مشہور سائنس داں ڈیوڈ گوڈال کا خود کشی کا اعلان
عبدالوہاب شیرازی
اسلام دین فطرت ہے، اور اسلام کے تمام احکام بھی فطری ہی ہیں۔ ہر وہ چیز جو کسی انسان کی دنیا و آخرت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا، جبکہ ہر وہ چیز جو کسی بھی انسان کی دنیا و آخرت سنوار سکتی ہے اسلام اسے اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔
اس کائنات کا رب چونکہ اللہ رب العزت ہے اس لیے ہرچیز اسی کی ملک ہے، اور پوری کائنات پر اسی اللہ کا اختیار چلتا ہے۔ چونکہ اس کائنات کا سارا نظام اللہ چلارہا ہے اس لیے اس کائنات میں کیسے بہترین اور پرسکون زندگی گزاری جاسکتی ہے یہ بھی صرف اللہ ہی بتا سکتا ہے۔
چنانچہ ایک بندے کو دنیا میں کیسے زندگی گزارنی ہے یہ سمجھانے کے لیے اللہ نے سوا لاکھ انبیاء اور بہت ساری کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے۔ اور اپنی آخری کتاب قرآن مقدس میں یہ بات صاف صاف بتا دی کہ اگر دنیا و آخرت کی زندگی کو پرسکون بنانا چاہتے ہو تو تقوے کی زندگی اختیار کرو۔ چنانچہ تقوے کی زندگی گزارنے والا بظاہر کتنا ہی مفلس اور لاچار ہو حقیقی سکون اس کے دل میں بیٹھا ہوتا ہے۔ جبکہ معاملہ اگر اس کے برعکس ہو تو پھر سوئزرلینڈ اور آسٹریلیا جیسے دنیا کے خوبصورت ترین اور جنت نظیر ممالک میں بھی لوگوں کو سکون کی دولت نصیب نہیں ہوتی اور حکومتوں کو قانونا خودکشی کرنے کی اجازت دینی پڑتی ہے۔
معزز قارئین: اسلام نے خود کشی کو حرام قرار دیا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس زندگی ہماری نہیں ہے بلکہ اس زندگی کا مالک بھی اللہ ہے اور ہمارے پاس یہ امانت ہے۔ لہٰذا ہمیں اس بات کی اجازت نہیں کہ ہم اللہ کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرتے ہوئے اسے خود ختم کردیں۔
چونکہ سیکولرازم، لبرل ازم اور دیگر باطل نظریات میں انسان کو ہی اس کی جان اور مال کا مالک سمجھا جاتا ہے اس لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان اپنی ملکیت میں جو چاہے کرے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ دن قبل اسلام آبا دمیں سیکولر خواتین نے ایسے بینر اٹھا کر احتجاج کیا جن پر درج تھا ۔ میرا جسم میری مرضی۔
محترم قارئین: یہی وہ فلسفلہ ہے جو یورپی اقوام میں پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ یورپی ممالک میں خود کشی کرنا ایک عام سی بات ہے اور ہرمہینے سینکڑوں لوگ اپنی رضامندی سے خودکشی کرلیتے ہیں۔
لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یورپی یونین کا ایک مشہور ملک سوئزرلینڈ قانونی طور پر بھی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص خود کشی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ چنانچہ سوئزرلینڈ میں ایسے کلینک بھی موجود ہیں جو کسی کو بھی اس کی مرضی اور رضامندی سے موت کی نیند سلانے کی سہولت فیس کے عوض فراہم کرتے ہیں۔
اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آسٹریلوی سائنسدان مشہور ماہر نباتات اور ایکلوجسٹ ڈاکٹر ڈیوڈ گوڈال نے 10 مئی کو رضاکارانہ طور پر موت کو گلے لگانے کا اعلان کردیا ہے۔
