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں، یا وہ لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہوں تو ان کو بھیج دیا تو مکروہ نہیں، ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک فقیر کو دینا جائزہے۔
غیر ملک میں مقیم شخص کس حساب سے فطرہ نکالے ؟
غیر ملک میں مقیم شخص اپنا صدقہ فطراپنے وطن میں نکالنا چاہے تو جس ملک میں وہ مقیم ہے وہاں پونے دو سیر یا ساڑھے تین سیر کی جو قیمت بنتی ہے اس حساب سے فطرہ نکالے، اس کے وطن یعنی جہاں فطرہ نکلوا رہا ہے اس کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا۔ (ويعتبر مكانه لنفسه الخ……وعليه الفتوى . الدر المنتقى ٢٢٦/١)
عید کی نماز کا وقت، طریقہ نماز اور دعاء
عیدین کی نماز کا وقت سورج طلوع ہوکر ایک نیزہ کے بقدر بلند ہونے کے بعد(یعنی اشراق کے وقت) سے زوال تک ہے، زوال کے بعد عیدین کی نماز درست نہیں، البتہ عید الفطر کی نماز میں اول وقت سے قدرے تاخیر کرنا مستحب ہے تاکہ لوگ نماز عید سے قبل صدقہ فطر ادا کرلیں، جب کہ عید الاضحی کی نماز میں جلدی کرنا مستحب ہے تاکہ نماز سے فارغ ہو کر جلد قربانی کرسکیں۔(فتاوی بنوریہ )
عیدکی نماز چھ واجب تکبیروں کے ساتھ پڑھتاہوں، دل میں یہ خیال کرکے یا نیت کرکے ہاتھ باندھ لے، عربی میں یا اردو میں نیت کے الفاظ کہنا ضروری نہیں، پہر "سبحانک اللھم” آخرتک پڑھ کر کل تین مرتبہ اللہ اکبر کہا جائے اورہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اورتکبیرکے بعد چھوڑدے اور ہرتکبیر کے بعد اتنی دیرتک توقف کرے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکیں، دو مرتبہ ہاتھ چھوڑ دیں م جبکہ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ چھوڑیں ؛ بلکہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لیں، اس کے بعد اعوذ باللہ، بسم اللہ پڑھ کرسورہ فاتحہ اورکوئی دوسری سورت پڑھ کرحسب دستور رکوع سجدہ کرکے کھڑے ہوں اوردوسری رکعت میں پہلے سورہ فاتحہ اورسورت پڑھ لیں اس کے بعدتین تکبیریں اسی طرح کہی جائیں اور تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑ دیں، پہر بغیر ہاتھ اٹھائے رکوع کی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں چلے جائیں، سلام کے بعد امام دعاء کرانا چاہے تو کراسکتا ہے، بلکہ دعاء مانگنا مستحب ہے، فرض ولازم نہیں، کیونکہ دیگر نمازوں کی طرح عیدین کی نماز کے بعد دعاء کرنا تو مشروع ہے؛ البتہ عیدین کے خطبہ کے بعد دعا مشروع نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم ۵؍۲۲۵، احسن الفتاویٰ ۴؍۱۲۵، فتاویٰ محمودیہ ۲؍۲۹۵ -۲؍۳۰۷، فتاویٰ رحیمیہ ۳؍۷۵) عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول في دبر کل صلاۃ: اللّٰہم رب جبرئیل ومیکائیل وإسرافیل أعذني من حر النار وعذاب القبر۔ (مجمع الزوائد ۱۰؍۱۱۰)
دعاء کرنے کے بعد امام دو خطبہ دے اور مقتدی غور سے سنیں، عید کا خطبہ دینا تو سنت لیکن اس کا سننا واجب ہے، عیدین کے خطبہ میں یہ مستحب لکھا ہے کہ پہلے خطبہ کوشروع کرنے سے پہلے نو بار زور سے اللہ اکبر کہے اور دوسرے خطبہ کے شروع میں پہلے سات دفعہ زور سے اللہ اکبر کہے۔
عیدین کی مبارکباد، مصالحہ ومعانقہ ؟
خطبہ مکمل ہونے کے بعد عید کی مبارکباد دینا درست ہے،ازدیاد تعلق ومحبت کے پیش نظر مبارکباد دینے کے طور پر، عید کا جزو لازم سمجھے بغیر ایسے لوگوں کا آپس میں مصافحہ کرنا جائز ہے جو نماز عید سے قبل بھی ملاقات پہ مصافحہ کئے ہوں۔ ہاں ! عید کے دن معانقہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ؛ الا یہ ہے کہ کوئی رشتہ دار باہر سے آیا ہو اور اسی وقت ملاقات ہورہی ہو تو البتہ مضائقہ نہیں۔ ( مستفاد فتاوی قاسمیہ جلد 3 صفحہ 178)
جس کی عید کی تکبیر زوائد یا رکعت چھوٹ جائے ؟
جو شخص عیدین کی نماز میں امام کے تکبیرات زوائد کہنے کے بعد شامل ہو اور اس کی پہلی رکعت کی تکبیرات چھوٹ گئی ہوں تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کہنے کے فوراً بعد تکبیراتِ زوائد کہہ لے، اگرچہ امام قرأت شروع کر چکا ہو، اور اگر امام رکوع میں ہو تو اگر تکبیراتِ زوائد کہہ کر رکوع ملنے کی امید ہو تو تکبیراتِ زوائد کہہ کر رکوع میں جائے ورنہ رکوع میں جاکر تکبیرات زوائد کہہ لے۔
اگر عیدین کی نماز میں کسی کی پہلی رکعت چھوٹ جائے تو وہ امام کے سلام کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثناء، اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر تین تکبیرات زوائد کہہ کر رکوع کرے، اور بقیہ نماز پوری کرے۔ فتویٰ اسی پر ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ وغیرہ نے یہی طریقہ لکھاہے۔( فتاوی بنوریہ، فتوی نمبر : 143909202067)
عیدین کے بعد قبرستان جانا؟
انفرادی طور پہ جانے کی گنجائش ہے، باضابطہ جماعت اور گروہ بناکر جانا ثابت نہیں ( نظام الفتاوی4/178)
عید کا پیغام
رنگ ونسل کی تفریق وامتیاز کے بغیر پوری امت مسلمہ کے مابین اتحاد واتفاق کا عالمگیر پیغام، غرباء ومساکین کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کا مظہر انہیں شریک مسرت کرنے کا عملی مظاہرہ، پر مسرت موقع پر اعتدال وتوازن کی انوکھی مثال، اسلامی، روایات، اقدار، تہذیب وشائستگی کا خوبصورت جشن، مہینہ بھر کی جسمانی ریاضتوں پہ خدا تعالی سے انعامات لینے، گناہوں کی بخشش کروانے کا حسین دن، اپنے اعمال کا جائزہ لینے، گناہوں، خدا کی نافرمانیوں سے پاک ایک نئی روحانی زندگی گزارنے کے لئے خدا تعالی سے تجدید عہد کا دن ہے۔ اخوت، بھائی چارگی، تحمل مزاجی، مساوات انسانی، سماجی ہم آہنگی، بھوکوں، مظلوموں اور بدحالوں کی داد رسی اور ان کے دکھ درد میں تڑپ اٹھنے کا جذبہ پیدا کرنے کا دن ہے، خدا ہمیں عید کی حقیقی خوشیوں، مسرتوں اور پیغام سے مالا مال فرمائے۔ آمین
تبصرے بند ہیں۔