ہم نوامیں بھی کوئی گل ہو ں کہ خاموش رہوں

ریاض فردوسی

اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی۔ (سورہ البقرہ۔ آیت۔ 49)

مصر کے جتنے بادشاہ عمالیق وغیرہ کفار میں سے ہوئے تھے ان سب کو فرعون کہا جاتا تھا جیسے کہ روم کے کافر بادشاہ کو قیصر اور فارس کے کافر بادشاہ کو کسری اور یمن کے کافر بادشاہ کو تبع اور حبشہ کے کافر بادشاہ کو نجاشی اور ہند کے کافر بادشاہ کو بطلیموس۔ اس فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔ بعض نے مصعب بن ریان بھی کہا ہے۔ عملیق بن اود بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں سے تھا اس کی کنیت ابو مرہ تھی۔ اصل میں اصطخر کے فارسیوں کی نسل میں تھا اللہ کی پھٹکار اور لعنت اس پر نازل ہو۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر نہایت بیدردی سے محنت و مشقت کے دشوار کام لازم کیے تھے پتھروں کی چٹانیں کاٹ کر ڈھوتے ڈھوتے ان کی کمریں گردنیں زخمی ہوگئیں تھیں غریبوں پر ٹیکس مقرر کیے تھے جو غروب آفتاب سے قبل بجبر وصول کیے جاتے تھے جو نادار کسی دن ٹیکس ادا نہ کرسکا اس کے ہاتھ گردن کے ساتھ ملا کر باندھ دیئے جاتے تھے اور مہینہ بھر تک اسی مصیبت میں رکھا جاتا تھا اور طرح طرح کی بیرحمانہ سختیاں تھیں۔ (خازن وغیرہ) اگر اب بھی نہ جاگے تو شائد اگلہ نمبر ہمارا ہی ہے۔ (معاذ اللہ صد بار معاذاللہ)

پھر فرمایا کہ اس نجات دینے میں ہماری طرف سے ایک بڑی بھاری نعمت تھی بلاء کے اصلی معنی آزمائش کے ہیں لیکن یہاں پر حضرت ابن عباس، حضرت مجاہد، ابو العالیہ، ابو مالک سدی وغیرہ سے نعمت کے معنی منقول ہیں۔ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کردیتا تھا اور ان کی بچیوں کو زندہ رکھتا تھا۔ لوگوں کو غلام بناکر رکھتا تھا، ظلم و بربریت کا ایک بازار گرم تھا اور فحاشی و عریانی اپنے عروج پر تھے۔ (ہمارے ملک میں ہر 22منٹ پر کسی نہ کسی خاتون کے ساتھ زنا بالجبر ہوتاہے اور ہر 72منٹ میں کسی نہ کسی کمسن دوشیزہ ریپ کا شکار ہوتی ہے۔ ہر 25منٹ پر چھیڑخوانی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتاہے۔ ایک جائزہ کے مطابق 92فیصد وہ عورتیں جو مختلف حلقوں میں میں نائٹ شفٹ میں کام کرتی ہیں اپنی ڈیوٹی کے درمیان خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ اس میں ہر مذہب کی لڑکیاں شامل ہیں۔) سرکاری رپورٹ کے مطابق۔

’’بے شک فرعون ز مین میں سرکش و متکبّر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو کمزور کردیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لیے) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)، بے شک وہ فساد انگیز لوگوں میں سے تھا‘‘۔ (سورہ قصص۔ آیت۔ 4)

