مساجد: امن و سلامتی کے گہوارے
عبدالباری شفیق السلفی
رب العالمین کی مقدس سرزمین پر سب سے محترم وپاکیزہ جگہیں مساجد ہیں، جن کی عظمت وفضیلت کو کتاب وسنت کے اندرجابجا واضح کیا گیا ہے اور ان کو آباد کرنے والوں، ان کی دیکھ ریکھ اور اس میں سر بسجود ہونے والوں کو دنیاوآخرت میں کامیابی وکامرانی کی بشارت دی گئی ہے، یہ مساجد جن میں ایک بندہ مؤمن پنجوقتہ نمازوں کا اہتمام کرتا ہے، اپنے رب کے سامنے الحاح ورزاری کرتا اور اپنے گناہوں پر نادم وشرمندہ ہوکر دن کے اجالے اور رات کی تا ریکی وتنہائی میں توبہ واستغفار کر کے اپنے مالک کو راضی وخوش کرتا ہے،ان میں ذکر واذکار، درس وتدریس کی محفلیں سجا کر قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند کرتاہے، چنانچہ انہیں مساجد کی تعمیر وتوسیع کرنے والوں کے متعلق نبی آخرالزماں ﷺکا فرمان ہے کہ ایسے خوش نصیب جو روئے زمین پر اللہ کے گھروں کی تعمیر وتوسیع کرتے ہیں ان کے لیے اللہ جنت میں محل تعمیر کرتاہے۔ ان میں پنجوقتہ نمازوں کا اہتمام کرنے والے قیامت کے دن عرش الہی کے سایہ تلے جگہ پائیں گے، پل صراط پر چلنے کیلئے ان خوش نصیبوں کے دائیں اور بائیں نور ہی نور ہوگا، اور جو لوگ انہیں ضائع و برباد نیز مسمار ومنہدم کرتے یا مسلمانوں ومومنون کو ان میں آنے سے روکتے یا روکنے کی سبیل پیدا کرتے ہیں ایسے ظالموں کے متعلق اللہ کی وعید ہے کہ: ﴿وَمَا لَهُمْ أَلاَّ يُعَذِّبَهُمُ اللّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾(انفال : ۳۴ )
آخر اللہ ان لوگوں کو سزا کیوں نہیں دےگا جو مسلمانوںکو مسجد حرام سے روکتے ہیں۔ اور دوسری جگہ فرمایا کہ:﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ أَنْ یُذْکَرَ فِیهَا اسْمُهُ وَسَعَی فی خَرَابِهَا اُؤلَئِکَ مَا کَانَ لَهُمُ أَنْ یَدْخُلُوهَآ إلّاَ خَآئِفِینَ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَهُمْ فِی الأَخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ﴾(بقرۃ :۱۱۴) اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے ذکر کیے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے، ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب ہے۔
اسلام میں مساجد کی بڑی اہمیت ہے یہ امن وسلامتی کے گہوارے اور عظیم درسگاہیں ہیں جہاں سے صبح وشام قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، ان میں پنجوقتہ نمازوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ درس قرآن ودرس حدیث کا اہتمام کیا جاتا ہے کتاب وسنت کی تعلیمات وپیغامات کو منبر ومحراب سے پوری دنیا میں عام کیا جاتا ہے یہی مسجدیں سماج ومعاشرہ کی اصلاح وتربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں،یہ سماجی اصلاح وشہری فلاح کے مقصدسےقائم کردہ تنظیموں کمیٹیوں اور سوسائیٹیوں سے ہزارہا درجہ بہتر وافضل ہیں۔
مسجدیں بندوں کو اللہ سے جوڑنے اور انہیں اللہ کے رنگ میں رنگنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کی نبی کائنات ﷺ جب ہجرت کرکے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے قباء میں ۱۴ دنوں کے قیام کے دوران مسجد قباء کی بنیاد ڈا لی، رسول اکرم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے نہ صرف اس مسجد کی بنیاد رکھی بلکہ صحابہ کے ساتھ مل کر ایک مزدور کی طرح اس کی تعمیروتوسیع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،اس تعمیر کےوقت صحابہ کرام کے دل خدمت اسلام کے جن اعلی وارفع نیک جذبات سے معمور تھے اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے خودان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے فرمایا ﴿لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ﴾(توبہ ۱۰۸)ترجمہ : البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔
