دل کا رشتہ

سیدہ تبسم منظور

آفتاب کی سنہری کرنیں روشن دان سے ہوتے ہوئے گالوں کو چھو رہی تھی۔ باہر سے پرندوں کے چہچہانے کی آوازوں سے ایسے لگ رہا تھا جیسے پنچھی پیڑوں پر بیٹھے اللہ کی تسبیح پڑھ رہے ہوں۔ پوری رات یوں ہی آنکھوں آنکھوں میں گذر گئی تھی۔ ہمارے کے اندر جو طوفان اٹھا تھا وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔ خود ہی سر کو دبانے لگے اور آنکھیں موند لیں تو ہمارا  ذہن اپنے ماضی کی یادوں ڈوبتا چلا گیا۔

’’ زویا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زویا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جلدی چلو یار! کالج کا وقت ہوا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنی دیر لگاتی ہو‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’ ابھی آرہیں ماریہ۔ ۔ ۔ ۔ کتنی زور سے چلاتی ہیں۔ چلو ہم آگئے۔ ‘‘اور دونوں اپنے کالج کے لئے نکل پڑے۔

لڑائی جھگڑا ہم دونوں کا بچپن سے کر اب تک کا روز کا معمول تھا۔ پل میں لڑتے، پل میں ملتے۔ ۔ ۔ لیکن ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں پاتے۔ زویا کچھ نو دس سال کی تھی جب ہمارے ابو زویا کو اپنے گھر لےآئے تھے۔ زویا کے ابو اور ہمارے ابو بہت گہرے دوست تھے۔ ایک دن زویا کے امی ابو حیدرآباد سے لوٹ رہے تھے کہ ایک بھیانک حادثہ ہوگیا اور دونوں نے حادثے کے مقام پر ہی دم توڑ دیا۔ جب ہمارے ابو کو خبر ملی ان پر بجلی سی گر پڑی۔ آخری رسومات کے دوران انہوں نے دیکھا کہ ہر کوئی ننھی سی زویا کا سر پرست بننے سے ہچکچا رہا ہے تو وہ آگے بڑھے اور اپنے دوست کی امانت کو اپنے گھر لے آئے۔

 ہمارے والدین نے اپنی بیٹی کی طرح زویا کو بھی پورا پورا پیار دیا۔ ۔ ۔ ہماری امی نے کبھی ہم دونوں کو الگ نہیں سمجھا۔ بچپن سے لے کر جوان ہونے تک جو بھی چیزیں آتیں، دونوں کے لئے برابر آتیں۔ ۔ ۔ کبھی کسی چیز میں کوئی فرق نہیں ہوا۔ پڑھائی کے معاملے میں  بھی ہم دونوں ایک ہی فیکلٹی میں تھے۔ لڑنا، جھگڑنا، روٹھنا، منانا، یہ ہم دونوں کی گہری دوستی اور پیار ہی توتھا۔ ایک پل بھی ہم دونوں ایک دوسرے کے بنا نہیں رہ پاتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر چیز آپس میں شئیر کرتے۔ اسکول سے لے کر کالج تک۔ ۔ ۔ ۔ بچپن سے لے کر جوانی تک ہر چیز کو شئیر کیا۔ کبھی کبھی تو ان ہی چیزوں پر سے ہم دونوں کی خوب لڑائی بھی ہوتی۔ ہم دونوں کو کبھی اور کسی دوست کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنی گہری دوستی اور پیار تھا ہم دونوں میں۔ ۔ ۔ کہ لوگ ہمارے پیار اور دوستی کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ ہمارے امی ابو جب ہم دونوں کو اس طرح دیکھتے تو کہتے بچیو! کب تک لڑتے جھگڑتے ایک ساتھ رہوگے۔ ایک دن تم دونوں کو الگ الگ بیاہ کر جانا ہی ہے۔