 فرعون جابرانہ طرز حکومت کا قائل تھا اور مظلوم عوام کے حقوق سلب کئے ہوئے تھا۔ حتی کہ ان سے جینے کا حق بھی چھین چکا تھا۔ لوگوں کا مال اور جانیں تک اس سے محفوظ نہ تھیں، مائیں فرعون کے خوف سے اپنے بچوں کو چھپا دیا کرتی تھیں یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ان کو ایک صندوق میں ڈال کر پانی کے سپرد کردیاتھا۔ بے گناہ لڑکیوں کو استعمال کے لیے رکھ لیتا،تاکہ بنی اسرائیل اخلاقی شرمندگی کا بھی شکار ہو،غرض کہ ان کے جسم کے ساتھ ساتھ ان کی روح بھی زخمی ہو۔ آج ہمارے ملک میں بھی اسی طرح کے حالات پیدا ہیں۔ کفراور اس کے معاون کو ہماری نا سمجھ ماں، بہنوں سے بے انتہا لگائو ہے۔ اور ہمارے مردوں سے شدید نفرت۔ ایک نئے مسلم بھا ئی رقت امیز واقعہ بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جب میں حالت کفر میں تھا، مرادآباد اور اس کے اطراف کے حالت سنگین تھے،ہندو مسلم دنگوں کا موقع تھا، ایک ٹرین بریلی سے دہلی کے لئے چلی، گڈھ مکتیشور کے پاس ٹرین روک کر تمام مرد،بچے اوربوڑھی عورتوں کو مار کر کمسن اور کم عمر کی ماں اور بہنوں گنگا اسنان کے ذریعے پاک کر کے سب لوگوں نے آپس میں تقسیم کر لیا۔ (یہ بھائی اب جماعت اسلامی میں کام کرتے ہیں اور اس کے رکن بھی ہیں)

 ایک وکیل صاحب جو تحسیل میں ہیں، کچہری میں بھی کام کر چکے ہیں، مسلم دوست ہیں، وہ کہتے ہیں، کہ جب بھی کوئی مسلمانوں کا طلاق والا معاملہ آتا ہے تمام ہندو وکلہ اس خاتون کے عزت کو تار تار کرنے کے لئے اس کے خلاف سازیشیں شروع کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ مسلم بہن ان کی سازیشوں سے اور باحالت مجبوری میں ان کی عیاشی کا سامان بنتی ہے۔ (ذرا سونچے کہ یہ ہمارے لئے کتنی بے شرمی کا مقام ہے،اور ہم مسلکی، برادری اور غریب اور امیر کی لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں)

 ایک صحافی جو دینک جاگرن میں کام کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ پولس اسٹیشن میں مسلم آدمی کی ذرا سی غلطی قابل قبول نہیں، اور دیگر دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے۔ ٹیمپو اسٹین ہو، بس اسٹین ہو،ریل ہو،اگر مسلم مرد یا کوئی بوڑھا آدمی ہی ہو،اسے کوئی جگہ نہیں دیتا، لیکن اگر کوئی مسلم خاتون آجائے تو ہر شخص مہربانی کو تیار ملتا ہے۔ ’’تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے‘‘(القرآن)

ہم اپنی ذاتی لرائی میں اس قدر الجھے ہیں کہ ہمیں اپنی ذلالت کا احساس ہی نہیں۔ ہماری بچّیاں اگر اسکول، کالج، ٹیوشن،اور دیگر علوم سیکھنے کے لئے باہر نکلتی ہیں، معاشرہ جو پوری طرح سے تعصب پرست ہوچکا ہے،اس کی جانب اپنے دل میں گندے خیالات لے کر سازش کرتا ہے کہ کیسے اس بہن کو اپنی ہوس کا سامان بنائے۔ اس سے ان کی مسلم دشمنی کو سکون میسر ہوتا ہے۔ ہمارے مسلم بچّے کم پڑھتے ہیں، اور یا تو مفتی بن جاتے ہیں، یا پوری طرح اسلام سے دور،اس لئے ہماری کم عقل بہنوں کو کفر کی چیزیں اور ان کے لڑکے اور مرد پسند آتے ہیں۔ ہم نے اپنی بچیوں کو نمازی تو بنایا لیکن ان کے اندر اسلامی تعلیمات نہیں دی۔ یا تو وہ اہلحدیث ہیں، یا بریلوی، یا دیگران کوحرام و حلال کافرق ہی نہیں۔  یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو،غریب ہو، امیر ہو،ڈاکٹر ہو یا دیگر شعبے کا ہو،وہ پوری طرح سے ہندو ہو چکا ہے۔ (چند نیک اور سعید لوگوں کے علاوہ)پولس اور فوج تو بہت قبل اس رنگ میں رنگ چکی ہے،اور باقی عدلیہ کب تک اور کہاں تک ان کے خلاف فیصلے کرے گی۔ بھائیوں اب تو نیند سے بیدار ہو جائو۔ کب تک ہم اس طرح کی میٹھی نیند سوتے رہیں گے۔ ایک مسجد میں جمعہ کے خطبے میں امام صاحب فرما رہیں تھے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے طلاق کے مسئلے کا حل کفر سے لے لیااور اب کفر نے بالکل اسلامی قانون کے طریقے سے فیصلہ کیا؟   نا جانے کتنی ہندو بہنیں جہیز کی لعنت کے سبب مرتی ہیں، انکی کوئی فکر نہیں۔ اب جہیز کی لعنت میں ہم بھی گرفتار ہیں۔ (الا ماشا ء اللہ) اپنی عزت کو ہم نے خوب نیلام کیا؟

