اے جوانی کے نشے میں مخمور انسان!

 حامد محمود راجا

درس نظامی میں شامل علامہ حریری (ابومحمد قاسم بن علی بن محمد بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ) کی افسانوی ادب پر مشتمل معروف تصنیف ”مقامات“ میں متعدد شاہکارخطبات و مواعظ شامل ہیں ۔ ایسے ہی ایک مبنی برحقیقت خطبے کو کتاب کے راوی حارث بن ھمام نے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں یمن کے شہر صنعاءمیں بے یارو مددگار گھوم رہا تھا۔ مجھے کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جو اس کسمپرسی کی حالت میں مجھے سنبھالا دے سکے۔ حارث بن ھمام کہتے ہیں کہ میں گھومتے پھرتے ایک حلقہ وعظ تک جا پہنچا۔ بڑے مجمع میں سے رونے کی آوازیں بلند ہورہی تھیں ۔ میں مجمع کے درمیان میں جاگھسا تاکہ بات کو پوری طرح سمجھ سکوں ، کیا دیکھتا ہوں کہ حلقے کے درمیان میں ایک سیاح مزاج شخص براجمان ہے جس کی آواز میں سوز بھرا تھا اور تقریر کے دوران وہ لفظوں کے موتی رول رہا تھا۔ خطیب مجلس در سماعت پر تنبیہ آمیز دستک دے رہا تھا۔ لوگوں نے اس کو ایسے گھیر رکھا تھا جیسے روشنی کا ہالا چاند کو گھیر لیتا ہے یا پھر غلاف پھل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ میں اس مقرر شعلہ بیان کے مزید قریب ہو گیاتاکہ میں بھی اس زبان سے جھڑنے والے کچھ موتی سمیٹ سکوں ۔ خطیب اپنی گرجدار آواز میں بول رہا تھا۔ اُس نے کہا :

” اے جوانی کے نشے میں مخمور اور لاپرواہ انسان! تو تکبر کی وجہ سے کپڑے لٹکاکر چلتا ہے ….تو اپنی جہالتوں پر نازاں ہے….اور سرکشی کی طرف مائل ہے….تو کب تک اپنی گمراہی پر ڈٹارہے گا….اورکب تک تیرے گناہوں کی چراگاہ ہری بھری رہے گی….تو کب تک تکبر میں آگے آگے بڑھتا رہے گا….اور کب تک اپنی فضول حرکتوں سے باز نہیں آئے گا؟….اے سرکش انسان!تو کب تک گناہ کر کے اپنے مالک سے مقابلہ کرتا رہے گا؟….اور تو کب تک گناہوں میں اس ذات پر جرا ¿ت کرتا رہے گا جو سب راز جانتی ہے، ….تو اپنے ہم مجلسوں سے تو چھپ سکتا ہے لیکن تو اپنے نگران کی آنکھوں سے کیسے اوجھل ہوگا؟ …. تو اپنے نوکر سے تو چھپتا ہے لیکن اپنے مالک سے خوف نہیں کرتا ….کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ دھوکے بازی پر مبنی تیری یہ عادت موت کے وقت بھی تجھے فائدہ دے گی؟ ….کیا تیرا یہ خیال ہے کہ تیرا مال تجھے تیرے اعمال کی بربادی سے بچالے گا؟ ….کیا تیرایہ گمان ہے کہ جب تیرے پاﺅں ڈگمگا جائیں گے تو اس وقت صرف ندامت کافی ہے …. تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ حشر والے دن تیرا کنبہ قبیلہ تجھ پر مہربان ہوگا ….اے انسان! تو سیدھی راہ پر کیوں نہیں چلتا؟ ….تو اپنے مرض کا علاج فوراً کیوں نہیں کرتا؟ ….تو اپنے گناہ کی تیز دھار کو کند کیوں نہیں کرتا؟ ….تو اپنے نفس پرکیوں پر قابو کیوں نہیں پاتا؟ حالانکہ وہ تیرا سب سے بڑا دشمن ہے ….کیاموت تیری انتہا نہیں ہے ؟ ….تو اس کے لیے تو نے کیا تیاری کی ہے ؟ ….کیا بڑھاپے نے تجھے خبردار نہیں کیا؟ ….اب تیرے پاس عذرکرنے کو کیابچا ہے ؟ …. کیاقبر تیرا ٹھکانہ نہیں ہے؟وہاں تیرا جواب کیا ہو گا؟ …. کیا تو نے اللہ کی طرف پلٹ کر نہیں جانا؟ ….وہاں کون تیری مدد کرے گا؟

