لہو مجھکو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
مولانا سید آصف ملّی ندوی
کسی بھی قوم کی ترقی اور معاشرہ کے استحکام میں اس کے نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ ایک روشن و تابناک مستقبل کا انحصار ان ہی پر ہوتا ہے۔ اگر نوجوان اپنے مقصد حیات اور منزل مقصود تک پہنچانے والی صحیح سمت یا راہ سے بھٹک جائیں تو وہ معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوجاتا ہے۔
اسلام وہ دین فطرت ہے جس نے سماج و معاشرہ میں نوجوانوں کی اہمیت اور بنیادی حیثیت کے پیش نظر ان کی روحانی و اخلاقی تربیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی ہے، اور جوانی کی عبادت اور عہد شباب میں اللہ ورسول کی اطاعت و کامل فرمانبرداری پر بہت بڑے اجر کا وعدہ فرمایا اورجنت کی ضمانت دی ہے، چنانچہ صادق و امین رسالت مآب ﷺکے فرمان مبارک کے مطابق روز محشر ان سات خوش نصیب شخصوں میں جو عرش الہی کے زیرسایہ ہوں گے، وہ سعادت مند قابل رشک نوجوان بھی ہوگا جس کا عہد شباب عبادت الہی سے معمور رہا ہوگا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دور حاضر میں مادیت اورمغربی فکر وفلسفہ نے مذہبی و معاشرتی اقدار و روایات کو بہت بری طرح متأثر کیا ہے،چنانچہ مغربی تہذیب کے دلداد ہ آج کے نوجوان پوری طرح تن آسانی، سستی کاہلی اور فضول و لایعنی کاموں میں وقت گذاری کے نہ صرف عادی ہوچکے ہیں، بلکہ وہ انہیں بطور فیشن اختیار کرکے ذلت وپستی، نکبت وادبار اور ہلاکت وتباہی کے عمیق ومہیب گڑھوں میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ وہ جدید ٹیکنالوجی (موبائل، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا،یوٹیوب وغیرہ) کے اس قدر عادی بلکہ رسیا ہو چکے ہیں کہ اب اس کے بغیر ان کی زندگی کا تصور محال ہوچکا ہے۔
اس جدید ٹیکنالوجی اور موبائل و انٹرنٹ نے معاشرہ کے ہر فرد سے اور خصوصاً نوجوانوں کے اندر سے اخلاق و کردار اور مثبت و تعمیری سوچ وفکر کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت و افادیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے تمام ہی شعبہ جات پر اپنے اثرات مرتب کئے ہے، انسانی زندگی کو آسان سے آسان تر بنادیا ہے، پوری دنیا کو ایک عالمی قصبے میں بدل کررکھ دیا ہے، دوریوں اور فاصلوں کو ختم کردیا ہے، علوم ومعارف کے سمندورں کو کوزوں میں تبدیل کردیا ہے، تحقیق و تدقیق کی دشوار گذار راہوں کو ہموار و سہل ترین پگڈنڈیوں میں تبدیل کردیا ہے۔غریب الوطن رشتہ داروں کے حالات سے آگاہی کو آسان تر بنادیا ہے۔ لیکن ان بہت سارے مثبت فوائد کے ساتھ ساتھ اس ٹیکنالوجی نے ہماری تہذیب وثقافت، اقدار و روایات حتی کہ طرز زندگی کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔کیونکہ یہ جدید ٹیکنالوجی اور اس کے ذریعے چلنے والے تمام میڈیا(سوشل میڈیا، الکیٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا) کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو ہمہ وقت شمع اسلام کو اپنی مسموم پھونکوں سے بجھانے کی سعی نامشکور میں ہمہ تن مگن ہے۔
اس جدید ٹیکنالوجی اور نت نئی سائنسی ایجادات میں موبائل ایک ایسی حیرت انگیز ایجاد ہے جو ہرکس وناکس کے دست و جیب کی زینت بنا ہوا ہے، کچھ لوگ تو واقعتاًاس کو ضرورت کے تحت استعمال کرتے ہیں لیکن اکثریت ان لوگوں کی ہے جو موبائل فون کو محض فیشن، لہو ولعب اور ذوق خودنمائی کی تسکین کے لئے استعمال کرتے ہیں، خصوصاً ہمارے نوجوانوں بلکہ نونہالوں کی ایک بڑی تعداد ہر وقت اپنے ہاتھوں میں موبائل تھامے سوشل میڈیا کی مصنوعی و پرفریب وادیوں میں بھٹکتی رہتی ہے، اور جب اس سے کچھ فرصت ملتی ہے توملت اسلامیہ کے یہ شاہین بچے اپنے موبائل میں موجود کھیل اور گیمز کے ذریعے اپنے تاریک مستقبل کو روشن و تابناک بنانے کی گراں قدر کوشش میں مگن ہوجاتے ہیں، چار چار پانچ پانچ کی تعداد میں ایک ساتھ اکھٹے بیٹھ کر گیم کھیلتے چلے جاتے ہیں اور انہیں کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ کتنا وقت گذر گیا، کب عصر کی اذان ہوئی، کب مغرب کی نماز ختم ہوئی، کب مؤذن نے عشاء کے لئے آواز دی۔ جب کبھی گلیوں میں اور نکڑوں پر مستقبل کے ان معماروں کو باادب، دو زانوں موبائل پر اپنی گردنیں جھکائیں بیٹھے دیکھتا ہوں تو بے ساختہ شاعر مشرق اقبال کے یہ اشعار ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں:
