قوم متحد ہونا چاہتی ہے اسے منتشر مت کیجیے!
کامران غنی صبا
جو لوگ ’’دین بچاؤ، دیش بچاؤ کانفرنس‘‘ کی مخالفت کر رہے ہیں وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کسی بہانے سے متحد ہو چکی امت کے شیرازے کو بکھیرنے کا کام کر رہے ہیں۔ جمہوریت میں ’’بھیڑ‘‘ کی اہمیت کا اندازہ ابھی حال ہی میں درج فہرست ذات کے بھارت بند سے لگایا جا سکتا ہے۔جمہوریت میں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرناکوئی قابلِ اعتراض عمل نہیں ہے۔ جلسے جلوس اور احتجاج میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمولیت سے مسئلے کی حساسیت اور مظاہرین کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔
دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس کے نام پر پورے بہار کے مسلمان بہت حد تک متحد ہو چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جن اداروں کی طرف سے کانفرنس سے الگ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے ان اداروں کے فالوورز بھی اپنے ادارے کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ میرے کئی دوست جو ادارہ شرعیہ، خانقاہ عمادیہ اور خانقاہ منعمیہ سے عقیدت رکھتے ہیں وہ سب کے سب کانفرنس کے حق میں ہیں۔ رہی بات کانفرنس کے نام پر کچھ سیاست دانوں کے روٹی سینکنے کی تو یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے کہ اسے بنیاد بنا کر کانفرنس کی اہمیت سے ہی انکار کر دیا جائے۔ اگر مخالفت کرنی ہی ہے تو ان لوگوں کی کیجیے جو اپنے ضمیر کا سودا کر کے دونوں طرف کا مزہ لینا چاہتے ہیں۔
کچھ لوگ مسلمانوں کی معاشی اور تعلیمی پسماندگی کی دہائی دے کر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر کانفرنس ہی کرنی ہے تو تعلیم اور روزگار کے موضوع پر کی جانی چاہیے۔ انہیں لگتا ہے کہ اسکول، کالج کھلنے سے مسلمانوں کے جملہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ فیس بک کی دنیا سے باہر نکل کر میدان کارزار میں آئیں۔ آپ کو اسکول، کالج کھولنے سے کس نے منع کیا ہے؟ ٹیم بناییے، گلی گلی، محلہ محلہ، گاؤں، گاؤں کیمپین کیجیے۔ آپ کو مولویوں سے اعتراض ہے تو اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کیجیے۔ خود سے بڑھ کر مینا اٹھا لیجیے۔ مسلمان بیچارہ تو ٹکٹکی باندھے سب کو دیکھ رہا ہے۔ آپ اس کے لیے کچھ اچھا کریں گے تو خود ہی آپ کی طرف دوڑ پڑے گا۔ ’’مولوی‘‘ کو گالی مت دیجیے وہ ’’بیچارہ‘‘ تو پھر بھی ’’رحمانی تھرٹی‘‘ اور دوسرے تعلیمی اداروں کے ذریعہ آپ کی گالیوں کے باوجود اپنے حصے کی شمع جلا رہا ہے۔ آپ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیے کہ آپ نے کتنے تعلیمی ادارے قائم کیے؟ کتنے مسلم نوجوانوں کو روزگار دیا؟ کتنی مسلم بچیوں کی شادی کرائی؟
آپ کا یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے کہ ملک کے دوسرے مسائل پر بھی ہمیں اسی طرح بیداری کا ثبوت دینا چاہیے۔ نربھیا، آصفہ معاملہ میں ملی قیادت خاموش رہتی ہے۔ بہار کے فسادات پر ملی ادارے متحرک نظر نہیں آئے۔۔۔۔ بہتر ہوتا کہ آپ اپنا اعتراض براہ راست امارت اور ملی اداروں کے ذمہ داران کے سامنے رکھتے لیکن شاید اس طرح آپ کی دانشوری جگ ظاہر نہیں ہو پاتی۔ لائیک اور کمنٹ کا دفتر نہیں کھل پاتا۔
خدارا منتشر قوم کو مزید منتشر مت کیجیے۔ کانفرنس کے بعض پہلوؤں پر اعتراض کیا جا سکتا ہے، مجھے بھی اعتراض ہے لیکن اعتراض کا یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ اسے عوامی سطح پر اس طرح پیش کیا جائے کہ اختلاف و انتشار کو ہوا ملے۔ آپ کو اعتراض ہی ہے تو ذاتی طور پر امارت کے ذمہ داران کے سامنے رکھیں۔ انہیں اپنے مفید مشوروں سے نوازے۔ دلائل کے ساتھ اپنے اعتراضات میل یا فیکس کریں۔ فیس بک پر انتشار کی چنگاری کو ہوا دے کر نہ آپ دانشور بن جائیں گے اور نہ ہی کانفرنس کے کمزور پہلوؤں کی اصلاح ہو سکے گی۔
تبصرے بند ہیں۔