فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد
حفیظ نعمانی
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے نتن گڈکری کے ساتھ مل کر اترپردیش کے سہارن پور میں الیکشن کی مہم کی ابتدا سہارن پور دہلی 4 لین روڈ کے سنگ بنیاد سے کردی اور 10 دوسرے پروجیکٹوں کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ دہلی قومی شاہراہ کا کل بجٹ 1505 کروڑ ہے۔ سنگ بنیاد کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہاں کام شروع ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سہارن پور کے ووٹر یہ سمجھ لیں کہ جس دن یہ سڑک تیار ہوگئی ان میں سے ہر کسی کی زبان پر ہوگا کہ اب دِلّی دور نہیں ہے۔ اور درپردہ مقصد یہ ہے کہ اگر شاہراہ چاہئے تو آنکھ بند کرکے بی جے پی کو ووٹ دینا ورنہ…
اس تقریب میں صرف سڑک ہی سہارن پور والوں کو نہیں دی بلکہ نوجوانوں کو آواز دی ہے کہ وہ کسی سفارش کے بغیر آئیں اور بلاتفریق اپنی صلاحیت کے بل پر نوکری لے لیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اترپردیش میں اساتذہ کی 97 ہزار نوکریاں خالی ہیں اور 90 ہزار پولیس میں نوکریاں دینا ہیں ان کیلئے باصلاحیت نوجوان سامنے آئیں اور اپنی لیاقت کے بل پر نوکری حاصل کریں۔ یہ انہوں نے نہیں بتایا کہ اس کا اعلان کب ہوگا اور امتحان کن تاریخوں میں کس سال کے کس مہینہ میں ہوگا اور نتیجہ کب آئے گا اور کرسی کتنے دنوں کے بعد ملے گی؟ اس کے ساتھ وزیراعلیٰ نے فرمان جاری کیا کہ اگر 15 اکتوبر تک کسانوں کے گنے کا کل روپیہ ان کو ادا نہیںکیا گیا تو حکومت کا چابک ان پر برسے گا۔ اور یہ سن کر ہوسکتا ہے کہ بوڑھے کسانوں نے چابک برسنے کا منظر دیکھنے کے لئے چشمے بنوانے کا فیصلہ کرلیا ہو؟ بہرحال سڑک بھی بنے گی نوکریاں بھی برسیں گی بس شرط اہلیت اور قابلیت کی ہے۔ ایک بات وزیراعلیٰ کو یاد دلادیں کہ سہارن پور میں جو وزیر گڈکری ان کے ساتھ تھے انہوں نے ہی کہا تھا کہ نوکریاں ہیں کہاں جو تمہیں دیں؟
وزیراعلیٰ نے افسروں کی پیٹھ تھپتھپائی کہ انہوں نے مودی جی کے خواب پورے کئے اور اب رفع حاجت کے لئے کوئی کھلے میدان میں نہیں جاتا انہوں نے اپنی سرکار کی بھی تعریف کی کہ اب 24 گھنٹے بجلی آرہی ہے اور ان دنوں کو یاد کیا جب کسان سردی میں پانی دینے آتے تھے اور سردی میں ٹھٹھرکر مرجاتے تھے۔ جب وزیراعلیٰ نے کہا تو ٹھیک ہی کہا ہوگا اور حقیقت سہارن پور والے بتائیں گے۔ ہم لکھنؤ میں رہتے ہیں اور قیصر باغ جو شہر کا مرکز ہے وہاں مکان ہے لیکن 24 گھنٹے میں جس دن پانچ چھ مرتبہ گھنٹہ دو گھنٹہ کے لئے بجلی نہ جائے وہ دن عید ہوتا ہے۔ دور کے شہروں کا حال وہ ہوگا جو وزیراعلیٰ بتاتے ہیں۔ انہوں نے ہی یہ خوشخبری بھی سنائی کہ کانوڑیوں پر پھول برسانے کا حکم انہوں نے ہی دیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان کانوڑیوں کو غنڈہ گردی کرنے، کاروں پر ڈنڈے برسانے، گاڑیاں توڑنے، پیدل جانے کے بجائے موٹر سائیکلوں پر تین تین اور چار چار بیٹھ کر اور ماں بہنوں کو چھیڑنے کا حکم بھی کیا مکھ منتری جی نے ہی دیا ہے؟ نائب وزیراعلیٰ موریہ بھی بول پڑے اور انہوں نے کہا کہ ٹھگ گٹھ بندھن اور سانپ ناتھ اور ناگ ناتھ سب اس ڈر سے ایک ساتھ آگئے ہیں کہ کہیں مودی سرکار دوبارہ نہ آجائے۔
