پدماوتی: دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

 ڈاکٹر سلیم خان

مثل مشہور ہے ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟‘ اکثرو بیشتر بدنامی نقصان دہ ہوتی ہے اس لیے نیک نامی کے ذریعہ ناموری حاصل کی جاتی  ہے۔ سیاستدا نوں کو نیکی اور بدی کی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ فی زمانہ  جمہوری سیاست میں  ایک بدی دوسری برائی سے برسرِ پیکار ہوتی ہے اور عوام کمتر برائی پر اکتفاء کرنے کی مشق میں مبتلاء  رہتے ہیں ۔ شہرت کے حصول کی خاطر فلمی دنیا کے لوگ بھی نیک و بد کی تمیز کو ضروری نہیں سمجھتے اور اپنی فلم کو مشہور کرنے کے لیے اوچھا سے اوچھا ہتھکنڈہ اپنانے کو معیوب نہیں سمجھتے۔ شائقین مشہور فلم پر یہ جانے بغیر ٹوٹ پڑتے ہیں کہ وہ نیک نام ہے یا بدنام ہے، اور کروڈوں روپئے نچھاور کرکے فلمساز کے وارے نیارے کردیتے ہیں۔

ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ’پدماوتی‘ کو اگر اس زاویہ سے دیکھا جائے تو طرح طرح کے شکوک و شبہات سر ابھارنے لگتے ہیں ۔ اس فلم کا چرچا شوٹنگ کے دوران ہی شروع ہوگیا تھا۔ اس کی وجہ   پہلے راجستھان اور پھر مہاراشٹر میں اس کا  سیٹ جلایا جانا تھا۔ یہ خبر ذرائع ابلاغ میں جنگل کے آگ  کی طرح پھیل گئی اور پدماوتی کو اس سے زبردست شہرت ملی۔ ان دونوں واقعات میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ اس میں کوئی مالی نقصان بھی ہوا یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سیٹ کی قیمت سے زیادہ انشورنس کی رقم مل گئی ہو ؟ اشتہاری دنیا کا کوئی منشی یہ حساب کتاب بھی  کرسکتا ہے کہ  سیٹ کے جلنے سے ہونے والا نقصان زیادہ تھا یا اس کے ذریعہ ملنے والی شہرت کا خرچ زیادہ تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شمالی ہند کے کسانوں کی مانند جو اپنی فصل کو کاٹنے کے بعد کھیت جلادیتے ہیں بھنسالی نے  شوٹنگ کے ختم ہوجانے پر اس کو ہٹانے پر رقم خرچ کرنے کے بجائے اسے نذرِ آتش کردیا  ہو۔ کوئی ضروری نہیں کہ ایسا ہوا ہو؟ لیکن کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پولس والے سارے امکانات کی تفتیش کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں۔

فلم کی تشہیر کے لیے فلمساز مختلف النوع طریقہ استعمال کرتے ہیں مثلاً سلمان خان کی نریندر مودی کے ساتھ پتنگ بازی۔ فلم  پدماوتی پرراجستھان کی کرنی سینا نے تاریخی حقائق مسخ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ اور پدماوتی کی مخالفت کے علاوہ کیا کرتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا ؟  اس کے باوجود ہر روز ان کی مہربانی سے پدماوتی کا نام  سارے اخبارات کے صفحۂ اول کی زینت بن جاتا ہے۔ یہ حضرات ٹیلیویژن پر بھی پدماوتی کی خدمت انجام  دیتے ہیں ۔ ٹائمز ناو کے ایک شو میں سینا کا ایک ذمہ دار تلوار لے کر پہنچ گیا۔ جب سوال کیا گیا کہ علاوالدین خلجی نے  کس سن میں چتوڑ پر حملہ کیا تو اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا بلکہ وہ چیخ چیخ کر یہی کہتے رہے کہ پدماوتی نے 16 ہزار عورتوں کے ساتھ جوہر کی رسم ادا کی۔ یہ پوچھے جانے پر کہ آپ تلوار سے کسے ڈرا رہے ہیں ؟ جواب دیا پدماوتی ہمارے لیے  دیوی کا درجہ رکھتی ہے۔ کیا دیپکا اس کے برابر ہوسکتی ہے؟ وہ کیوں کہتی ہے کہ یہ فلم ریلیز ہوکر رہے گی۔ یہ  ڈرامہ دیکھتے ہوے  ایسا نہیں لگ رہاتھا کہ قومی ٹیلیویژن چینل پر کوئی سیاسی مباحثہ  ہورہاہے بلکہ یہی محسوس ہوتا تھا کہ پدماوتی کی تشہیر کا سستا ناٹک  کھیلا جارہاہے۔ عصر حاضر میں طوائف کے لقب سے نوازے جانے والے ذرائع ابلاغ سے یہ توقع بیجا بھی نہیں ہے۔