 تب ہم دونوں کہتیں کہ ہم کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونا چاہتے۔ ۔ ۔ ۔ اور امی ابو سےکہتے کہ آپ ہماری شادی ایک ہی گھر میں کردینا تاکہ ہم دونوں ساری زندگی ایک ساتھ رہیں۔ اور ہم خود دونوں بھی اللہ سے دعا کرتیں۔ کئی رشتے آئے۔ ۔ ۔ پہلے پہلے کئی رشتوں کے لئے ہم دونوں نے منع کیا کہ ہمیں ایک ہی گھر میں بیاہ کرنا ہے۔ امی ابو کو ہمارے اس پاگل پن سے ڈر لگنے لگا تھا۔ ۔ ابو۔ ۔ ۔ ۔ امی سے کہتے کہیں اچھے رشتے ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔ ایک دن رب العزت نے ہم دونوں کی دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں قبول کیا اور ہم دونوں کے لئے ایک ہی گھر سے رشتہ آگیا۔ بات چیت چلی اور پھر ہم دونوں ایک ہی گھر میں بیاہ دی گئیں۔ ماریہ ہماری دیورانی بن گئی۔ ہم دونوں بہت خوش تھے اور اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریزہ ہو کراس کا شکر ادا کررہے تھے۔ ایان اور ارہان دونوں بھائیوں میں بہت پیار اور اتفاق تھا۔ الحمداللہ گھر میں بھی اللہ کا دیا سب کچھ تھا کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہیں تھی۔ دن۔ ۔ ۔ ہفتے۔ ۔ ۔ مہینے۔ ۔ ۔ سال گزرتے رہے۔

 ہم دونوں کی گود میں اللہ تعالی نے ننھے ننھے دو دو پھول کھلائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم دونوں اپنی زندگی میں بہت خوش تھے۔ ۔ ۔ پانچ سال کا وقفہ کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا۔ ۔ ۔ پر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دن ارہان۔ ۔ ۔ ۔ ماریہ کے شوہر۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے دیور۔ ۔ ۔ بزنس کے سلسلے میں دوبئی گئے اور وہیں پر اچانک انہیں دل کا دورہ پڑا۔ ۔ ۔ اسپتال پہنچنے تک ان کی روح پرواز کرگئی۔ ۔ ۔ دو دن کی جدوجہد کے بعد ارہان کا بے جان جسم گھر پہنچا۔ ماریہ پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑا۔ اس کی دنیا اجڑ گئی تھی وہ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگی تھی۔ ہم سے ان کی حالت بالکل نہیں دیکھی جا رہی تھی۔ پانچ مہینے سے بس ان ہی کے بارے میں سوچ سوچ کر پاگل ہوئے جارہے تھے۔ اب ان کی عدت کی مدت بھی پوری ہوگئی تھی۔

’’زویا۔ ۔ ۔ ۔ زویا کیا بات ہے۔ تم نے آج ابھی تک بستر کیوں نہیں چھوڑا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔ ‘‘

ماریہ کی آواز پر ہم نے آنکھیں کھولی اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ’’ آئیے ماریہ !بیٹھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں بس سر میں تھوڑا درد ہے۔ ‘‘

’’زویا میں اس لئے آئی تھی کہ آج امی ابو مجھے لینے آرہے ہیں۔ اب میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ ۔ ۔ ۔ اب میں امی ابو کے پاس ہی رہوں گی۔ جس کے لئے اس گھر میں آئی تھی وہ ہی مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ ‘‘اوروہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ ۔ ۔ ۔

’’ماریہ آپ چپ ہوجائیں یہ اللہ کی مرضی تھی۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ تعالی اپنے بندوں کو کبھی تکلیف نہیں دیتے۔ اللہ بہتر جاننے والے ہیں۔ ۔ ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے میری بہن۔ اور ہاں آپ یہاں سے کہیں بھی نہیں جائیں گی۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم آپ کو کبھی جانے بھی نہیں دیں گے۔ یہ گھر ہمارا ہے اور ہمیشہ ہمارا ہی رہے گا۔ آپ ہم سے وعدہ کریں آپ کہیں نہیں جائیں گی۔ ‘‘

’’کیسے وعدہ کروں زویا۔ ۔ ۔ ۔ اب میرا یہاں رہنا ممکن نہیں میری جان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ماریہ آپ کو یہیں رہنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ ہمارے پاس اور ہمارے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ آپ ہم سے وعدہ کریں۔ پلیز ہماری بات آپ ضرور مانیں گی۔ ہم جو کہیں گے وہ آپ کریں گی۔ بولیے کریں گی نا ؟؟‘‘

’’میں کوشش کروں گی زوی!!!!!‘‘

’’ امی ابو آئیں گے تو ہم ان سے بات کریں گےاور آپ بھی منع نہیں کریں گی ماریہ!!

