محرم الحرام، اسلام اور مسلمان 

قمر فلاحی

جن باتوں کو ہم میں سے اکثر لوگ جانتے ہیں ان سے قطع نظر کرتے ہوئے چند قابل غور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں :

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مندرجہ ذیل باتیں بتائی ہے:

إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّہُورِ عِندَ ٱللَّهِ ٱثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِى ڪِتَـٰبِ ٱللَّهِ يَوۡمَ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضَ مِنۡہَآ أَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ  ۚ  ذَٲلِكَ ٱلدِّينُ ٱلۡقَيِّمُ  ۚ  فَلَا تَظۡلِمُواْ فِيہِنَّ أَنفُسَڪُمۡ  ۚ  وَقَـٰتِلُواْ ٱلۡمُشۡرِڪِينَ كَآفَّةً ڪَمَا يُقَـٰتِلُونَكُمۡ ڪَآفَّةً  ۚ  وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلۡمُتَّقِينَ التوبة 36

حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے۔

سال کے بارہ مہینے اول روز سے طے ہیں اسے اللہ سبحانہ نے طے کیا ہے،جب اللہ سبحانہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اسی روز  سے یہ جاری ہے ۔ اس کا ذکر کتاب میں ہے۔

اس میں سے چار مہینے قابل تعظیم ہیں۔ اس مہینے میں بہت سے جائز کام بھی حرام ہوجاتے ہیں الا آنکہ کوئی اور راستہ نہیں بچے۔

معلوم یہ ہوا کہ چار میں سے صرف ایک مہینہ (محرم ) کو اشہر حرم میں شمار کرنا یہ قرآن مجید کے خلاف ہے کیونکہ جو مقام ماہ محرم الحرام کا ہے وہی مقام رجب ذی قعدہ اور ذی الحجہ کا بھی ہے۔

محرم الحرام کی نسبت شہادت حسین سے کرنا غیر اسلامی ہے کیونکہ دین سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ مکمل ہوا اور اس وقت تک بلکہ پوری خلافت راشدہ تک اس کی تخصیص نہیں کی گئی۔

محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی شہادت ہوئی تو پھر کیوں نہ اس کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئ؟

اور اگر آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی بات کی جائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی خانوادہ رسول سے تعلق رکھنے والے ہیں پھر انکی شہادت کا اہتمام اہل تشیع کیوں نہیں کرتے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گالوں پہ مارنے والے۔ جیبیں پھاڑنے والے اور بین اور ماتم کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں۔

لیس منا من ضرب الخد وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاهلية.

تو کیا اس روایت کی زد میں اھل تشیع نہیں آتے؟

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مردہ ماننے پہ بھی (نعوذبااللہ ) ماتم جائز نہیں ہے اور جب ہمارا ایمان ہے کہ وہ شہید ہیں تو انہیں مردہ کہنا حرام ہے تو ماتم کو کیوں جائز مانا جائے؟

ایام غم اسلام میں تین دن ہیں اور بیوہ کیلئے چار ماہ دس دن، پھر یہ کونسا غم ہے جو برسہا برس کے بعد صرف محرم کے مہینہ میں شروع ہوجاتا ہے اور چالیس دن بعد اپنے آپ ختم بھی ہوجاتا ہے؟

سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا ماتم نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کسی کا بھی ماتم نہیں کیا گیا تو پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ماتم کیوں ؟۔

محرم الحرام کی دسویں تاریخ۔ یا نویں دسویں تاریخ کو روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت بیان ہوئ ہے اس کا اہتمام کیا جانا چاہیے، اس کا ثواب بہت زیادہ ہے۔

یہ روزہ پہلے فرض رہا مگر رمضان المبارک کے روزہ کی فرضیت کے بعد یہ مسنون ہوگیا۔

اہل مکہ عاشورہ  کا اہتمام غلاف کعبہ بدلنے کی شکل میں کیا کرتے تھے۔

یہود حضرت موسی علیہ السلام کی سنت کے اہتمام میں عاشورہ کے روز کا اہتمام کیا کرتے تھے کیونکہ اسی دن فرعون سے موسی علیہ السلام اور انکی قوم کو چھٹکارا ملا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی کے مقابلے میں ہمیں حضرت موسی علیہ السلام سے انسیت ہے اس لئے ہم بھی اس روزہ کا اہتمام کریںگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا۔

اب رہی بات ڈھول تاشے کی اور تعزیہ داری کی تو اس کی اصل بھی دین میں نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