ہندو رہنما سبزی خوری کے  سبب بڑے فخر سے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے اپنے آپ کو عدم تشدد کا علمبردار قرار دیتے ہیں  لیکن پدماوتی نے اس نقاب کو تار تار کردیا ہے۔ اول  تو ہندو انتہا پسندوں نے فلم کی ہیروئن دپیکا پڈوکون کی ناک کاٹنے کا اعلان کیا اور پھر ٹھاکر ابھیشیک سوم نے دپیکا اور سنجے لیلا بھنسالی کے سر کی قیمت 5 کروڑ مقرر کردی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور بجرنگ دل کی حمایت کے بعدان  انتہا پسندوں کے عزم و حوصلہ میں زبردست اضافہ ہوا اور انہوں  نے  اداکاروں کے حق میں بیان دینے والوں کو بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی شروع کردی  حالانکہ بھنسالی اس فلم کورانی پدماوتی کی قربانی، بہادری اور وقار کو خراج تحسین قرارد دیتے ہیں ۔ دیپکا پڈوکون اس فلم اور کہانی کا حصہ بن کر فخر محسوس کرتے ہوئے کہتی ہیں  اس کہانی کو ضرور بتایاجانا چاہئے۔ دیپکا کا یہ سوال بھی قابل توجہ ہے کہ’’ہم بحیثیت  قوم کہاں پہنچ گئے ہیں ؟ یہ خوفناک ہے، بہت ہی خوفناک۔‘‘

ان تنازعات کے بعد فلم ’پدماوتی‘ کی یکم دسمبر کو ہونے والی نمائش ملتوی کردی گئی، لیکن ہندو انتہا پسندوں  کا غصہ کم نہ ہوا اور ریاست ہریانہ میں بی جے پی کے رہنما  سورج پال امو نے اداکارہ دپیکا پڈوکون اور ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کا سر قلم کرنے والے کو 10 کروڑ روپے دینے کا اعلان کر دیا۔ سورج پال  کے گھر پر انکم ٹیکس محکمہ کو چھاپہ مار کرپہلے تو یہ پتہ لگانا چاہیے کہ اس کے پاس دس کروڈ کی رقم ہے بھی یا نہیں ؟ اگر ہے تو کہاں سے آئی اور اس پر انکم ٹیکس ادا کیا گیاتھا یا نہیں ؟ اس تفتیش کا یہ انکشاف بھی ہوسکتا ہے کہ   وہ رقم خود بھنسالی نے سورج پال کے پاس پہنچائی ہو اور اس کے ساتھ دوچار کروڈ کمیشن کے طور پر بھی دیا ہو۔ سورج پال  نےعلی الاعلان پدماوتی فلم میں مسلمان حکمران علاؤ الدین خلجی کا کردار ادا کرنےوالے رنویر سنگھ کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی بھی دے ڈالی اس  لیے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی۔  سورج پال کو ایف آئی آر سے  کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے کہ  فلم ہٹ ہوجانے کے بعد اگر بھنسالی اور رنویر سنگھ عام معافی کا اعلان کردیں تو شکایت کی ہوا اپنے آپ نکل جائے گی۔ یوگی ادیتیہ ناتھ نے سنجے لیلا بھنسالی کو سورج پال کے برابر کا مجرم قرار دے کر اپنی انصاف پسندی کا ثبوت دے ہی دیاہے اور ریاستِ ہریانہ جہاں  عمر خان کے قاتلوں کو چھوڑ کر ساتھیوں کو ملزم ٹھہرایا  دیا جاتاہو  بی جے پی رہنماسورج پال کو سزا دینے کی جرأت کون کرسکتا ہے؟ بقول ملک زادہ منظور ؎

دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں  

ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گ

سورج پال نے ایف آئی کے بعد دھمکی دی کہ میں یہ فلم کسی کو دیکھنے نہیں دوں گا۔ چھتری سماج پورے ملک کے سنیما گھروں کو توڑ پھوڑ ڈالے گا لیکن  ساتھ ہی سورج پال نے یہ حکمت کی بات بھی  کہہ دی  کہ’  آپ تو جانتے ہی ہیں کہ مودی کا سوچھ بھارت ابھیان چل رہا ہے‘ یعنی اس توڑ پھوڑ سے ہونے والی تباہی و بربادی کےکوڑا کرکٹ کو سوچھ ّ بھارت ابھیان  کے تحت سرکاری خرچ پر صاف کردیا جائےگا۔  سورج پال جیسے لوگوں  کے  علی الرغم پدماوتی کے حق میں ایک اور متوازی لہر چل رہی  ہے۔ سپریم کورٹ نے فلم کی نمائش پر روک لگانے کی درخواست مسترد کردی ہے۔ اطلاعات و نشریات کی وزیر اسمرتی ایرانی نے واضح کیا ہے کہ امن و قانون کو برقرار رکھنا ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور انہیں اس فلم کی نمائش کو یقینی بنانا چاہیے۔ فلم برادری بھنسالی کے ساتھ ہے۔ سنسر بورڈ کے نغمہ نگار سربراہ  پرسون جوشی، نغمہ نگار جاوید اختر، فلم ساز کرن جوہر، سدھیر مشرا سمیت متعدد شخصیات اور تنظیموں کے علاوہ بدنامِ زمانہ راج ٹھاکرے کی  نو نرمان سینا نے بھی بھنسالی کی حمایت کی ہے اور فلم دیکھے بغیر اس کی مخالفت کو  افسوس ناک  قرار دیا ہے اس لیے ان کی حمایت سے پدماوتی ریلیز تو ہوجائیگی لیکن اس کی کامیابی سہرہ چتوڑ میں  علاء الدین خلجی کو فوج سے  شکست کھانے والے راجپوتوں کی  کرنی سینا اور بی جے پی کے سر بندھے گا۔ پدماوتی کے کھیل پر سراج لکھنوی کا شعر معمولی ترمیم کے بعد صادق آتا ہے؎

فلم تمہاری،  ہم بھی تمہارے   

اچھا تم جیتے، ہم ہارے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    فلم ٫پدما وتی، نے ہندوستانی تاریخ اور مسلم حکمرانوں کے طرز حکومت خصوصاً علاءالدین خلجی کے بارے میں کئی سوال کھڑے کردئیے ہیں ۔
    خلجی کی حکومت کے ڈھائی سو سال بعد ایک مسلم شاعر کی دیومالائی نظم پر بننے والی فلم نے کئ سوال کھڑے کردئیے ہیں ۔ بہتر ہے کہ اس فلم اور بھارتی فلم انڈسٹری کے بارے میں کچھ حقائق سامنے لائے جائیں۔

    بالی وڈ فلم انڈسٹری ہندوستانی معیشت میں اہم مقام رکھتی ہے، بلین ڈالر ٹرن اوور انڈسٹری ہے۔
    یہ انڈسٹری عوام الناس کی ذہنی تغیر و تبدل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
    ہندوستان میں ہندوتوا کی انتہا پسندانہ حالیہ سوچ نے اس انڈسٹری کے فلم سازوں اور انوسٹرز کے لئے ہندو دیو مالائی موضوعات کو ایک خاص معاشی منافع خوری کی سوچ دے دی ہے اور چونکہ ہندو مذہب کی بنیاد ہی دیو مالائی کہانیوں پر مشتمل ہے اس لئے یہ دونوں عوامل مل کر فلم سازوں کے لئے پرکشش موقع بن گئے ہیں ۔
    بدقسمتی سے ہندوستانی معاشرہ بنیادی طور پر کثیر مذہبی معاشرہ ہونے کے ناطے افراط و تفریط کے اثرات کو تیزی سے قبول کرتا ہے جو مذہبی منافرت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
    تاریخی حقائق میں دیو مالائی موضوعات شامل کرکے بننے والی موجودہ ہندوستانی فلمیں معاشی فوائد کے ساتھ ساتھ معاشرتی منافرت کا سبب بھی بن رہی ہیں۔
    اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر بھارتی دانش وروں کے مابین مکالمے کی ضرورت ہے اور ہندوستان کو اپنے سیکولر آئین کے سہارے اپنی معاشرتی ہم آہنگی کی راہ اختیار کر کے آگے بڑھنا ہوگا ۔

تبصرے بند ہیں۔