میڈیا مسلم خواتین کے استحصال پر گھڑیالی آنسو بہا رہا ہے۔ وہ تین طلاق کے معاملے پر ہفتے تین دن، بحث،خصوصی پروگرام نثر کرتا ہے۔ اس کے بہانے میڈیا کا مقصد صرف اسلام پر حملہ کرنا ہے اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کرنی ہے کہ اسلام خواتین کو حقوق نہیں دیتا، طلاق کے نا م پر مسلم خواتین کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے۔ مسلم خواتین کے ساتھ دورہ جاہلیت جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ لیکن معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ میڈیا اور عدالت کو مسلم خواتین سے ہمدردی ہوتی تووہ مسلم خواتین کے ساتھ ڈھائے جانے والے مظالم اور فسادات کے دوران کی جانے والی آبروریزی کے خلاف آواز اٹھاتی، ان کے خلاف سخت کارروائی کرتی۔ اگست 2016 میں ہریانہ میں دو مسلم لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی ہوئی۔ دونوں مسلم بچیوں کی اجتماعی آبروریزی ان کے ماموں اور ممانی کے سامنے کی گئی تھی اور یہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھاکہ دونوں لڑکیاں موت کے منہ میں چلی گئی ہیں۔ مگر میڈیا بالکل خاموش رہا۔ بلندشہر قومی شاہراہ پر ہونے والے سنگین واردات میں سب خاموش رہیں۔ کینڈل مارچ کرنے والی خواتین بھی نہ جانے کہاں کہاں غائب ہو گء۔ مسلم خواتین کا رونا رونے والی مسلم مہیلا منچ بھی۔

کبھی نشتر چبھوتے ہیں کبھی مرحمت لگاتے ہیں

مسیحا کو شائد میرے مسیحاء نہ آئے ہے

ہم نے گناہوں کو معمولی سمجھ لیا ہے جب کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم  معمولی گناہوں کو بھی باعث ہلاکت سمجھتے تھے،اگرچہ کہ بارگاہ خداوندی رضی اللہ عنہ ورضو عنہ کے خطاب سے مزین تھے۔ آج چرب زبانی کو ہم نے معاش حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا،حق گوء اور بے باکی ختم ہورہی ہے، ہمارے درمیان عصبیت اورتعصب کے زہریلے شیر نے پرورش پاکر خود بہت ہرا بھرا کر لیا ہے۔

 آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مسلمانوں کی تعداد بہت معمولی تھی لیکن ہر مسلمان ایمان کی مضبوطی کے لحاظ سے ایک امت کی مانند تھا اوران کی حکمت عملی بہت مضبوط اورخالص اسلامی ہواکرتی تھی،ان کے ایمان کی مضبوطی کا یہ عالم تھا کہ بڑی بڑی عداوتیں اورسازشیں بھی انکا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔

اللہ نے ہمیں دشمن سے جہاد کا حکم دیا ہے اس لئے دعا کے ساتھ ساتھ جہاد کی بھی ضرورت ہے۔ دشمن کے خطرے کو دور کرنے کے لئے عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے اور دعا اس اقدام کو مکمل کرتی ہے۔