زمانے نے تجھے بہت جھنجھوڑا لیکن تو اونگھتا رہا ….نصیحت تجھے اپنی طرف کھینچتی رہی لیکن تو پیچھے ہٹتارہا ….تیرے سامنے عبرت کاسامان بکھرا پڑا تھا، لیکن تو نے آنکھیں موند لیں ….حق تیرے سامنے تھا لیکن تو شک میں پڑا رہا …. موت تجھے یاد دلاتی رہی، لیکن تو بھولتارہا ….تیرے لیے ممکن تھا کہ تو اپنی بد اعمالیوں پر افسوس کرے لیکن تو نے نہیں کیا ….تویاد الہی پر پیسوں کو ترجیح دیتا ہے، اوراُن کو گن گن کر رکھتا ہے ….تو نیکی کے مقابلے میں بلند و بالا محلات کو اہم سمجھتا ہے ….تواپنے رہبر کی رہنمائی کی بجائے کھانے پینے کو ترجیح دیتا ہے ….توثواب کے بجائے ثوب (کپڑے)سے محبت رکھتا ہے ….تحفے میں ملے ہوئے جواہرات تیرے نزدیک نمازوں کے اوقات سے زیادہ قیمتی ہیں ….زیادہ حق مہر تیرے دل میں صدقہ خیرات سے اہم ہے ….رنگ برنگے برتن تجھے قراٰن سے زیادہ اچھے لگتے ہیں …. یاروں سے گپ شپ تجھے تلاوت سے زیادہ لطف دیتی ہے….تو نیکی کا حکم کرتا ہے اور خوداس کے پاس بھی نہیں پھٹکتا….تو برائی سے منع کرتا ہے لیکن خود اس نے نہیں بچتا ….تو ظلم سے منع کرتا ہے لیکن خود ظلم کرتا ہے….تو لوگوں سے ڈرتا ہے حالانکہ خوف خدا زیادہ اہم ہے۔ آخر میں خطیب نے چند اشعار پڑھے

