محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی
عید کے دن قریب آتے جارہے تھے، محلوں اور بازاروں میں کافی گہما گہمی تھی اور محلہ میں بھی بکروں اور گائیوں کی آوازوں میں ہر گذرتے دن اضافہ ہوتا جارہا تھا، جمیل صاحب کے بچے احمد اور اسماء نے ان سے کہا کہ پڑوس والوں کے یہاں قربانی کا جانور آگیا، ابو ہم کب لائیں گے، جمیل صاحب نے بچوں کو تسلی دی کہ ابھی وقت ہے ہم بھی لے آئیں گے پھر بیگم نے بھی پوچھ لیا کہ جانور کب تک آئے گا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ابھی تنخواہ ملنے میں وقت ہے اس لئے رقم کا انتظام کرنا پڑے گا اور کہا کہ شائد کسی سے ادھار لینا پڑے، مہنگائی کے اس دور میں جمیل صاحب کے گھرانے کا تنخواہ پر گزارہ ہی بڑی مشکل سے ہوتا ہے، جبکہ ان کے پڑوسی شوکت صاحب کافی مالدار ہیں اور اپنی شان و شوکت دکھانے کیلئے وہ کافی بڑا اور مہنگا جانور لائے تھے، محلہ بھر میں اس کے چرچے تھے۔ فی زمانہ ہمارے معاشرہ میں ریاکاری اور دکھاوے کے مرض میں مبتلاء مالدار افراد میں یہ دوڑ لگی رہتی ہیکہ وہ دوسروں پر سبقت لے جائیں، جو سال بھر کسی کو خیرات تک نہیں دیتے، دکھاوے اور نام و نمود کیلئے ان کی تجوریاں کھل جاتی ہیں، جس کا جتنا اچھا جانور اس کی اتنی ہی دھوم اور اس دھوم میں قربانی کا اصل مقصد سنت ابراہیمی کا جذبہ ایثار و قربانی، اطاعت ربانی اور غریب پروری کا مقصد کہیں دب کر رہ جاتا ہے، حالانکہ اس عید کے منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ مسلمانوں میں اللہ کی محبت و اطاعت میں ہر چیز قربان کرنے کا جذبہ پیدا ہو، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عملی طور پر پوری زندگی میں کر دکھایا، ایمان کی وہ ہی کیفیت اور قربانی کی وہی روح پیدا ہو۔ نہ صرف امت مسلمہ بلکہ تمام امتوں کیلئے قربانی کا مقصد یہ ہی دیا گیا کہ صرف اللہ وحدہ لا شریک کے لئے سر تسلیم خم ہو، اس کے ہر حکم پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہو، ایمان کامل ہو اور عبودیت کا حق ادا کرنے والے بنیں۔
بہر حال جمیل صاحب نے بڑی مشکل سے رقم کا انتظام کیا گھر آکر بتایا کہ آج جانور لانے جائیں گے، بچے یہ سن کر بے حد خوش ہوئے کہ ہم بھی جانور لائیں گے، قربانی ہوگی، بہت سارا گوشت کھانے کو ملے گا، پورا سال تو مشکل سے گوشت کھانے ملتا تھا، اب جی بھر کے گوشت کھائیں گے، جمیل صاحب اپنے بیٹے احمد کو ساتھ لے کر مویشی منڈی گئے، منڈی میں قربانی کے جانوروں کی اونچے داموں میں خرید و فروخت عروج پر تھی، دن بھر منڈی میں تلاش کے باوجود انہیں کوئی ایسا جانور نہیں ملا جو ان کے پاس موجود رقم سے خریدا جاسکے، شام تک بھی جب جانور نہ مل سکا تو بیٹے سے کہا کہ چلو گھر چلتے ہیں کل پھر آئیں گے اور شائد کل کوئی جانور مل جائے، دن بھر تیز دھوپ میں رہنے سے گھر آتے ہی احمد کی طبیعت خراب ہوگئی فوری ہسپتال لے گئے، دو دن بعد احمد ٹھیک ہو کر گھر واپس آگیا لیکن جمیل صاحب کی جمع رقم احمد کے علاج میں خرچ ہوگئی، احمد نے گھر آتے ہی پھر سوال کیا کہ ابو ہم جانور لانے کب جائیں گے، جمیل صاحب نے بیٹے کو سمجھایا کہ اس سال بھی ہم جانور نہیں لا سکیں گے، انشاء اللہ آئندہ سال لائیں گے، گھر کے حالات ایسے تھے کہ بچے وقت سے پہلے ہی سمجھدار ہو گئے تھے دونوں بچے اپنی حسرتیں دل میں دبائے خاموش ہوگئے۔
