مریض عشق ہوں میں، دوائی دے دے
حبیب بدر
مریض عشق ہوں میں ، دوائی دے دے
پیاس سے خشک ہے یہ لب، پانی دے دے
…
ستمگر بہت ہیں یاں اہل کرم کے بھیس میں
ستم کرتے ہی رہیں گے انھیں رسوائی دے دے
…
بہت رسوائی ملی دنیا کو اپنا بنا کر مجھے
بہت عزت ملے گی گر تو تنہائی دے دے
…
فراق یار میں مرغ بسمل سا تڑپا ہوں میں
وصال دوبارا نہ ہوں تو اورجدائی دے دے
…
ہر شخص مبتلا ہے خود غرضی میں اے خدا
نکما میں ہی بچا مطلب کی خدائی دے دے
تبصرے بند ہیں۔