قائد اعظمؒ کے افکار اور موجودہ پاکستان کے حالات

محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

پچیس دسمبر قائد اعظم ؒ کا یوم پیدائش ہے۔ پچھلے ستر سالوں سے ہم بحیثیت قوم اپنے وطن کے بانی ؒ کا یوم پیدائش خوب جوش و خروش سے مناتے ہیں ۔ تقریبات بھی ہوتی ہیں ۔ پروگرامز بھی ہوتے ہیں ۔ تقریریں بھی کی جاتی ہیں لیکن افسوس ہوتا ہے کہ جب قائد اعظم ؒ کے افکار دیکھیں جائیں اور موجودہ پاکستان کے حالات دیکھے جائیں تو ایک ہی شعر یاد آتا ہے کہ؛

کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے

بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے

ذیل میں قائد اعظم ؒ کے چند افکار ان کی ہی زبانی پیش ہیں لیکن ساتھ یہ سوال بھی کہ ہم ان افکار پر کب عمل کریں گے؟؟؟

آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میں قائد اعظم نے فرمایا:

’’ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا‘‘۔

6دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس میں قائد اعظم نے فرمایا:

’’ وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر، اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسول، ایک امت ‘‘۔

قائد اعظم ؒ کا یہ قول اور فکر ہمیں ان کی قرآن فہمی اور اسلام سے محبت کا درس دیتی ہے۔ قائد کی یہ فکراور نظریہ ہمیں ان کی زندگی کے ہر گوشہ میں نظر آتا ہے۔

قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا اور یہ خط قائد کی قرآن فہمی پر واضح دلیل ہے؛

’’قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں ۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں ‘‘۔

10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا:

’’ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں ۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی‘‘۔

1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ:

’’ میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں ‘‘۔

تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا:

’’ وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے‘‘۔

 قائد اعظم ؒ کے یہ فرمان ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔آج پاکستان میں بات بات پر سیکولرازم، لبرل ازم کے نعرے لگائے جاتے ہیں ، جبکہ بانیء پاکستان تو پاکستان کو قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کی سیرت کا عملی نمونہ بنانا چاہتے تھے۔ آج ہم قائد اعظم کی اس سوچ کے ساتھ شاید فقط تقریروں کی حد تک متفق ہیں ۔ بلکہ صد افسوس آج کل تو قائد اعظم پر بھی سیکولر اور لبرل ہونے کے الزامات لگا دئیے جاتے ہیں ۔

2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا:

’’ اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں ۔ اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے ‘‘۔

14 فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں فرمایا:

’’ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں ۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو‘‘۔

13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں دورانِ تقریر قائد اعظم ؒ نے فرمایا:

’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں ‘‘۔

قائد اعظم ؒ کا اگلا فرمان بہت اہم ہے۔ جس پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم اربوں ڈالر کے مقروض ہیں ، ہماری معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ نیا بجٹ بنانے کے لئے بھیک اور خیرات لینے کے لئے ہم دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ ان خدشات کے پیشِ نظر ہی قائد اعظم نے یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر فرمایا تھا:

’’میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں ۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر منڈلا رہی ہے۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے ‘‘۔

قائد اعظم ؒ نے واضح الفاظ میں فرما دیا تھا کہ مغرب کا معاشی و اقتصادی نظام مسائل کی جڑ ہے۔ مغرب کا معاشی نظام ہی دنیا کو تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ ہمیں اس سے الگ رہنا ہو گا، اپنا معاشی نظام درست رکھنا ہو گا لیکن افسوس صد افسوس آج ستر سال بیت گئے اور ہم آج بھی اسی مغربی معاشی نظام کے غلام ہیں ۔

میرا سوال برقرار ہے کہ کیا قائد اعظم ؒ کے افکار فقط تقریروں ، مضمونوں ، پروگراموں کے لئے تھے؟ ہم کب ان پر عمل کریں گے؟ دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جو اپنے ہی بانی، قائد، لیڈر کے افکار کو پس پشت ڈالتا ہے؟؟ اسی خطاب میں آپ نے مغرب کے اقتصادی نظام پرمزید تنقید کرتے ہوئے فرمایا:

’’اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے‘‘۔

قارئین! قائد اعظمؒ کے ان الفاظ کو لکھنے اور پڑھنے کے بعد میرے پاس الفاظ کم اور آنسو زیادہ ہیں اورصرف ایک ہی شعر زبان پر آتا ہے کہ؛

کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے

بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے

25 جنوری 1948 (یہ عید میلاد النبی ﷺ کا پروگرام تھا) کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے گفتگو کرتے ہوئے بانیء پاکستان کے الفاظ تھے کہ؛

’’ آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد ﷺ کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔ آپ ﷺ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ  ﷺ کے سامنے سر جھکاتی ہیں ۔ وہ عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم واضع قانون تھے، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی‘‘۔

قارئین قائد اعظم ؒ افکار ہم پر اظہر من الشمس ہیں کہ قائد کیسا پاکستان چاہتے تھے اور آج ہم نے قائد کے پاکستان کو کیا بنا رکھا ہے۔ قائد کے افکار و نظریات کیا تھے اور آج قائد کے ملک میں رہنے والے کس سمت گامزن ہیں ؟؟

میں آپ کی توجہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے اس خطاب کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جو ان کے اسلام سے محبت کا بے مثال ثبوت ہے۔ آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکائوٹ ریلی سے دوران ِ تقریر فرمایا:

’’میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت، دولت، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں ۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی، تیظیم، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا‘‘۔

قارئین! قائد اعظمؒ کے افکار پیش کرنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ آج قائد کی پیدائش کی سالگرہ کے موقع پر تجدیدِ عہد کریں کہ ہم قائد کے افکار کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے حصہ کی شمع آج سے ہی روشن کریں گے۔ ہم پاکستان کو پر امن بنائیں گے۔ ہم اپنے وطن کو ہر سیاسی تفرقہ بازی، مذہبی تفرقہ بازی، معاشی تفرقہ بازی، لسانی و صوبائی تفرقہ بازی سے پاک کر کے ایک وطن، ایک قوم، مضبوط معیشت، مضبوط ریاست بنائیں گے۔ ان شاء اللہ

اللہ کریم پاکستان کا حامی و ناصر ہو اور قائد اعظم ؒ کو اور پاکستان کے بنانے میں حصہ لینے والے تمام کارکنان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