ڈاکٹرنازش احتشام اعظمی
اکیسویں صدی میں انسانیت جن مختلف جان لیوا اور مہلک بیماریوں میں مبتلا ہے لیوکیمیا ان میں سے ایک ہے۔ لیوکیمیا ایک مہلک clonal سے hematopoietic سٹیم سیل کی خرابی کا ایک جزو ہے۔ خیال رہے کہ اس مرض میں سفیدذرات خون (WBC) اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ سرخ ذرات خون انتہائی کم رہ جاتے ہیں سفیدذرات خون کے بڑھنے سے جسم کارنگ پھیکا سفیدی مائل ہوجاتا ہے، ناخن بالکل سفید دودھ کی طرح ہو جاتے ہیں ۔
خون کے سفیدذرات اس کیلوس کو کہتے ہیں جو غذا کے ہضم ہونے کے بعدعروق مارسایقا (غددجاذبہ) کے ذریعے جگروخون میں داخل ہوتاہے چونکہ عروق ماساریقا اور غددجاذبہ و طحال ولبلبہ وغیرہ ایک ہی مزاج کے اعضاء ہیں اس لئے محققین نے ان سے سفید ذرات خون کا بننا تسلیم کیا ہے۔
ہرایک سرخ دانہ خون کے ایک خاص قسم کے بے رنگ پروٹین سے بناہوتا ہے اس کی ساخت یا بناوٹ خانہ دار ہوتی ہے جس کی ترکیب میں فولاد ہوتا ہے چونکہ سرخ ذرات کی بناوٹ میں ارضی مادہ ازقسم فولاد پاگیا ہے۔ اسی لئے محققین نے سرخ ذرات خون کی پیدائش استخوان یعنی ہڈیوں کے گودے میں تسلیم کی ہے جس کا براہ راست تعلق قلب وعضلات سے ہے۔ جب کہ سفیدذرات ہڈیوں کے گودے میں جاتے ہیں تو وہاں کیمیائی تبدیلی کھاکرسرخ ذرات خون میں تبدیل ہو جاتے ہیں جب ہڈیوں کے بنائے ہوئے سرخ ذرات خون پھیپھڑوں میں آتے ہیں تو شوخ سرخ ہو جاتے ہیں اس وقت خشک سرد تحریک زوروں پر ہوتی ہے۔ اگر بدقسمتی سے ہڈیوں کے گودے میں سرخ ذرات خون کی بناوٹ میں کمی آجائے تو خون کی سرخی کم ہو جاتی ہے، اس وقت گرم خشک تحریک بڑھ جاتی ہے۔ یعنی غدد جاذبہ تیز ہو جاتے ہیں جن سے سفید ذرات خون کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یادرہے کہ جب سودااعتدال پر ہوتا ہے تو خون میں سرخی اعتدال پر رہتی ہے جب سودا میں کمی اور صفراء میں زیادتی ہوتی ہے تو خون کارنگ زردی مائل پھیکا ہو جاتا ہے جس سے بدن کا رنگ بھی پھیکا پڑ جاتا ہے۔
جب بلغم و اعصابی رطوبات بڑھ جاتی ہے تو خون میں سرخی رہتی ہے نہ زردی بلکہ جسم کا رنگ سفیدی مائل ہو جاتا ہے۔ مریض کو اٹھتے بیٹھتے چکر آتے ہیں دل گبھراتا ہے۔ ضعف قلب وخفقان قلب کی شکایت ہو جاتی ہے، نقاہت بڑھ جاتی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ لیوکیمیا سرطان ہے، ناقابل علاج نہیں اگرچہ، لیکن علاج کے لئے سخت ترین مراحل سے جوجھنا پڑسکتا ہے، جس وجہ سے عموماًلوگوں میں یہ تصور بیٹھ جاتا ہے کہ لیو کیمیا ناقابل علاج ہے۔ بہت سے لوگ لیوکیمیا سے ڈرتے ہیں ۔ یہ نہ صرف ان کی اپنی صحت کو خطرے میں ڈالتاہے، بلکہ خاندان کوبھی بہر طور متاثرکرتا ہے۔ کیونکہ یہ بیماری ایک بارجب کسی فرد کو پنا شکار بنالیتی ہے تو اس کے علاج و معالجہ اور مہنگے نگہداشت کے انتظامات پورے کنبہ کی اقتصادی حالت کو متزلزل کرکے رکھ دیتی ہے، بسا اوقات لیو کیمیا کے مریض کے تیمار دار بھی اس کے شکار ہوجاتے ہیں ،مگریہ ایکا دکا معاملہ ہی اب تک دیکھنے میں آیا ہے، یعنی ہزارمریضوں کے تیمارداروں میں سے کسی ایک کوہی متاثر کیا ہے،لہذا بہت زیادہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے،البتہ احتیاط لازمی ہے۔ یہ خیال رہے کہ لیو کیمیا کوئی متعدی یا انفیکشن والی بیماری بھی نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ یہ مرض سارے اہل خانہ کو اپنا نوالہ بنالے گا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کا مہنگا علاج اہل خانہ کی کمرتوڑدیتا ہے، بہت سے خاندان تو معاشی دشواری کی وجہ سے اس کے علاج کے اخراجات کو برداشت ہی نہیں کرپاتے اور متاثرہ مریض کی زندگی اورموت اللہ کے سہارے چھوڑ دی جاتی ہے۔