تمام مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ غیروں کی سازشوں سے ہم اس حال میں ہیں، لیکن کیا ہماری عقل اس قدر مفلوج ہو گء  کہ اُن کی شرارتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ اس پر ستم ظریفی کہ نہ دینی قیادتیں اختلافات کے پرامن حل کے ذریعے صورت حال کی بہتری کی کوئی مو?ثر کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں نہ سیاسی قیادتیں۔

کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہے غماز چمن

جس طرح کی بے خبری،اور لاپرواہی میں ہم مبتلا ہیں، اس نتیجے میں ہم خود کو عالم اسلام سے نہیں، عالم مسلمان کے نام سے موسوم کریں۔

جس طرح بنی اسرائیل پر ان کے گناہ کے سبب پے درپے مصیبتوں اور عذاب الہی نے ان کے دل دماغ میں خوف، مایوسی اور دہشت کا اس درجہ شکار کر دیا تھاکہ وہ صحیح تدبیریں سوچنے کی صلاحیت کھو چکے تھے،اسی طرح ہم بھی ہو چکے ہیں۔ اس سے اندیشہ ہے کہ ہم افراط وتفریط کا شکار نہ ہوجائے،لیکن

یقین محکم، عمل پیہم،محبت فاتح عالم

 آج ہر جگہ امت مسلمہ کی جان و مال، عزت و آبر اور دینی و ملی تشخص نشانے پر ہے،مسلمانوں کے اقتصادی ذرائع زدمیں ہیں، جان بھی خطرے میں ہے، عزت وآبرو جو برسوں سے پامال ہو رہی ہیں، اب ذلالت کی انتہا کی دہلیز پر ہے۔ لیکن اس نازک اورناخشگوار حالات میں بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں، اسلام دشمن طاقتیں ہر دور موجود رہیں ہیں۔ لیکن ہمارے پاس نعمت غیر مترکدہ قرآن کریم،یادگار نبی پاک ﷺ کی سنتیں اور احادیث مبارکہ موجود ہے۔

علماء دین کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی صلاحتوں کو استعمال کر کے ہم مسلمانوں کی رہنمائی کریں، اور ہمیں بھی ان کی عزت کرنی چاہیئے۔ سب سے کم تنخواہ عالم دین کی، اور حفاظ اکرام کی ہی ہے۔ انگریز افسر جب شمس الہدا پٹنہ (بہار )میں جب تحقیق کے لئے آیا تب سب سے کم تنخواہ حفاظ اکرام کی سن کر ششدر رہ گیا تھا۔ دورِحاضرمیں ہم مسلمان وہ کام کر رہے ہیں، جس کی پاداش میں اللہ رب العزت نے کئی انبیاء کرام کی قوموں کو صفاہستی سے مٹا کر نشانی کے طور پر ہمارے سامنے پیش کیا ہے،ہم  مسلمان دھوکہ دھی میں اول  ہے، ناپ تول میں کمی، شراب نوشی، زنا کاری جسے گناہ مسلمانوں میں عام ہے۔ (الا ماشا ء اللہ)  نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک جان قرار دیا ہے، آپس میں بھائی بھائی کا لقب دیا ہے، لیکن ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں، پوری دنیا میں غیروں سے زیادہ مسلمان آپس ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے فرانسیسی فوجی لا بریتان کے حوالے سے جس نے مسلمانوں اور فرانسیسیوں کی کئی جنگوں کے حالات بڑے ہی تجزیاتی انداز میں لکھا ہیَ لکھتے ہیں کہ فرانسیسیوں نے جب پہلی بار مصر اور اسکے مضافات میں حملہ کیا تو مسلمانوں کے پاس منجنیق کی شکل میں مضبوط اور تہس نہس کرنے والی اس زمانے کی توپیں موجود تھیں جس سے مسلمانوں نے فرانسیسیوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ جب مسلمان توپیں برسا رہے تھے تو فرانسیسی دور خیموں میں اپنے پادریوں کے پاس جما ہوکر عیسی مسیح سے مدد طلب کر رہے تھے۔ اور مسلمانوں کی توپوں سے اتنے مرعوب تھے کہ اسے عذابِ الہی اور دین سے دوری کا سبب گردان رہے تھے۔ لابریتان ایک دوسری جگہ لکھتا ہے کہ کچھ سالوں کے بعد جب فرانسیسوں نے مسلمانوں کی طرح توپیں بنا لیں اور وہ اس بار سمر قند اور بخارا پر حملہ آور ہوئے تو اس بار مسلمانوں کی وہی حالت تھی جو مصر پر حملے کے وقت فرانسیسیوں کی تھی۔ فرانسیسی توپیں برسا رہے تھے،اس بار مسلمان گھروں میں دبک کے بیٹھے تھے۔ سرکاری طور پر پورے سمرقند اور بخارا میں اعلان کردیا گیا کہ اس عذاب سے نجات کے لئے مسجدوں میں ختمِ خواجگان کیا جائیِ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو حلقے میں بیٹھ کر پڑھنے اورپڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔

سماجی، سیاسی، معاشی مسائل اور ہمیں عالمی سطح پر درپیش چیلینجز اس وقت تک دور نہیں ہو سکتے جب تک ہم مناسب حکمتِ عملی تیارنہ کریں، اسکے خاتمے کے لیے اسباب اختیار نا کریں اور اس کے لیے مناسب منصوبہ بنائیں۔ جو قوم بھی حکمت عملی سے دست بردار ہوجاتی ہے  وہ تاریکیوں میں کھو جاتی ہے۔ جب تک مسلمان حکمت عملی کے عمل سے جڑے رہے وہ خود بھی کامیاب رہے اور دوسروں کے لیے بھی رہنما بنے رہے۔ جب سے پالیسی میکنگ سے یہ قوم تہی دست ہوئی ہیِ اور دوراندیشیوں سے مفلوج ہوئی ہے اس وقت سے آج تک ہمارے سامنے اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ ہمیں دوبارہ منظم منصوبہ بندی کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ کیا کمیاں ہیں اورکیا خامیاں ہیں، انکا تجزیاتی مطالعہ کر کے انکے خاتمے کے لیے مناسب  لائحہِ عمل تیار کرنا ہوگا۔ اسے دین سے دوری اورغفلت سے جوڑ کر دیکھنے والی طرزِ تفکیر سے باز آنا ہوگا۔ وہ ذہنی طور پر انتہائی مفلوج سوچ ہے۔ جس میں ذرا بھی دور اندیشی نہیں۔ کوئی گہری سوچ شامل نہیں۔ آج دوسری قومیں کامیاب ہیں تو اس لئے نہیں کہ وہ دین دھرم سے بہت جڑی ہوئی ہیں۔ بہت عبادت گزار ہیں۔ انکی کامیابی کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ منصوبہ سازی کے عمل سے خود کو جوڑے ہوئے ہیں۔ یہود و نصاری جس پراللہ کی لعنت ہے وہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہیں کیونکہ انہوں نے پالیسی میکنگ کے عمل سے خود کو صدیوں سے گزارا ہے۔ آج ہندوتوا بریگیڈ ملک کی گدی پر براجمان ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ دین دھرم سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں نے اس کا خواب کئی دہایوں پہلے دیکھا تھا اور اس کے لیے انہوں نے منصوبہ بندی کی تھی جس کا پھل وہ آج ایک عرصے کے بعد چکھ رہے ہیں۔

   بوئے گل لے گئی بیرون چمن رازِچمن 

کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہے غمّازِچمن

عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا سازِچمن

  اڑگئے ڈالیوں سے زمزمہ پروازِچمن

ایک بلبل ہے کہ محو ِترنم اب تک

اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

(تفسیر ابن کثیر، تفہیم القرآن،مضمون، عابد انور،اور دیگر مضامین سے ماخوذ۔ نوٹ۔ چند ناموں کو انکی بدنامی اور کفرکے نرغے میں وہ آجائے اس لئے نہیں لکھا ہے۔ چند اقتباس مضمون قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم۔ سے لیا ہے۔)

تبصرے بند ہیں۔