عید کا دن آگیا، احمد اور اسماء صبح ہی صبح تیار ہوگئے جمیل صاحب عید کی نماز کیلئے انہیں بھی اپنے ساتھ لے گئے، نماز سے واپسی پر انہوں نے دیکھا کہ سب کے پاس قربانی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، بچوں نے پوچھا ابو ہمارے پاس گوشت کب تک آئے گاجمیل صاحب نے کہا کہ جانور کاٹنے کا کام مکمل کر کے لوگ گوشت تقسیم کرتے ہیں دوپہر تک آجائے گا، بچے گوشت کھانے کی خواہش میں انتظار کرتے رہے اور ان کی ماں بھی انتظار میں تھی کہ کوئی گوشت بھیجے تو پکا کر بچوں کو کھلاوں گی لیکن صبح سے دوپہر ہوگئی کسی کے پاس سے گوشت نہیں آیا جبکہ محلے کے تقریبا ہر گھر میں کوئی نہ کوئی جانور کی قربانی دی گئی تھی، ان کے پڑوسی شوکت صاحب کے پاس تو صبح ہی صبح جانور کاٹنا ختم ہوگیا تھا لیکن انہوں نے اپنے پڑوسی کو گوشت نہیں بھیجا کیونکہ کچھ عرصہ قبل دونوں گھرانوں کی خواتین میں کچھ تکرار ہوئی تھی جس کے بعد دونوں ہی گھرانے ایک دوسرے سے ناراض تھے، امیر ی کے گھمنڈ میں شوکت صاحب کے گھرانے نے کچھ زیادہ ہی ناراضگی دکھائی اور عید کے دن بھی اپنے پڑوسی کا خیال نہیں کیا، وہ بھول گئے کہ رحمت العالمین ﷺ نے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی اس قدر تاکید کی کہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کو ایسا لگا کہ کہیں پڑوسی کو وراثت میں بھی حق نہ دے دیا جائے۔
جمیل صاحب جب ظہر کی نماز پڑھ کر گھر آئے تو بچوں نے کہا ابو ابھی تک کہیں سے گوشت نہیں آیا، بچوں کی بے چینی دیکھ جمیل صاحب پھر گھر سے نکلے کہ دیکھیں کہیں سے گوشت کاانتظام ہوجائے۔ جمیل صاحب سفید پوش، خود دار اور غیرت مندانسان ہیں، کسی سے مانگ نہیں سکتے تھے، محلہ میں ایک دینی مدرسہ میں اجتماعی قربانی کا نظم تھا، وہ وہاں پہنچے کچھ دیر ماحول کا جائزہ لیا، انہوں نے دیکھا کہ قربانی دینے والے جانوروں کی اوجھڑی نہیں لے جارہے ہیں اور وہ پھینکی جارہی ہے، انہوں نے وہاں کے ذمہ دار سے کہا کہ یہ اوجھڑی پھینکنے کی بجائے مجھے دے دیں وہ صاحب مان گئے اور جمیل صاحب ایک تھیلے میں کچھ اوجھڑیاں اور ہڈیاں سمیٹ کر گھر لے آئے اور بیگم کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ لایا ہوں جلدی سے پکا دو بچے انتظار میں ہیں، بچوں نے ماں سے پوچھا کہ ابو کیا لائے ہیں اور آپ کیا پکا رہی ہیں، ماں نے بچوں کی طرف دیکھے بغیر بھرے گلے سے جواب دیا کہ اوجھڑی لائے ہیں، ابھی پکادیتی ہوں پھر سب مل کر کھائیں گے، بچے خاموشی سے اوجھڑی پکنے کا انتظار کرتے رہے حالانکہ انہیں اوجھڑی بالکل پسند نہیں تھی لیکن ماں باپ کے بے بس اور اداس چہروں نے انہیں حالات سے سمجھوتہ کرنا سکھادیا، اور پسند نہ ہونے کے باوجود اوجھڑی کھاتے ہوئے اسماء