سہارن پور میں اترپردیش کے وزیراعلیٰ ان کے نائب اور سڑک وزیر نتن گڈکری آنے والے الیکشن کی تیاری کررہے تھے۔ اسی کے ساتھ یہ خبر آگئی کہ سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ یوگی کے خلاف چلنے والا وہ مقدمہ جو 2007 ء میں ان کے بھڑکائو بھاشنوں پر چل رہا تھا جس کی وجہ سے گورکھ پور میں فساد پھوٹ پڑا تھا اور وہ سب ہوا جو ایسے میں ہوتا ہے اور جسے وزیراعلیٰ نے اپنے اقتدار اور مرکزی حکومت کی پشت پناہی کے بل پر واپس کرانے کی ساری تیاری کرلی تھی اس کے بارے میں سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بینچ نے فیصلہ کردیا کہ وہ مقدمہ چلے گا۔ اب وہ عدالتیں جو وزیراعلیٰ کے خوف سے کہتی رہی ہیں کہ حکومت کو اختیار ہے کہ اس مقدمہ کو واپس لے لے اب سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اس کی سماعت کرے گی اور فیصلہ کرتے وقت یہ انکے پیش نظر ہوگا کہ اگر ہم نے دھونس کھائی تو معاملہ پھر سپریم کورٹ جائے گا جس کا اُلٹ جانا یقینی ہے۔
وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ ان سیاسی ورکروں میں نہیں ہیں جو کسی بڑے لیڈر کی چلم بھرکر کرسی حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کا ایک مذہبی مقام بھی ہے اور اسی مقام کا تقاضہ ہی ہے کہ وہ وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھی اپنے اسی لباس میں ہیں اور ان کے رات اور دن کے معمولات بھی سنا ہے کہ وہی ہیںجو پہلے تھے۔ وہ جس کرسی پر ہیں اس کا اب پوری طرح اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس کرسی نے انہیں کتنے اختیارات دیئے ہیں۔ وہ اچھے اچھوں کی زندگی بگاڑ سکتے ہیں اور چھوٹے سے چھوٹے کی بنا سکتے ہیں۔ اور اٹل جی جسے راج دھرم کہتے تھے وہ اسی کرسی پر بیٹھ کر کیا جاتا ہے۔
جس وقت یوگی جی نے 2007 ء میں گرماگرم تقریریں کی تھیں اس وقت وہ صرف سیاسی نیتا تھے۔ حالانکہ اس لباس میں انہیں ایسی تقریریں بھی نہیں کرنا چاہئے تھیں۔ اب حلف لینے کے بعد انہوں نے بار بار کہا ہے کہ میں نے مودی جی سے ایک منتر لے لیا ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وِکاس۔ اگر وہ غور کریں تو اس منتر پر عمل یہ ہے کہ وہ اس مقدمہ کے فیصلہ تک اس کرسی سے اتر جائیں۔ اور ان کی تقریر سے جو فساد ہوا تھا اور اس فساد میں جس کا جتنا نقصان ہوا تھا اس کی جتنی ہوسکے تلافی کریں اور جن سے معافی مانگ سکیں معافی مانگ کر ان کے بیان عدالت میں دلوائیں۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے نشہ میں چو ٗر ہوکر جو اپنے، مظفر نگر کے سیاسی غنڈوں، قاتلوں کے اور بی جے پی کے تمام لیڈروں کے خلاف چلنے والے مقدمات کو واپس لینے کا فیصلہ کیا اسے کون راج دھرم کہے گا؟ وہ تو ظلم کی کھلی حمایت ہے۔ وزیراعلیٰ کے سامنے اب لوک سبھا کا الیکشن بھی ہے۔ کیا وہ یہ پسند کریں گے کہ ایک ملزم ہوتے ہوئے وزیراعلیٰ بنے رہیں اور مودی جی کے لئے ووٹ مانگیں؟ یہ فیصلہ خود ان کو کرنا چاہئے ورنہ وزیراعظم کو کرنا چاہئے کہ جس لیڈر پر اشتعال بھڑکانے والی تقریریں کرنے اور اس کے نتیجہ میں فساد ہونے کا الزام ہو وہ خود ایک صوبہ کا وزیراعلیٰ ہے؟
دوستی نادان کی ہے جی کا زیاں ہوجائے گا
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