البتہ اگراس بیماری کے لاحق ہونے سے پہلے ہی اس سے بچنے کے لیے آپ کواحتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اس بیماری کے لاحق ہونے کے بنیادی اسباب کو جانا جائے اوراس سے ہرممکن حدتک پرہیز کیا جائے۔ کھانوں کو دیر تک محفوظ کرنے والے کیمیکلز کا بے جا استعمال سے بلڈ کینسر ہوتا ہے۔ وہ افراد جو کہ فصلوں پر کیڑے مار ادویات کا اسپرے کرتے ہیں، ان میں لیکیومیا کے جراثیم جلدی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ تمباکو اور سگریٹ نوشی کرنے والے لوگ اس مرض میں جلد مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جن لوگوں کا قوت مدافعت کا نظام کمزور ہو وہ اس مرض کے جراثیم سے لڑنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ وہ افراد جو شعاؤں (ایکسرے وغیرہ) کا کام کرتے ہیں یا فیکٹری میں کام کرنے والے افراد خاص طور پر جو بینزین کیمیکل کا کام کرتے ہیں ان لوگوں کو لیکیو میا ہو سکتا ہے۔ مذکورہ بالااسباب سے پرہیز کرنا اورلیو کیمیا سے بچنے کیلئے ہرممکن طور پر اوپر بیان کردہ اشیاء سے خود کو دور رکھنا چاہئے۔ اب آئیے اس کی علا مات پر تھوڑی روشنی ڈالتے ہیں ۔ تاکہ جن لوگو کو ان علا مات میں سے کوئی علامت نظرآئے اسے فوراً کسی قابل اور ماہر فزیشین سے رابطہ کرنا چاہئے۔ وائرس انفیکشن لیوکیمیا کے اہم وجوہات میں سے ایک ہے، زیادہ عام وائرس کی قسمretrovirus c type ہے جو جسم میں leukocytosis کا سبب بنتا ہے اوراس کی وجہ سے بخار، خون کی کمی، ہڈیوں اور جوڑوں کا درد، دانت میں درد، pericardial بہاؤ کے ساتھ جسم کو تباہ کرتا رہتا ہے۔ بھوک نہ لگنا۔ وزن کا تیزی سے کم ہونا۔ سر چکرانا،عضلات میں درد۔ متلی، قے اور الٹی۔ آنتوں کے قدرتی فعل میں فرق، لگا تار قبض یا دست رہنا۔ لگا تار غیر فطری خون کا ڈسچارج۔ بہت زیادہ تھکان۔ انفیکشن کا صحیح نہ ہونا۔ بار بار بخار کا آنا۔
جگر اور تلی کا بڑھ جانا۔ رک رک کر سانس کا آنا۔ اینیمیا (خون کی کمی)
اب ہم اس کے علاج کی جانب آپ کی رہنمائی کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں ۔ اس مرض میں مریض کو سرخ خلیے اور پلیٹلٹس کی ڈرپس چڑھائی جاتی ہیں۔ انفیکشن دور کرنے کے لئے اینٹی بایو ٹکس دی جاتی ہیں۔ مریض کا یورک ایسڈ ٹھیک ہو تو اس صورت میں تھیراپی کی جاتی ہے۔ ان تھیراپیز میں بائیو لوجیکل تھیراپی، کیمو تھیراپی، ریڈئیشن تھیراپی اوررمشن انڈکشن شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ہڈیوں کا گودا تبدیل کرنا (بون میرو ٹرانس پلانٹ)اور اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ بھی اس کے علاج میں شامل ہیں۔ البتہ 50 سال سے زائد عمر والوں کی بون میرو ٹرانسپلانٹیشن نہیں کی جاتی۔ یاد رہے کہ اس مرض میں سرجری اتنی مو ثرنہیں ہوتی۔ لیوکیمیا کے علاج کا نتیجہ کیانکلے گا یہ ایک بے حد مشکل سوال ہے۔ لیوکیمیا کے کامیاب علاج کا انحصار اس بات پر ہے کہ کینسر کس نوعیت کیا ہے اور اس کا انکشاف کس اسٹیج پر ہو ا۔ لیوکیمیا کے کامیاب علاج کا تعلق مریض کی عمر سے بھی ہے۔ اس بیماری کو اس کی رفتار کی بنیاد پر ایکیوٹ ور کرونک میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اور مزید ان کو میلویڈ اور لیمفواڈمیں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اے ایم ایل اکیوٹ مائیلو جینس لیوکیمیا: یہ بڑوں کی بیماری ہے۔ جنھیں اے ایم ایل لیوکیمیا تشخیص ہو ان کے بچنے کی شرح 26فی صد ہے۔ ایل ایل اکیوٹ لیمفو بلاسٹ لیوکیمیا: یہ بچوں میں ہونے والا لیوکیمیا ہے۔ اس میں بچنے کے امکانات 60سے70فی صد ہیں ۔ سی ایم ایم کرونک مائیلو گینس لیوکیمیا: جینیاتی عضر ہونے کے باوجود یہ موروثی مرض نہیں ہے۔ سی ایم ایل سے متاثرہ افرادمیں 59فی صد افراد پانچ سال بعد تک زندہ ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں ۔
سی ایل ایل کرونک لیمفو بلاسٹ لیوکیمیا: یہ عموماً بڑوں میں ہوتا ہے۔ ان کے پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصے بچنے کے امکانات 50 سے 80 فی صد ہیں ۔ یہ اندازے 2005 سے 2011 کے درمیان کیے گئے تھے جب لیوکیمیا کے جدید علاج لوگوں کی پہنچ میں نہیں تھے۔ اب جب کہ سائنس نے مزید ترقی کر لی ہے امید کی جارہی کہ اس شرح میں مزید اضافہ ہو ا ہوگا۔
تبصرے بند ہیں۔