راہل گاندھی کی صدارت دو دھاری تلوار

راحت علی صدیقی قاسمی

 سیاسی گلیاروں میں شور ہے، قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں، اخبارات کی سرخیاں یقین دہانی کرا رہی ہیں، احوال و کوائف احساس دلا رہے ہیں، راہل گاندھی کو کانگریس پارٹی بہت ہی اہم ذمہ داری سپرد کرنے جاری ہے۔ 4؍دسمبر کو ان کی صدارت کا اعلان ہونا تقریباً طے مانا جارہا ہے، گجرات اسمبلی انتخابات میں ان کی صدارت جان ڈال سکتی ہے، وہ کارکنان میں جوش بھر سکتے ہیں، کانگریس کی ڈوبتی کشتی کے کھویا ثابت ہوسکتے ہیں، ایسے دعوی کئے جارہے ہیں، قصیدہ خوانی کا دور شروع ہو چکا ہے، حالانکہ ذہن میں چند سوالات ہیں، جو راہل کی قائدانہ صلاحیتوں کو مشکوک کرتے ہیں ۔

اس نازک موقع پر انہیں صدارت سونپے جانے پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں، حالانکہ چند دنوں سے راہل میں کچھ تیزی ضرور محسوس ہوئی ہے، انہوں نے گجرات میں مسلسل انتخابی ریلیاں کی ہیں، جماعت کے مقاصد اور بی جے پی کی خامیوں پر روشنی ڈالی، لیکن ماضی کی کئی کہانیاں ہیں جو ان میں قائدانہ اہلیت کے فقدان کی تصویر پیش کرتی ہیں، جب جب انہیں اہم ذمہ داریاں دی گئیں، اس کے نتائج بے انتہاء مایوس کن رہے، پارٹی میں ہمیشہ یہ شور بلند ہوتا رہا کہ پرینکا گاندھی کو میدانِ سیاست میں قدم رکھنا چاہیے، اور اپنے آباء و اجداد کی وراثت کو آگے بڑھانا چاہئے۔2007 میں انہیں کانگریس پارٹی نے انتخابی مہم کے لئے اہم عہدہ سپرد کیا، انتخاب میں کانگریس انتہائی معمولی ووٹ فی صد حاصل کر پائی، جو راہل کی قیادت، ان کے طرز عمل اور ان کی تدابیر پر سوالیہ نشان لگاتا ہے، اس انتخاب میں کانگریس کا ووٹ فی صد 8.53 تھا، اسے صرف 22 نشستیں نصیب ہوئیں، یہ مرحلہ یقینی طور پر کانگریس کے لئے انتہائی سخت تھا، گاندھی خاندان کا وارث اپنا جادو نہیں دکھا پایا، لوگ اس کے وعدوں، ارادوں پر بھروسہ نہیں کرپائے حالانکہ یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے، کہ عرصہ دراز سے اترپردیش کی سیاسی فضا ایسی نہیں تھی کہ وہاں یک لخت کانگریس کے مقدر کا ستارہ چمک اٹھتا اور وہ بلند مقام حاصل کرلیتی، لیکن تصویر کا دوسرا رخ اس سوال کو خیال محض ثابت کردے گا۔

2012 میں یوپی انتخابات کا سلسلہ جاری تھا، تمام سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور صرف کرچکی تھیں، اس انتخاب کی سب سے اہم خصوصیت دو نوجوان چہرے تھے، جو دو سیاسی خانوادوں کے چشم و چراغ ہیں، ان جماعتوں کا مستقبل انہی شخصیات سے وابستہ ہے، راہل گاندھی اور اکھلیش یادو دونوں نے ریاست کے مختلف گوشوں میں سیاسی جلسے کئے، اپنے منصوبہ عوام کے سامنے پیش کئے، وعدوں کی برسات کردی، لیکن جب نتائج آئے تو انتہائی تعجب خیز صورت حال تھی، اکھلیش یادو نے جس جس سیٹ پر لوگوں سے وعدے کئے تھے، ان  تمام سیٹوں پر سماجوادی کا پرچم لہرایا، اکھلیش یادو وزیراعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے، اس صورت حال کے بعد پھر یہ آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں کہ پرینکا گاندھی کو سیاست میں آنا چاہئے اور کانگریس کو زندہ کرنا چاہئے، اس انتخاب نے راہل گاندھی کے قائدانہ کردار کو مشتبہ کر دیا، عمر ایک تھی، تجربہ تقریباً برابر تھا، حالات یکساں تھے، اس کے باوجود راہل کوئی کرامت دکھانے میں ناکام ثابت ہوئے، حالانکہ 2009 اسمبلی انتخاب میں انہوں نے  ایک ہفتہ میں 25 انتخابی جلسے کئے تھے اور مثبت نتائج بھی آئے، لیکن اس کے بعد راہل اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں ناکام ثابت ہوئے۔ 2014 اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے انہیں پوری طاقت سے نشانہ بنایا، ان کی صلاحیتوں کو چیلنج کیا، انہیں پپو ثابت کرنے کی کوشش کی اور نتائج کے بعد ہر محاذ پر وہ افسردہ ہی نظر آئے، وہ جوش و خروش، وہ جملے، وہ تدابیر کبھی نتائج کے عکس میں دکھائی ہی نہیں پڑیں، جو ان کو قائد ثابت کرپاتیں ۔