دنیا طلب کرنے والے کے لیے بربادی ہے

وہ جو اُس کی طرف متوجہ ہوتا چلا گیا

ایسا شخص مرض سے نجات حاصل نہیں کرسکتا

جو دنیا کی محبت میں اندھا ہو چکا ہے

حالانکہ کہ اگر وہ سمجھتا تو اُس کے لیے

خواہشات کے بجائے بقدر ضرورت چیزیں ہی کافی تھیں

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ۔ایک نوجوان خوبصورت لڑکی روزانہ اکیلی یونیورسٹی جاتی تھی ..
    اسی یونیورسٹی میں اس کےوالد ایک ڈپارٹمنٹ کے انچارج تھے۔ایک دن چھٹی کے فورا بعد اچانک بادل گرجنے لگے اور زوردار بارش ہونے لگی ،ہر کوئی جائے پناہ کی تلاش میں دوڑ رہا تھا،
    سردی کی شدت بڑھنے لگی، آسمان سے گرنے والے اولے لوگوں کے سروں پر برسنے لگے،
    یہ لڑکی بھی یونیورسٹی سے نکلی اور جائے پناہ کی تلاش میں دوڑنے لگی، اس کا جسم سردی سے کانپ رہا تھا
    لیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ اسے پناہ کہاں ملے گی،جب بارش تیز ہوئی تو اس نے ایک دروازہ بجایا،
    گھر میں موجود لڑکا باہر نکلا اور اسے اندر لے آیا اور بارش تھمنے تک اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دی،
    دونوں کا آپس میں تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ لڑکا بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے جہاں وہ خود زیر تعلیم ہے۔
    اور اس شہر میں اکیلا رہتا ہے،ایک کمرہ برامدہ اور باتھ روم اس کا کل گھر تھا نوجوان نے اسے کمرے میں آرام کرنے کو کہا اور اس کے پاس ہیٹر رکھ دیا اور کہا کہ کمرہ جب گرم ہو جائے گا تو وہ ہیٹر نکال لے گا،
    تھوڑی دیر لڑکی بستر پر بیٹھی کانپتی رہی،اچانک اسے نیند آ گئی تو یہ بستر پر گرگئی۔نوجوان ہیٹر لینے کمرے میں داخل ہوا تو اسے یہ بستر پر سوئی ہوئی لڑکی جنت کی حوروں کی سردار لگی وہ ہیٹر لیتے ہی فورا کمرے سے باہر نکل گیا
    لیکن شیطان جو کہ اسے گمراہ کرنے کے موقع کی تلاش میں تھااسے وسوسے دینے لگا اس کے ذہن میں لڑکی کی تصویر خوب صورت بنا کر دکھانے لگاتھوڑی دیر میں لڑکی کی آنکھ کھل گئی،
    جب اس نے اپنے آپ کو بستر پر لیٹا ہوا پایا تو ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور گھبراہٹ کے عالم میں بے تحاشا باہر کی طرف دوڑنے لگی اس نے برامدے میں اسی نوجوان کو بیہوش پایا وہ انتہائی گھبراہٹ کی عالم میں گھر کی طرف دوڑنے لگی اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا یہاں تک کہ اپنے گھر پہنچ کر باپ کی گود میں سر رکھ دیا جو کہ پوری رات اسے شہر کے ہر کونے میں تلاش کرتا رہا تھا..
    اس نے باپ کو تمام واقعات من و عن سنا دیے اور اسے قسم کھا کر کہا کہ میں نہیں جانتی جس عرصہ میں میری آنکھ لگی کیا ہوامیرے ساتھ کیا کیا گیا، کچھ نہیں پتا،اسکا باپ انتہائی غصے کے عالم میں اٹھا اور یونیورسٹی پہنچ گیا اور اس دن غیر حاضر ہونے والے طلبہ کے بارے میں پوچھا تو پتا لگا کہ
    ایک لڑکا شہر سے باہر گیا ہے اور ایک بیمار ہے، ہسپتال میں داخل ہے،
    باپ ہسپتال پہنچ گیا تاکہ اس نوجوان کو تلاش کرے اور اس سے اپنی بیٹی کا انتقام لے،
    ہسپتال میں اس کی تلاش کے بعد جب اس کے کمرے میں پہنچا تو اسے اس حالت میں پایا کہ اسکی دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پٹیوں سے بندھی ہوئی تھی اس نے ڈاکٹر سے اس مریض کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر نے بتایا جب یہ ہمارے پاس لایا گیا تو اسکے دونوں ہاتھ جلے ہوئے تھے باپ نے نوجوان سے کہاکہ تمہیں اللہ کی قسم ہے!
    مجھے بتاؤ کہ تمہیں کیا ہوا ہے باپ نے اپنا تعارف نہیں کروایا،وہ بولا ایک لڑکی کل رات بارش سے بچتی ہوئی میرے پاس پناہ لینے کے لیے آئی،
    میں نے اسے اپنے کمرے میں پناہ تو دے دی لیکن شیطان مجھے اس کے بارے میں پھسلانے لگا تو میں اس کے کمرے میں ہیٹر لینے کے بہانے داخل ہوا، وہ سوئی ہوئی لڑکی مجھے جنت کی حور لگی، میں فورا باہر نکل آیا لیکن شیطان مجھے مسلسل اس کے بارے میں پھسلاتا رہا اور غلط خیالات میرے ذہن میں آ ٓتے رہے تو جب بھی شیطان مجھے برائی پر اکساتا میں اپنی انگلی آگ میں جلاتا تاکہ جھنم کی آگ اور اس کے عذاب کو یاد کروں اور اپنے نفس کو برائی سے باز رکھ سکوں یہاں تک کہ میری ساری انگلیاں جل گئی اور میں بے ہوش گیا ،
    مجھے نہیں پتا کہ میں ہسپتال کیسے پہنچا۔یہ باتیں سن کر باپ بہت حیران ہوا۔ بلند آواز سے چلایا
    اے لوگو۔۔۔۔۔۔! گواہ رہو میں نے اس پاک سیرت لڑکے سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا ہے
    سبحان اللہ یہ ہے اللہ سے ڈرنے والوں کا ذکر،
    اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس لڑکی کی عزت محفوظ نہ رہ سکتی ۔
    جو بھی لڑکا یا لڑکی ناجائز تعلقات قائم کرتے ہیں یا غیر شرعی دوستیاں یا محبتیں کرتے ہیں تو وہ اپنے اس برے فعل کو چھپانے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ والدین ان کے ان کاموں سے بے خبر رہیں حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ ان کے ہر فعل سے با خبر ہے……
    پھر بھی انکے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا …!!ایسا کیوں ہے…؟؟
    کیونکہ والدین نے بچپن سے ان کے دل و دماغ میں اللہ کے خوف کے بجائے اپنا ذاتی خوف،رعب و دبدبہ ،سزا کا ڈر ہی بٹھایا ہے۔
    اسی لیے آج وہ اللہ سے بے پرواہ ہو کر والدین سے چھپ کر گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
    اور ایسے بھی والدین ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت خوف خدا پر کی تو انکی اولاد نے بھی ہمیشہ برائیوں سے اپنے آپ کو باز رکھا.

تبصرے بند ہیں۔