غزل
راجیندر منچندہ بانی
یہ ذرا سا کچھ اور ایک دم بے حساب سا کچھ
سرِشام سینے میں ہانپتا ہے سراب سا کچھ
وہ چمک تھی کیا جو پگھل گئی ہے نواحِ جاں میں
کہ یہ آنکھ میں کیا ہے شعلۂ زیرِ آب سا کچھ
کبھی مہرباں آنکھ سے پرکھ اس کو، کیا ہے یہ شے
ہمیں کیوں ہے سینے میں اس سبب اضطراب سا کچھ
وہ فضا نہ جانے سوال کرنے کے بعد کیا تھی
کہ ہلے تو تھے لب، ملا ہو شاید جواب سا کچھ
مرے چار جانب یہ کھنچ گئی ہے قنات کیسی
یہ دھواں ہے ختمِ سفر کا یا ٹوٹے خواب سا کچھ
وہ کہے ذرا کچھ تو دل کو کیا کیا خلل ستائے
کہ نہ جانے اُس کی ہے بات میں کیا خراب سا کچھ
نہ یہ خاک کا اجتناب ہی کوئی راستہ دے
نہ اڑان بھرنے دے، سر پہ یہ پیچ و تاب سا کچھ
سرِ شرح و اظہار جانے کیسی ہوا چلی ہے
بکھر گیا ہے سخن سخن، انتخاب سا کچھ
یہ بہار بے ساختہ چلی آئی ہے کہاں سے
تنِ زرد میں کھل اُٹھا ہے پیلے گلاب سا کچھ
ارے کیا بتائیں ہوائے امکاں کے کھیل کیا ہیں
کہ دلوں میں بنتا ہے، ٹوٹتاہے، حباب سا کچھ
کبھی ایک پَل بھی نہ سانس لی کھل کے ہم نے بانیؔ
رہا عمر بھر بسکہ جسم و جاں میں عذاب سا کچھ
تبصرے بند ہیں۔