2017 اترپردیش ریاستی انتخاب اس معنی کر بھی اہم تھا پورے ملک میں بی جے پی کی تاریخی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا، حالانکہ کیجریوال ان کے لئے سر درد ضرور ثابت ہوئے، اس کے باوجود ملک میں طبقہ خاص بی جے پی کو دیوانگی کی حد تک چاہتا ہے، انہیں ووٹ دینا مذہبی فریضہ گردانتا ہے، اس صورت حال میں پھر سے راہل کا امتحان ہوا، اس میں بھی وہ ناکام ثابت ہوئے اور پارٹی انتہائی قلیل سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی، سماجوادی کا ساتھ بھی انہیں نہیں بچا سکا، حالانکہ جماعت نے پنجاب میں حکومت بنائی، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں نے اس کا سہرا کیپٹن امریندر سنگھ کے سر باندھا، راہل کے لئے سب زیادہ تکلیف کا پہلو یہ رہا کہ وہ گوا میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھی سرکار نہیں بنا سکے، بی جے پی کو کوستے رہ گئے، جو ان کی قیادت پر بڑا سوال ہے،اب راہل گاندھی کو صدر بنانے کی توقعات یقین کا روپ لے رہی ہیں، جب کہ یہ وہ نازک ترین موقع ہے، جس میں اگر کانگریس ناکام ہوتی ہے، تو اس کا مستقبل تاریک محسوس ہونے لگے گا اور ان کے لئے جلال رفتہ کو حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا، فی الوقت جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے اثرات بھی لوگوں کے قلوب پر ہیں، ان کے زخموں کا مرہم لے کر ہی کانگریس آگے بڑھ سکتی ہے، فتح سے ہمکنار ہو سکتی ہے، یہ انتہائی دل چسپ ہوگا، کیا راہل کی صدارت پارٹی کارکنان کو مطمئن کرپائے گی؟ ان میں حیات نو پیدا کرپائیں گے؟

مستقبل ان حقائق کو منصئہ شہود پر لے آئے گا، ماضی کی یادوں نے تو راہل کی کامیابی کے عکس کم ہی دکھائے ہیں، اس موقع پر یہی کہا جا سکتا ہے، راہل کی صدارت دو دھاری تلوار ہے، جس کی ایک دھار کند محسوس ہوتی ہے، پھر ان کا صدر منتخب کیا جانا بڑا سوال ہے، پارٹی میں اور بھی کامیاب تجربہ کار حوصلہ مند ذہین و فطین زبان و بیان کے ماہر افراد موجود ہیں، ان پر توجہ کیوں نہیں ؟ 85 میں ہیوم نے کانگریس کی بنیاد رکھی  تب سے اب تک 59صدور خدمت انجام دے چکے ہیں، کیا وہ سب گاندھی خاندان سے تھے؟ سونیا گاندھی سے پہلے صدر سیتا رام کیسری کیا ان کا تعلق گاندھی نہرو خاندان سے تھا؟ پھر آج کون راہل کو صدر بنانے کی خواہش ہے؟ جب کہ کانگریس مکت بھارت کے نعرہ لگ رہے ہیں، پھر یہ فیصلہ کیوں ؟ کیا سونیا گاندھی کانگریس کے مستقل سے خوف زدہ ہیں ؟ کیا انہیں اس جماعت میں انتشار کے آثار محسوس ہو رہے ہیں ؟

بہت سے سوالات ہیں، جو اس خبر کے بعد حاشیئہ خیال پر ابھرے ہیں، اور کانگریس کی منصوبہ بندی عجیب و غریب محسوس ہوئی ہے،کانگریس کو اس موقع پر رک کر غور و فکر کرنا چاہئے، اور کسی قدآور رہنما کو اس عہدہ کے لئے منتخب کرنا چاہئے، تاکہ مستقبل میں کانگریس اچھے نتائج سے ہمکنار ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