مذہب کا بطور مذہب، کوئی امکان نہیں
ادریس آزاد
اقبال نے اپنے ساتویں خطبے کا عنوان رکھا، ’’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ اور ثابت کیا کہ ’’جی ہاں مذہب کا امکان ہے‘‘۔ لیکن بعض ایسے حوالے جن کا اقبال نے ذکر نہیں کیا اس بات کے حق میں خاصے وزنی دلائل پیش کرتے ہیں کہ مذہب کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اگر ناسا اعلان کردے کہ ’’خلا سے بہت بڑا پتھر زمین کی طرف آرہاہے‘‘ اور دنیا بھر میں مذاہب کے بڑے بڑے ادارے مثلاً ویٹکن اور مکہ سے یہ اعلان ہوجائے کہ ’’ایسا کچھ نہیں ہے، کوئی پتھر زمین کی طرف نہیں آرہا‘‘ تو آپ کے خیال میں کتنے لوگ ہونگے جو ناسا کی بات مانیں گے اور کتنے لوگ ہونگے جو مذہبی پیشواؤں کی بات کا یقین کرلینگے۔
یہ سوال برائے سوال ہے۔ ایک تناظر سامنے لانے کے لیے۔ اور تناظر یہ ہے کہ لوگ یقیناً ناسا کی بات مانیں گے۔ لوگ ٹیکنالوجی کے استعمال کے دوران ہی تیّقن کے مراحل طے کرچکے تھے۔ اب تو ٹیکنالوجی کو آئے ہوئے بھی تین سو سے کچھ زیادہ سال ہونے کو آئے ہیں۔ اس دوران ٹیکنالوجی نے ہر قدم پر اپنے سچ ہونے کا یقین بڑھایا ہے، کہیں بھی، کبھی بھی گھٹایا ذرا بھی نہیں۔ ایسے عالم میں تو بات یقین سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے۔ تین سو سال کم تو نہیں اور ٹیکنالوجی کا خود کو بار بار اور ہرروز نئے سچ کے ساتھ پیش کرنا بھی کوئی کم معرکہ تو نہیں۔ ایسے عالم میں تو پوری کی پوری نئی مینٹکل فیکلٹی تعمیر ہوچکی ہوگی انسانی ذہن میں، سائنس پر اعتماد کی۔
اس کے برعکس مذہبی پیشوائیت نے دنیا کے معاملے میں بتدریج اپنی بات کے سچ ہونے پر لوگوں کا یقین کمزور کیا ہے اور مسلسل ایسا کیا ہے۔ سو اُدھر ٹیکنالوجی پر یقین پازیٹِو ایکسیلیریٹ ہورہاہے جبکہ ’’اِدھر کی ٹیکنالوجی‘‘ پر یقین نیگٹو ایکسیلیریٹ ہورہاہے۔ انسانی ذہن یقیناً ہر اس بات کو بلاچون و چرا تسلیم کرلیگا جو اسے سائنس اور ٹیکنالوجی بتائیں گے۔ یہاں ’ہربات‘ سے میری زیادہ ترمُراد پیشگوئی ہی ہے۔ اگرچہ اشیأ کی حقیقت بھی ’’ہربات‘‘ میں شامل ہے لیکن میں نے مضمون پیش گوئی سے ہی شروع کیا اور فی الحال تک میرا مؤقف بھی پیش گوئی کی سائنس کے ساتھ مخصوص ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ لوگ سائنس کی بات کا یقین کرینگے اور مذہب کی بات کا نہیں۔ اب آمدم برسرمطلب۔
پیش گوئی جس کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے۔ سائنس سے زیادہ مذہب کا پیشہ ہے۔ مذہب کچھ اور آگے بڑھ کر موت کے بعد کے معاملات سے متعلق بھی پیش گوئی کرتاہے۔ بایں ہمہ پیش گوئی یقیناً مذہب کا ہی پیشہ ہے۔ پیشگوئی کا تعلق مستقبل سے ہے۔ مستقبل زمانے کی اس شکل کا نام ہے جسے منطقی اعتبار سے فقط انسانی ذہن میں موجود ’’نامعلوم کے خوف‘‘ سے تعبیر کیا جاتاہے۔ بعض فلسفیوں اور سائنسدانوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ اس کا سِرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ فقط ذہن میں موجود ایک فیکلٹی ہے جو کازیلٹی یا علت و معلول یعنی کاز اینڈ ایفکٹ کی فیکلٹی کے موجود ہونے کی وجہ سے خود بھی ایک ایفکٹ کے طورپروجود میں آگئی۔ اُصولاً تو کاز اور ایفکٹ یعنی سلسلۂ علت و معلول کو بذاتِ خود کوانٹم فزکس نے بیخ و بن سے ہِلا دیا ہے اور اس لیے اس کی فیکلٹی بھی اب اپنے ارتقا کے اگلے دروازے پر آپہنچی ہے۔ خیر! تو پیش گوئی جس کا تعلق مستقبل سے ہے جب سائنس کی زبانی آتی اور پھر سچ ثابت ہوتی ہے تو کم ازکم دنیاوی معاملات میں مذہب کا کوئی دخل عامۃ الناس کی تین سو سال سے ڈولپ ہوتی ہوئی نئی فیکلٹی میں نہیں رہ جاتا۔ اوریوں مذہب دنیاوی معاملات میں خارج ازامکان ہوجاتاہے۔
