محبت تو جنوں کی آخری منزل سے آتی ہے

 ڈاکٹر فیاض علیگ

محبت تو جنوں کی آخری منزل سے آتی ہے
حصار ذات سے باہر خرد مشکل سے آتی ہے

فضاء میں چار بکهری ہوئی بارود کی بو ہے
ہوائے زندگی بهی کوچہ قاتل سے آتی ہے

وہی عشوہ، وہی غمزہ، وہی ابرو، وہی خنجر
بتا اے زندگی! تو آج کس محفل سے آتی ہے

سنائی کیوں نہیں دیتی ہمیں جهنکار کے آگے
صدائے درد بهی آخر اسی پایل سے آتی ہے

شواہد سب مٹا ڈالے گریباں سے گواہی تک
لہو کی بو مگر پھر بھی ید قاتل سے آتی ہے

هجوم یاس میں دل کی تسلی کو غنیمت ہے
ذرا سی روشنی جو پردہ محمل سے آتی ہے

بڑے حاطم سخی فیاض تهے کل جو زمانے میں
انہیں کے گهر میں اب روٹی بڑی مشکل سے آتی ہے

تبصرے بند ہیں۔