نے احمد سے کہا بھائی کیا امیروں کی اس دنیا میں ہم غریبوں کیلئے گوشت کی چند بوٹیاں بھی نہیں ہیں، بھائی بہن دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے، ماں باپ کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے، جتنے آنسو بہہ گئے اس سے کہیں زیادہ آنسو اندر ہی اندر کہیں جذب ہوگئے، جمیل صاحب جذباتی ہو کر باہر چلے گئے لیکن ماں نے ہمت کرکے بچوں کی حوصلہ افزائی کی اور کہاکہ بچو اللہ جس حال میں رکھے اس کا شکر ادا کرنا چاہئے، اس سال ہم قربانی نہ کرسکے تو کیا ہوا آئندہ سال اللہ نے چاہا تو انشاء اللہ ضرور قربانی دیں گے، اور پھر تم لوگ جی بھر کے گوشت کھانا، اسماء نے کہا امی صرف ہم نہیں کھائیں گے بلکہ جن لوگوں کو ہماری طرح گوشت نہیں ملتا ان کو بھی کھلائیں گے، ماں نے بچوں کو گلے سے لگالیاپھر جمیل صاحب کو آواز دی سب نے مل کر کھانا کھایا اور دعاء کی اللہ آئندہ سال ہمارے لئے قربانی کرنا آسان فرمادے۔
بچوں کے دلوں میں یہ خیال تھا کہ اس سال عید پر قربانی کی بجائے ہماری عید کی ہی قربانی ہوگئی، دوسری طرف جمیل صاحب کے ذہن میں صبح عید کی نماز سے قبل کئے گئے بیان کے الفاظ گونج رہے تھے کہ قربانی ایک عبادت ہے اور شعائر اسلام ہے اور قربانی اللہ رب العزت سے تقرب حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہے اور قربانی کے گوشت میں ایک حصہ پڑوسیوں اور رشتہ داروں کا اور ایک حصہ غریبوں کا ہوتا ہے، یہ عید ایثار اور قربانی کا پیغام دیتی ہے، اس لئے عید کے دن اپنے پڑوسیوں، رشتہ داروں یا دوست احباب میں کوئی مستحق ہیں تو ان کی خصوصی مدد کریں اور عید کے ثواب کو دگنا حاصل کریں، اپنے آس پڑوس، رشتہ دار یا دوست احباب میں کوئی سفید پوش غریب گھر ہوں ان کا خیال رکھنا اخلاقی فرض ہے۔ اور بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ دور حاضر میں معاشرہ میں ایک وباء تیزی سے پھیل گئی ہے وہ یہ کہ قربانی کا گوشت تقسیم کرنے سے زیادہ محفوظ کرنے کی فکر و کوشش کی جاتی ہے کہیں فریجوں میں تو کہیں کباب اور اچار بنا کر زیادہ سے زیادہ گوشت محفوظ کر لیا جاتا ہے اور اس میں اتنا وقت لگ جاتا ہیکہ جتنے لوگوں میں گوشت تقسیم کرنا ہوتا ہے وہ نہیں کر پاتے۔ بیان میں خاص طور پر یہ کہا گیا کہ جب ہم قربانی کے جانور کو ذبح کرنے چھری چلائیں تو یہ تصور کریں کہ جانور کے ساتھ ساتھ ہم اپنے نفس پر، اپنی انا اور غرور پر، اپنے گناہوں اور بد اعمالیوں پر اپنی بے جا خواہشات اور ریاکاری پر اور اپنی ناراضگیوں اور دشمنیوں پر بھی چھری چلا رہے ہیں تب جاکر قربانی کا اصل مقصد حاصل ہوگا اور قربانی قبول ہوگی، صرف وہ قربانی قابل قبول ہے جو صرف اللہ رب العزت کو راضی کرنے کیلئے کی گئی ہو۔ عصر کی اذان کی آواز جمیل صاحب کو خیالات کی دنیا سے واپس لے آئی اور وہ احمد کو لے کر نماز عصر کیلئے دل ہی دل میں یہ سوچتے چل پڑے کہ بیان سب ہی نے سنا لیکن عمل نہیں کیادل سے دعا ء نکلی کی اللہ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
تبصرے بند ہیں۔