اے زندگی تجھے سلام: پر اثر بیانیوں پر مبنی افسانے 

تعارف و تبصرہ: وصیل خان  

مصنف: کیپٹن زین العابدین خان

صفحا ت :  120۔قیمت:  150/-روپئے 

ملنے کے پتے:  کتاب دار بک سیلر،پبلشر فون : 9869321477

مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ممبئی، فون: 022-23774857  

ہمالیہ بک ورلڈ حیدرآباد، فون : 9889742811 

  ملک بکڈپو چوک اردو بازار لاہور،(پاکستان)فون : 0092-42-37231388

  کیپٹن زین العابدین ایک کہنہ مشق ادیب ہیں اور اب تک مختلف موضوعات پر ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ادب سے ان کا گہرا تعلق ہے ورنہ فوجی ملازمت او راس میدان کارزار میں گزرنے والے شب و روز ادبی ارتباط کا موقع ہی کہاں دیتے ہیں، فوجی ڈسپلن اور نظم و ضبط ان کی زندگی پر اس طرح اثر انداز ہے کہ موصوف کی کوئی بھی تحریر خواہ وہ ناولٹ کی شکل میں ہو یا افسانوں اور سفرناموں کی صورت میں، فوجی رکھ رکھاؤ اور کھرا پن ہر جگہ صاف نظر آتا ہے،جس نے ان کی تحریروںمیںصداقت اور صاف گوئی کا رنگ نمایاں کردیا ہے جہاں ریاکاری اور مکرو فریب کا گزرنہیں، ورنہ مادیت اور صارفیت کے اس گھٹن زدہ ماحول میں جس نے زندگی کے بیشترشعبوں میں اپنا تسلط جمالیا ہے، یہاں تک کہ ہمارے شعراو ادبا کی اچھی خاصی تعداد بھی اس کی فسوںکاریوں سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکی اور ان کی تحریروں میں زندگی کی وہ معنی خیز چمک دمک باقی نہ رہی جو ادب کا اصل الاصل تقاضاتھا۔ نتیجتا ً آج ادب کا ایک بڑا فیصدمادیت اور صارفیت کی زد میں آکر اپنی وہ شگفتگی کھوچکا ہےجوکبھی انسانی معاشرہ کیلئے باد بہاری کا نقیب ہوا کرتا تھا۔ ادیب کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہوتا اس کی بھی نشوونما اسی زمین پرپروان چڑھتی ہے، وہ عام انسانوں سے ذرا مختلف ہوتا ہے اور اپنے آس پاس کے حالات کا جائزہ بڑی گہرائی سے کرتا ہے اور پھر اپنے احساسات کو انسانی اور معاشرتی مفاد کی غرض سے اس طرح ضابطہ ٔ تحریر میں لاتا ہے کہ اس سے تہذیب و ثقافت اور معاشرت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے۔

’اے زندگی تجھے سلام ‘ موصوف کی غالبا ً آٹھویں کتاب ہے جس میں کل سترہ افسانےہیںجو مختلف النوع موضوعات پر ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بڑی حد تک مربوط و منسلک نظر آتے ہیں، ان میں سماجی ناہمواریوں اور غیر انسانی عناصر سے دو دو ہاتھ کرنے کی پوری قوت موجود ہے اور مصنف کا یہی وصف اسے اپنے ہم عصر قلمکاروں کے درمیان ایک خاص انفرادیت فراہم کرتا ہے۔ ان کے یہاں اسلوب کی پختگی اور زبان و بیا ن میںروانی کا فقدان ضرورہے لیکن بیانیےکی شفافیت اور طرز نگارش کی سادگی نے ان کمیوں پرپردہ ڈال دیاہےجس سے عام قاری کو کوئی الجھن نہیں ہوتی  او روہ کہانی کے اصل مقاصد سے پوری طرح ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔

کتاب کا انتساب بھی ایک ایسی شخصیت سے معنون ہے جس کی پوری زندگی انسانیت کے تحفظ میں گزری، جس نے علم کی شمع روشن کرنے میں اپنی حیات کا ایک اک لمحہ وقف کردیا حالانکہ مفاد پرستوں اور خودغرضوں نے اسے طرح طرح کی تکلیفیں دیں اوراسے کالج سے نکال باہر کیا جس کے وہ بنیاد گزار اور روح رواں تھے۔ دنیا ایسے ہی خودغرضوں اور مطلب پرستوں سے بھری ہوئی ہے اور ہر شعبہ حیات میں ایسے ہی افراد کا غلبہ و تسلط بڑھ چکا ہے۔ کتاب میں شامل سبھی افسانے ایسے ہی افراد کے خلاف اعلان جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ دیباچہ ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے تحریر کیا ہے اس کا ایک اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس سے مصنف کی زندگی اور اس کی ادبی جہات اور فکری وسعت مکمل  شرح و بسط کے ساتھ ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔

 ’’زین العابدین سچے کھرے اور پرخلو ص انسان ہیں جن کی تحریروں میں ریاکاری کا شائبہ تک نہیں۔ روزانہ کی زندگی میں توازن شاید فوجی زندگی کی دین ہے۔ ہر کام وقت پر کرنے کے عادی، مزاج میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور یہی سادگی ان کی کہانیوں میں بھی رواں دواں ہے۔ تعصب اور گروہ بندیوں سے دور رہ کر وہ تخلیقی کام میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کا اولین افسانوی مجموعہ ۲۰۰۵ میں ’ تیس سال لمبی سڑک ‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور اہل ذوق کی توجہ مبذول کرنے میں کامیاب ہوا اس میں شامل بیشتر افسانے ان کے گاؤں اوسیاں، دلدار نگر، کمسار،بارے اور فوجی زندگی کے ارد گرد گھومتے ہیں لیکن موضوعی اعتبار سے کسی ایک شعبہ ٔ حیات کے پابند نہ ہوکر ہمہ جہت بن گئے ہیں اور عصری تقاضوں کی ترجمانی جن کا مقصد خاص ہے۔ ‘‘

موصوف کے پراثر  بیانیے نے ان کی کہانیوں میں ایک خاص کشش پیدا کردی ہےوہ  اتنا طاقت ور اور دلچسپ ہے کہ کوئی بھی کہانی ابتدا سے انتہا تک قرأت پر مجبور کردیتی ہے۔کہیں کہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ افسانے نہیں کچھ حقیقی واقعات ہیںجسے مصنف نے افسانوی رنگ دے دیا ہے۔ کچھ کہانیاں تقسیم ہند اور قیام بنگلہ دیش کے تناظر میںتحریر کی گئی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے اور روح میں ایک ارتعاش پیدا ہوجاتا ہے اور کبھی تو سانسیں ہی رکتی محسوس ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ سارے اثرات حقیقت نگاری اور بیانیے کی صداقت کے مضمرات ہیں۔ محو انتظار، بے نام رشتہ اور خدا کا بٹوارہ اس تناظر کی بہترین اور انتہائی موثر کہانیوں میں شمار کی جاسکتی ہیں۔ زبان و بیان کی نکبت، کمزور اسلوب اور کمپوزنگ کی بے تحاشا غلطیوں کے باوجود افسانوں کا یہ مجموعہ اپنے پراثر بیانیے کے حوالے سے ایوان ادب میں ایک اضافہ قرار دیا جائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