شناسا بھی ملتے ہیں انجان ہو کر

احمد علی برقی اعظمی

شناسا بھی ملتے ہیں انجان ہو کر

غمِ زندگی سے پریشان ہوکر

جو کرتے ہیں لوگوں کی حاجت روائی

فرشتوں سے افضل ہیں انسان ہوکر

میں گُھٹ گھٹ کے جیتا ہوں فرقت میں جن کی

وہ ہیں دشمنِ جاں مری جان ہوکر

مری شکل جیسے کوئی آئینہ ہو

مجھے دیکھتے ہیں وہ حیران ہوکر

شرف میزبانی کا وہ بخشتے ہیں

مرے خانۂ دل میں مہمان ہوکر

گذرتا ہوں ہر روز جس امتحاں سے

وہ ہے سخت دشوار آسان ہوکر

جو انسانیت کا گلا گھونٹتے ہیں

وہ حیواں سے بدتر ہیں انسان ہوکر

پس از مرگ بھی زندۂ جاوداں ہیں

جو جیتے ہیں اسلام کی شان ہوکر

وہ ہیں ننگِ اسلاف ان کی نظر میں

جو کرتے ہیں یہ بزدلی خان ہوکر

وہ خود کُش جہنم کا ایندھن ہیں برقی

جو کرتے ہیں ایسا مسلمان ہوکر

تبصرے بند ہیں۔