ڈاکٹر فیاض علیگ
محبت تو جنوں کی آخری منزل سے آتی ہے
حصار ذات سے باہر خرد مشکل سے آتی ہے
…
فضاء میں چار بکهری ہوئی بارود کی بو ہے
ہوائے زندگی بهی کوچہ قاتل سے آتی ہے
…
وہی عشوہ، وہی غمزہ، وہی ابرو، وہی خنجر
بتا اے زندگی! تو آج کس محفل سے آتی ہے
…
سنائی کیوں نہیں دیتی ہمیں جهنکار کے آگے
صدائے درد بهی آخر اسی پایل سے آتی ہے
…
شواہد سب مٹا ڈالے گریباں سے گواہی تک
لہو کی بو مگر پھر بھی ید قاتل سے آتی ہے
…
هجوم یاس میں دل کی تسلی کو غنیمت ہے
ذرا سی روشنی جو پردہ محمل سے آتی ہے
…
بڑے حاطم سخی فیاض تهے کل جو زمانے میں
انہیں کے گهر میں اب روٹی بڑی مشکل سے آتی ہے
تبصرے بند ہیں۔