اتنے میں باہر سے بچوں نے اپنی توتلی زبان میں شور مچانا شروع کردیا۔ ۔ ۔ ۔ ’’نانا۔ ۔۔ ۔ نانی آئے۔ ۔ ۔ نانا۔ ۔ ۔ نانی۔ ۔ ۔ آئے۔ ‘‘تو ہم دونوں اٹھ کر باہر آئے۔ امی ابو کو سلام کیا اور ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ نوکرانی سے پانی چائے ناشتے کے لئے کہہ دیا۔ تھوڑی دیر میں ہی چائے ناشتہ آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم سب نے مل کر چائے ناشتہ کیا۔

ناشتہ ہوتے ہی امی نے کہا، ’’ چلو ماریہ گھر چلتے ہیں۔ ‘‘ ماریہ کےکچھ کہنے سے پہلے ہی ہم بولے۔ ۔ ۔ ۔ ’’امی ابو !ہمیں آپ سے کچھ کہنا ہے۔ ماریہ یہاں سے کہیں بھی نہیں جائیں گی۔ وہ یہی رہیں گی ہمارے پاس ہمیشہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امی ابو ہم دس سال کے تھے۔ ۔ ۔ تب سے ہمیں آپ نے ہم دونوں کو ساتھ ساتھ پالا۔ پڑھایا لکھایا۔ ۔ ۔ کبھی ہمیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم آپ کی بیٹی نہیں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہم یتیم تھے پر آپ دونوں کے پیار نے ہمیں کبھی یتیم ہونے کا احساس بھی نہیں ہونے دیا۔ ۔ ۔ ۔ ہم اپنی پوری زندگی دے کر بھی آپ کا قرض کبھی نہیں اتار سکتے۔ ماریہ ہماری دوست بھی ہے بہن بھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہم دونوں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں اور ان شاءاللہ آگے بھی رہیں گے۔ اللہ تعالی آج ہم پر مہربان ہوئے ہیں اور اللہ ہی کے کرم سے آج آپ لوگوں کے لئے کچھ کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ ۔ ہم آپ دونوں اور ماریہ کے لئے کچھ کریں گے تو یہ ہماری خوش نصیبی ہوگی کہ ہم تھوڑا سا تو آپ کے پیار کا قرض اتار پائے۔ ‘‘

’’زویا بیٹی تم کیا کہنا چاہتی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ ۔ ۔ ‘‘ابو نے کہا !!!

’’ابو۔ ۔ ۔ امی! ‘‘ زویا نے  ہچکچاتے ہوئے کہا’’۔ ۔ ہم۔ ۔ ۔ ہم۔ ۔ ۔ ماریہ کا نکاح ہمارے ا۔ ۔ ۔ ا۔ ۔ ۔ ۔ ایان سے کرانا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ ہماری ماریہ ہمارے پاس ہی رہے۔ ہماری بہن کی طرح۔ ۔ ۔ بچوں کو بھی باپ کا پیار ملے اور ان کی زندگی خوشیوں سے بھرجائے۔ ۔ ۔ ۔ اور ان شاءاللہ ہم دونوں خوش رہیں گے۔ ‘‘

امی ابو کچھ کہہ نہیں پائے۔ جیسے ان کی زبان نے حرکت کرنا بند کیا ہو۔ ۔ ۔ بس ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

ماریہ بھی زویا کے گلے لگ کر رونے لگی۔ زویا کے اندر کا طوفان تھم چکا تھا اور وہ اپنے آپ کو ہلکا محسوس کر رہی تھی۔ اس نے اپنے پیار کی قربانی دے کر اپنا فرض پورا کرکے تھوڑا سا قرض ادا کیا۔

تبصرے بند ہیں۔