معزز خواتین و حضرات: سوئزر لینڈ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انتہائی علیل، ذہنی و جسمانی طور پر معذور طویل العمر اور لاغر بوڑھے افراد کو آسان موت یعنی (رضاکارانہ موت) فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی بے قرار اور تنگ زندگی کا خاتمہ آسانی سے کرسکیں اور اس حوالے سے سوئٹزر لینڈ کے شہر بازل کا کلینک ’ایٹرنل اسپرٹ‘ انتہائی اہم مشہور و معروف تصور کیا جاتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کی پارلیمان نے بھی اسی طرح کا ایک قانون منظور کیا ہے جس پر 2019 میں جون تک عملدرآمد شروع ہوگا ۔
یورپ میں ایک طرف سوئزرلینڈ کے بعد باقی ممالک بھی اس قسم کے قوانین بنانے کا سوچ رہے ہیں تو دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس قسم کے قوانین کی مخالفت کررہا ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اس قسم کے کلینکس میں دو طرح موت کی نیند سلایا جاتا ہے۔ ایک طریقہ موت کا انجیکشن لگانا ہے۔ اور دوسرا طریقہ زہر کا گھونٹ پینا ہے۔ مگر ان دونوں طریقوں میں بظاہر مرنے والے کو کوئی تکلیف ہوتی نظر نہیں آتی۔ مثلا آدھا کپ ایک خاص قسم کا زہر خود کشی کرنے والے کو اس کی فیملی کی موجودگی اور ویڈیو کیمروں کے سامنے دیا جاتا ہے۔ اور دینے سے قبل پوری طرح اس سے بیان حلفی لیا جاتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے اور خوشی سے خود کررہے ہیں آپ پر کسی کا کوئی دباو نہیں ہے۔
چنانچہ زہر کا گھونٹ پینے والا زہر کا پیالہ اپنے ہاتھ میں پکڑتا ہے اور پھر اپنی بیوی بچوں کی طرف دیکھتے ہوئی الوداعی ہاتھ ہلاتا یا بوسہ لیتا ہے اور پھر وہ زہر پی لیتا ہے۔ زہر کا پیالہ پینے کے فورا بعد بظاہر ایسا ہی لگتا ہے جیسے پانی کا گلاس پیا ہو۔ یعنی خود کشی کرنے والا بالکل نارمل ہوتا ہے۔ پھر اسے ایک دو بسکٹ دیے جاتے ہیں۔ اور پھر وہ باتیں کرتے کرتے آہستہ آہستہ غنودگی کی حالت میں چلا جاتا ہے اور سخت نیند آنی شروع ہوجاتی ہے، اور پھر بیٹھے بیٹھے آرام سے سو جاتا ہے، لیکن یہ نیند عام نیند نہیں ہوتی کہ جس کے بعد بیداری بھی ہو، بلکہ اسی نیند میں وہ مرجاتا ہے۔
آسٹریلوی مشہور ماہر نباتات اور ایکلوجسٹ ڈاکٹر ڈیوڈ گُوڈال کو سوئٹرلینڈ کے ایٹرنل اسپرٹ کلینک میں مئی کی 10 تاریخ کو ایک انجیکشن لگا کر یا زہر کا گھونٹ پی کر ابدی نیند سلا دیا جائے گا کیوں کہ وہ آئندہ برس کا انتظار نہیں کرسکتے۔ 104 سالہ سائنسدان ڈاکٹر گُوڈال نے آسٹریلیا کے سرکاری خبررساں ادارے کو اپنی ممکنہ موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ قطعی طور پر سوئٹزرلینڈ جانے کے خواہشمند نہیں ہیں تاہم آسٹریلین نظام میں رضاکارانہ طور پر موت اپنانے کی سہولت کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے انہیں آخری سفر کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر ڈیوڈ گوڈال اب آسٹریلیا سے اپنے ابدی سفر کے پہلے مرحلے پر فرانس پہنچ چکے ہیں۔ وہ فرانس میں اپنے بیٹے اور باقی اہلِ خانہ کے ساتھ کچھ وقت گزاریں گے۔ اس کے بعد وہ اگلے ہفتے کے دوران کسی وقت سوئٹزر لینڈ کے شہر بازل کے نواح میں واقع کلینک ’ایٹرنل اسپرٹ‘ منتقل ہو جائیں گے۔ اسی کلینک پر اگلی جمعرات کو وہ طبی معاونت کے ذریعے ہمیشہ کے لیے موت کو گلے لگا لیں گے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