اب رہ گیا مذہب کا موت کے بعد سے متعلق پیش گوئیوں کا سلسلہ۔ اُن پیش گوئیوں پر آج بھی اربوں انسان یقین رکھتے ہیں، اپنے اپنے مذاہب کے مطابق۔ اور اس یقین کی وجہ سے اپنی دنیاوی زندگی میں بھی بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جن کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے۔ ایسے میں صرف وہی مذہب کسی حد تک باقی رہ پانے کا اہل ہوگا جو دنیاوی زندگی کو سنوارنے کی تو بات کرے لیکن اسے ملعون قرار دے کر اُخروی زندگی کے لیے اِسے ترک کردینے کی بات بالکل نہ کرے۔ یہ نکتہ جانتے ہی مختلف مذاہب نے اپنے اپنے آسمانی مواد سے ایسی باتیں نکال نکال کرایک عرصہ سے پیش کرنا شروع کی ہوئی ہیں جو دنیاوی زندگی کی بہبود کا ذکر کرتی ہیں۔ لیکن اس دوڑ میں نیچرلی صرف مذہب اسلام ہی جیت سکتاہے کیونکہ بلاشبہ دنیاوی زندگی کو سنوارنے کے پندونصائح پر مشتمل سب سے زیادہ مواد اسلام کے پاس موجود ہے۔ اگرچہ اسلام میں بھی ایسے خیالات و عقائد کی ترویج کی باقاعدہ تاریخ موجود ہے جن میں دنیا کو قیدخانہ اور مُردار کہاگیاہے اور دردناک صورتحال یہ ہے کہ یہ احادیث ہیں۔ حدیث سے انکار کوئی کافر ہی کرسکتاہے۔ سو یا تو اِن احادیث کے معنی کچھ گہرے ہیں اور ہماری سمجھ سے باہر ہیں یا پھر یہ احادیث وضعی ہیں اور اگر دونوں باتیں نہیں تو پھراوپر کے استدلال کی روشنی میں اسلام کا بھی کوئی امکان نہیں۔
فرض کریں ہم دو میں سے ایک بات مان لیتے ہیں۔ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ اسلام میں ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنہ، مستقرٌاِلیٰ حین، فی قرارٍمکین وغیرہ وغیرہ‘‘ سے جس قسم کا اسلام برآمد ہوتاہے، وہی اصلی اور حقیقی اسلام ہے اور ثابت ہوا کہ اسلام دنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی سے زیادہ توجہ دیتاہے۔ تب بھی یہ ہمارا ماننا ہوگا۔ یعنی ہم پڑھے لکھے لوگوں کا ماننا۔ ہمیں دیکھنا تو یہ چاہیے نا کہ عامۃ الناس کے نزدیک اسلام کیا ہے۔ اگروہ اسے آخرت میں نجات کا ذریعہ سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں تو نتیجہ دیگر مذاہب جیسا ہوگا۔ اور اگر لوگ اسے دنیاوی زندگی کو بہتربنانے کا نظریہ سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں تو یقیناً یہ زندہ رہےگا۔ افسوسناک صورتحال یہ ہےکہ ہم جانتے ہیں کہ فی زمانہ عامۃ الناس اسلام کو آخرت میں نجات کا نظریہ سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں۔