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
بجلیاں جس میں ہو آسودہ وہ خرمن، تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
اور
ہرکوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے ؟
حیدری فقر ہے، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت ِ روحانی ہے ؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
موبائل کے یہ سارے گیمز شیطانی ہتھکنڈے ہیں جنہیں شیطان کے نمائندوں اور اس کی ذریت خبیثہ اسرائیل و مغربی تخریب کاروں نے نہایت ہی پرُکیف و پُرفریب بناکر پیش کیا ہے تاکہ شاہین بچوں کو خاکبازی کا سبق دیا جا سکے۔ ان تمام گیمز کے یقینی طور پر شیطانی ہتھکنڈے ہونے کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ وقت گذاری کے لئے موبائل پر گیمز کھیلنے والے یہ بچے ان گیمز پر شرط اور پیسے لگاتے ہیں جس کے اخیرمیں ایک جیتتا ہے اور باقی سارے ہار جاتے ہیں، جو صراحتا ً جوئے کی ایک شکل ہے، کیونکہ ہر وہ کام جس میں متعدد افراد ایک ہی جیسا یا برابر پیسہ لگا کر شریک ہو، اور بعد میں کسی کو پیسہ ملے اور کسی کو نہ ملے، یا کسی کو زیادہ ملے اور کسی کو کم ملے وہ جوا ہے، اور جوئے کو مذہب اسلام میں حرا م قرار دیا گیا ہے اور اس کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ جوے کے بہت سارے مضرات و منفی اثرات ہوتے ہیں جن سے کوئی بھی کھیلنے والا محفوظ نہیں رہ سکتا، مثلاً جیتنے والے شخص کے لئے دل میں عداوت ونفرت کا پیدا ہونا، ہار کے بعد غربت و افلاس سے دوچار ہوجانا، فرائض و دیگر عبادات سے غافل ہوجانا، خود غرضی کا شکار ہونا، رحمدلی، محبت و احترام سے دل کا خالی ہونا، حرص و لالچ کا شکار ہونا، مزاج میں سختی اور روییّ میں تشدد کا پیدا ہونا، جسمانی، ذہنی و تعلیمی نشو ونما سے محرومی کھیلنے والے کا مقدر بن جانا، لہٰذا شیطان کے ان مذموم ہتھکنڈوں سے بچنا ہر مسلمان کا فرض ہے، کیونکہ اسلام صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی گذارنے کی تعلیم دیتا ہے، اور اس میں لہو ولعب، ناچ گانوں اور فضول و لایعنی کاموں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ فقہاء کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہر طرح کے لہو ولعب حرام ہے، اور موبائل پر گیم کھیلنا اور اس میں اس قدر مشغول ہوجانا کہ حیات مستعار کے بیش قیمت لمحات کے گذرجانے اور متاع کارواں کے لٹ جانے کا احساس تک نہ ہونے پائے، یقینا لہو ولعب اور فضول ولایعنی اور ناجائز کام ہے، اور رسالت مآب ﷺ کی نافرمانی اور حکم عدولی بھی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے : آدمی کے ایمان و اسلام کی اچھائی میں سے یہ ہے کہ وہ فضول اور لایعنی کاموں کو ترک کردے۔
مجھے پتہ ہے کہ دجال کی اس پُرکیف وپُرفریب اور نظروں کو خیرہ کرنے والی مصنوعی جنت میں ایک مرتبہ قدم رکھ کر پیچھے ہٹانا کس قدر دشوارگزار اور جاں گسل کام ہے، پھر بھی میں نوجوانان ملت اسلامیہ سے دست بستہ التماس کرتا ہوں کہ خدارا اپنے اندر حلال و حرام کی تمیز پیدا کریں، چند لمحوں کی جھوٹی خوشیوں کے لئے اپنی آخرت کو تباہ نہ کریں۔
نہ جا ظاہر پرستی پر اگر کچھ عقل ودانش ہے
چمکتا جو نظر آتا ہے، سب سونا نہیں ہوتا
جس طرح ٹیکنالوجی اندھادھند ترقی کر رہی ہے اور جس تیزی سے روحانی تربیت و دینی علم, دنیا سے اٹھتے چلے جا رہے ہیں,بلکہ تقریبا اٹھ چکے ہیں،
میں نئی جنریشن (اکیسویں صدی و مابعد) کے حوالے سے بہت زیادہ فکرمند ہو رہا ہوں، جانے ہمارا کیا بنے گا۔۔۔۔ معاشرتی حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔۔۔کاش ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، کاش ہم دو تین سو سال پہلے پیدا ہوئےہوتے۔
سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ السلام کے فرمان کا مفہوم ہے کہ:
قرب قیامت میں علم اٹھا لیا جاے گا۔۔۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ علم اپنے تمام ملزومات سمیت اٹھایا جا رہا ہے، کچھ باقی بچا ہی نہیں۔