پھر وہاں سے چل کر جب مدینہ کی وادی میں قدم رکھا اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام فرمایا تو سب سے پہلے یہاں پر آپ ﷺ نے مسجد نبوی ﷺ کی بنیاد ڈالی اور دوران تعمیرصحابہ کرام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے رب کے حضور دعا کی : ’’اللَّهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشُ الآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ‘‘ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے یا اللہ ! مہاجر وانصار کی مغفرت فرما۔ (بخاری : ۴۰۹۸)
چونکہ مساجد کو شریعت اسلامیہ میں اللہ کا گھر کہا گیاہے اور اس کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے اور ان میں اللہ کی عبادت کرنےکا حکم اور غیراللہ کی عبادت سے سختی سے منع کیاگیاہے۔ اسی لئے رب العالمین نے فرمایا: ﴿فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ﴾(نور:۳۶)ان گھروں میں جن کے بلندکرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے حکم دیاہے۔ اور فرمایا:﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا﴾اور یہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لیےخاص ہیں پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔
کتاب وسنت کی ان واضح تعلیمات کی بنیاد پر مساجد گذشتہ چودہ صدیوں سے نہ صرف خیر وبرکت اور ہدایت کا ذریعہ رہیں بلکہ امن وسلامتی،صلح وآشتی، اتحاد واتفاق اور آپسی بھائی چارگی کے بے مثال مراکزبھی رہیں، تاریخ شاہد ہے کہ ایک زمانہ میں بغداد، قاہرہ، قیروان، قرطبہ، دمشق، موصل اور دوسرے اسلامی ملکوں کے مختلف شہروں کی مسجدیں تعلیم وتعلم اور علم ومعرفت کا گہوارہ تھیں،جہاں صبح وشام تعلیم وتعلم اور بحث وتحقیق کا سلسلہ جاری رہتاتھا، پوری اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم ومعرفت اور تہذیب وثقافت کو پھیلانے و عام کرنے میں مساجد ہی کا اہم کردار رہا ہےاور جب تک مساجد کو مرکزیت حاصل رہی اسلام کی نشرواشاعت میں بے اتھاہ اضافہ ہوا اور جب تک مسلمان مساجد سے جڑے رہے پوری دنیا پر ان کی شان وشوکت قائم رہی، اغیار مسلمانوں کے نام سن کر تھر اجاتے اور ان کے ایوانوں میں زلزلے آجاتے تھے، اس لیے کہ مساجد جس طرح علم ومعرفت اور بحث وتحقیق کے مراکز رہی ہیں اسی طرح یہاں حلم وبردبار، نرمی ورواداری اور اُخوت وبھائی چارگی کا آفاقی درس دیا جاتا رہاہے، شرکیہ اعمال، بدعات وخرافات اور شدت پسندی و انتہاپسندی کی غلاظتوں سے محفوظ رکھا جاتارہا ہے۔ صحیح بخاری کی مشہور روایت ہے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں: کہ ایک دیہاتی نے مسجد نبوی ﷺکے ایک گوشہ میں پیشاب کر نےلگا، تو لو گ سختی سے اسے روکنے کے لئے آگے بڑھے لیکن سرورکائنات، رحمۃ اللعالمین جناب محمدرسول اللہﷺ نےصحابہ کو منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ دعوہ واھرقوا علی بولہ سجلا من الماء فانما بعثتم میسر ین ولم تبعثوا معسرین‘‘ (بخاری: ۶۱۲۸) اسے چھوڑ دو اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو،اس لیے کہ تمہیں آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے، تم کودشواری پیدا کرنے والا بنا کر نہیں بھیجاگیاہے۔
لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں نے مساجد کی اہمیت وفضیلت اور اس کی عظمت ومرتبت کو فراموش کردیاہے۔ آج ہم خود ا س کی آبادی، صفائی وستھرائی اور اس میں نمازوں کی ادائیگی سے کوسوں دور ہیں۔ بعثت ِنبوی ﷺ سے قبل کفارومشرکین مساجد کی بے آبادی اور ویرانی کے درپے تھے۔ مکی زندگی میں نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب کو بڑی سختی سے مکہ مکرمہ میں اللہ کی عبادت اور اس کی زیارت وطواف سے روکا گیا، ابوجہل جیسا ظالم وجابر اور بدقماش انسان نبی اکرم ﷺ کی گردن مبارک پر دوران سجدہ اپنا غلیظ پیر رکھنےکی ناکام سعی کرتاہے، عقبہ بن ابی معیط نے آپ ﷺ کے گردن مبارک میں کپڑا ڈال کر گلا گھونٹنے کی ناکام کوشش کی۔ غرض کفارومشرکین کی ہمیشہ یہی پالیسی اور غلط سوچ رہی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ ان کی عبادت گاہوں (مساجد ) کو ویران کردیاجائے، انہیں منہدم و مسمار کردیاجائے اور ان پر تالے لگا دیئے جائیں جس سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھر جائے گا، ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوجائے گا اور ان کی شناخت مجروح ہوکر رہ جائے گی، اور ہم ہیں کہ ہمیں اس کا ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا،آج ہم نے خود اپنی عبادت گاہوں سے رشتہ توڑ لیاہے ان میں پنچوقتہ نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ دروس یومیہ سے کنارہ کشی اختیارکرلی ہے جس کی وجہ سے ہم ذلیل وخوار ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے ادوار میں مسلمانوں کی بزدلی اور ایمانی کمی کی وجہ سےاغیار اس میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے، جہاں بھی کفارومشرکین اور باطل طاقتوں نے اسلامی علاقوں پر قبضہ کیا سب سے پہلے وہاںکی مساجد پر تالے لگوائے یا انہیں مسمار کیا۔ غرناطہ کی مسجد قرطبہ، البانیہ کی عظیم الشان مسجد ’’ جامع مسجد سلطان صلاح الدین ‘‘ اور ہندوستان کی شانداروسیع وعریض بابری مسجداس کی واضح مثالیں ہیں۔ بابری مسجد جو آج سے تقریبا ۵صدی قبل (۲۷-۱۵۲۸)میں ہندوستان کے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کی زیر نگرانی صوبہ اترپردیش کے ضلع فیض آباد کے مقام ایودھیا میں تعمیر کی گئی تھی جو اسلامی فن تعمیر کے اعتبار سے ایک عظیم الشان اور شاہکار مسجد تھی۔ جس کے اوپر تین گنبد تعمیر کیےگئے تھے، جن میں درمیانی گنبد بڑا اور اس کے ساتھ دو چھوٹے گنبد تھے۔
مسجد کو مضبوط اور ٹھنڈے پتھروں سے تعمیر کیاگیاتھا جس کے وسیع صحن میں ایک کشادہ کنواں تھا اور اندرونی تعمیر میں ایک خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندورنی حصے میں بآسانی سنا جاسکتاتھا۔ لیکن افسوس کہ ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ ء کو مسلمانوں کی اس عظیم الشان وتاریخی مسجد اور اللہ کے مقدس گھر، امن وسلامتی کے گہوارے اور روئے زمین کی مقدس ترین گھر کو ظالموں اور ہندتوا کے انتہاءپسند سرکش تنظیموں جن میں بی جے پی، وشوہندوپریشد، شیوسینا اور دیگر ہندوتنظمیوں نے مل کر مسمار ومنہدم کردیااور ملک کے کروڑوں مسلمان منہ دیکھتے اور کف افسوس ملتے رہ گئے۔ جس کی وجہ سے ملک کے بے شمار مقامات پر فتنہ وفساد، قتل وخونریزی کا بازار گرم ہوا، ممبئی ودہلی سمیت بے شمار شہروں میں فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ پھوٹ پڑا جس میں تقریبا دوہزارسے زائد معصوم وبے گناہوں کی جانیںگئیں۔ اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے اور عنقریب جلد ہی اس کا فیصلہ آنے والا ہے اس کے باوجو د بھی انتہاپسند تنظیمیں ووٹ بینکنگ اور مفاد پرستی کی وجہ سے اس معاملہ کو اٹھا کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ عدالت کے قانون کی بھی دھجیاں بکھیر رہی ہیں او رملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز اشخاص ہیں کہ اس معاملے پر لب کشائی کرنا اپنی کسر شان یا مفادکے خلاف سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں آپسی ناچارقی کی فضاہموار ہورہی ہے اور ہندومسلم اتحاد تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر پارہ پارہ ہوگیاہے۔ جب کہ ہمارا ملک ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہےجس میں آپسی میل جول محبت اوربھائی چارگی کے ساتھ رہنے کی تعلیم دی جاتی ہےاوراسی میں ہم سب کی بھلائی،کامیابی اور خیروعافیت کا راز مضمرہے۔
یہ مساجد روئے زمین کی مقدس ترین جگہیں اور امن وسلامتی کے گہوارے ہیں، جن کے مقام ومرتبے کو سمجھنا، ان کی اہمیت وفضیلت کو تسلیم کرنا نیز ان کی حفاظت اور دیکھ ریکھ کرنا، ان میں پنچوقتہ نمازوں کا اہتمام کرنا ہر مسلمان کا دینی واخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے جس کی تحفظ کے لیے یقینا ہر مسلمان اپنا جان ومال بے دریغ قربان کرسکتاہے لیکن مساجد کی عزت وآبرو پر حرف نہیں آنے دے گا لہذا اس پرفتن دور میں ضرورت ہے کہ مسلمان صبروتحمل کا دامن تھامے رہیں اور آپسی بھائی چارگی کی فضا ہموار رکھیں، اسی میںہم سب کی بھلائی اور ہماری دینی ودنیا وی اور اخروی کامیابی وکامرانی کا راز مضمرہے۔
تبصرے بند ہیں۔