یہاں ایک اہم شخصیت کا ذکر کرتا چلوں۔ ہمارے ہاں اسلام کی تشریح کرنے والوں میں ایک مفکر ’’غلام احمد پرویز‘‘ گزرے ہیں۔ مذہبی پیشوائیت کی طرف سے انہیں مُنکرِ حدیث کا لقب ملا اور ایک ہزار علما نے متفقہ فتویٰ دیا کہ وہ انکارِ حدیث کی وجہ سے اسلام سے خارج ہیں۔ یہ ان کے تعارف کا حصہ ہے۔ اُن کے تعارف کا اصل حصہ اُن کی کتابیں ہیں۔اُن کے کارناموں میں لغات القران بھی شامل ہے، اگرچہ لغات جیسے اہم ذریعۂ علم میں بھی وہ اپنے نظریات پیش کرتے ہیں۔ انہی کتابوں میں سے ایک کا نام ’’مقامِ حدیث‘‘ ہے۔ اسی کتاب میں ان کے نظریہ حدیث پرفتویٰ جاری ہواہے۔ خیر! اس تعارف کے بعد واپس موضوع کی طرف آتاہوں۔ غلام احمد پرویز فرماتے ہیں کہ ’’اسلام مذہب نہیں، اسلام ایک دین ہے۔ دین و مذہب میں بہت فرق ہے۔ مذہب چند عبادات کے مجموعے کو کہا جاتاہے جبکہ دین پوری انسانی زندگی کا احاطہ کرتاہے۔ مذہب اخروی نجات کا ذریعہ اور بندے سے خدا کا ذاتی تعلق ہے جبکہ دین معاشرے کے قیام کی تحریک کا نام ہے۔ دین ایک نظام ہے جبکہ مذہب ایک عقیدہ‘‘(مفہوم)۔
پرویز صاحب اپنی اس کوشش میں کہ اسلام کو فقط ایک دین ثابت کریں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں خدا کی زندہ جاوید ہستی یعنی حیّ و قیّوم خدا کی جگہ ’’قانوِ مشیتِ ایزدی‘‘ کو ہرشئے پر قادر قرار دیتے ہیں اور یوں حیّ و قیّوم خدا ایک روبوٹک خدا میں تبدیل ہوجاتاہے ’’جو اپنے ہی قوانین کا اتنا سخت پابند ہے کہ چاہ کر بھی اُنہیں توڑ نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ خدا ہے کوئی جادوگر نہیں‘‘۔ بعینہ یہی مؤقف جب معتزلہ نے اختیار کیا تھا تو اشاعرہ نے اپنے نظریۂ جواہر کے ذریعے اس کا خوب خوب جواب دیا اور وہ جواب غزالی کے استدلال میں آکر اپنے کمال کو پہنچا۔ یوں گویا معتزلہ کے مردہ خدا کے تصور کو اشعریوں اور خاص طورپر غزالی نے دوبارہ زندہ خدا کے تصور میں بدل دیا۔ پریشانی یہ ہے کہ اگر ہم پرویز صاحب کی طرح خدا کو قانونِ مشیتِ ایزدی کے ساتھ تبدیل نہ کریں تو دنیاوی زندگی کا احاطہ مشکل ہوجاتاہے اور اسلام میں مذہب بننے کی ٹینڈنسی بڑھ جاتی ہے جبکہ ایک ایسا نظام جو معاشرے کے قیام کی تحریک ہے، بہت پیچھے کہیں چھوٹ جاتاہے۔
اقبال البتہ اِس کے برعکس، ایک بالکل الگ بات کرتے ہیں۔ ہمارے عہد میں ان کی اس بات کے صحیح ترین ترجمان اسلام آباد میں استادِ محترم جناب جلیل عالی ہیں۔ اقبال اس سارے معاملے کوبالکل ہی مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ وہ اسلام کے امکان کی بات الگ سے کرتے ہیں اورباقی مذاہب کے امکان کی بات الگ سے کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اسلام نے ایک زندہ و جاوید تہذیب کو تخلیق کیا ہے اور انسانوں کے ایک بہت بڑے اجتماع کو ایک ایسی قوم کی شکل دے دی ہے جو کبھی بھی خود میں پائے جانے والے قومیت کے خاص اجزا سے محروم نہیں ہوسکتی۔ اقبال کی فکر کے اس پہلو کو بیان کرتے وقت عالی صاحب وجد میں آجاتے اور بار بار اقبال کا ایک ہی مصرع کوٹ کرتے نظر آتے ہیں؎
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی
میں اگرچہ خود کو اقبال اور عالی صاحب کے ساتھ متفق پاتاہوں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کو ایک تہذیب، ایک سیولائزیشن کہہ دینے سے اس میں موجود مذہبیت مفقود ہوجاتی ہے؟ جواب ہوگا ’’یقیناً نہیں‘‘۔ بس تو پھر!
اگر مذہبیت موجود رہتی ہے تو پیشگوئی کی سائنس موجود رہتی ہے۔ اگر پیش گوئی کی سائنس موجود رہتی ہے تو پھر اس کے لیے دنیاوی زندگی کا احاطہ کرنا زیادہ ضروری ہے اور وہ سائنس کی عدم موجودگی میں ناممکن ہے۔ تب پھر وہ تہذیب ہو یا نظام، مذہبیت سے مغلوب ہوجانے کی وجہ سے عہدِ حاضر کے ذہنی ارتقا سے شکست کھاجاتاہے۔ چنانچہ ثابت یہ ہوتا ہے کہ مذہب کا بطور مذہب کوئی امکان نہیں ہے۔
تبصرے بند ہیں۔