عقیدہ ختم نبوت: قران و احادیث کی روشنی میں

آصف علی

عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کی اساس ہے۔ دیگر تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث کئے گئے جب کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ  وسلم تمام عالم انسانیت کے لئے مبعوث فرمائے گئے۔ آپ پر نازل کردہ کتاب لاریب قرآن مجید تاقیامت تمام انسانیت کے لئے رشد و ہدایت کا منبع ہے۔ آپ کی نبوت تاقیامت جاری و ساری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی حیات طیبہ میں بھی چند لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا جنہیں آپ صل اللہ علیہ وسلم نے قتل کروا دیا۔مسلمانوں کی تاریخ کی سب سے زیادہ خون ریز جنگ نبوت کے جھوٹے مدعی مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی جس میں کم و بیش بارہ سو اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے جن میں سے سات سو حفاظ صحابہ کرام بھی شامل تھے۔

پتہ یہ چلا کہ صحابہ کرام کا بھی یہ اجماعی عقیدہ تھا کہ آں حضرت صلی علیہ وسلم، اللہ عزوجل کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔ چنانچہ خیر القرون سے لےکر آج تک تمام امہ کا یہ مسلمہ اور اجماعی عقیدہ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں،آپ کےبعدکوئی نبی نہیں ہے.قران اوراحادیث متواترہ اس حقیقت پر دال ہیں۔

امام غزالی رحمہ اللہ لکھتےہیں:

اجماع امت نےاس لفظ ٫٫لانبی بعدی،، اوردیگردلائل سےیہ بات سمجھی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےبعدکسی بھی دورمیں نبوت یارسالت کےامکان کی کلّی نفی کردی ہے_ اس میں کوئی تاویل یاتخصیص نہیں کی جاسکتی_اس کامنکر،اجماع کامنکرہے.(الاقتصادفی الاعتقاد:137)

ختم نبوت کےقرانی دلائل:

1__اللہ تعالی کافرمان ہے:

وماارسلناک الاکافتہ للناس بشیراًونذیراً.ولکن اکثرالناس لایعلمون.(سبا28)

ترجمہ: ہم نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام انسانیت کےلیےبشیرونذیربناکربھیجاہےلیکن اکثرلوگ نہیں جانتے.

یہ ایک کلیہ ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تاقیامت تمام انسانیت کی طرف مبعوث کئےگئےہیں.اس کاواضح مطلب ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں.

2__فرمان الہی ہے:

قل یاایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً (الاعراف،158)

ترجمہ: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم)کہہ دیجیےکہ میں آپ سب کےلئےاللہ کارسول ہوں.

3__اللہ تعالی نےفرمایا:

ماکان محمدابااحدمن رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شیئ علیما.(الاحزاب،40)

محمد.تم میں سےکسی مردکےباپ نہیں لیکن اللہ کےرسول اورآخری نبی ہیں اوراللہ ہرچیزسےبخوبی واقف ہے.

مفسرابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں:

علمائےسلف وخلف کےنزدیک یہ الفاظ عام ہیں اورواضح نص ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدکوئی نبی نہیں. (تفسیرابن عطیہ: 4/388)

تنبیہ: خاتم کالفظ دوطرح پڑھاجاتاہے:

1_ایک تاء کےکسرہ کےساتھ،اس میں دومعنی کااحتمال ہے.

(1)اسم فاعل ہوتو’خاتم‘ کامعنی ہوگا، ختم کرنےوالا

(2)اسم آلہ خلاف قیاس ہو،جس کامعنی ہوگا٫٫ختم کاآلہ،،یعنی آپ کےساتھ نبیوں کاسلسلہ ختم کردیاگیاہے.
امام ابن جریررحمہ اللہ لکھتےہیں:

تاءکےکسرہ سےخاتم النبیین کامعنی یہ ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنبیوں کاسلسلہ ختم کردیاہے (تفسیرطبری: 22/12,13)

2__لفظ خاتم اگر تاء کےفتحہ سےپڑھیں تواسم آلہ کےمعنی میں ہوگاتب اس کےدومعنی ہونگے،

(1)  آخریعنی آخری نبی،سب سےپیچھےآنےوالے.

(2) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بمنزلہ مہرہیں،اب نبوت پرمہرلگادی گئی ہے.

خاتم کےمعنی مہرکےہوں یاآخرکےیاختم کرنےوالےکے.ہرصورت میں اس کامفہوم یہی ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کونبوت نہیں مل سکتی.اس میں نبوت کی کوئی تخصیص نہی کہ وہ اصلی ہویاظلی وبروزی،تشریعی ہویاغیرتشریعی.بالفرض اگر غیر تشریعی نبوت کاوجودہوتووہ بھی ختم ہے.اگراس کاوجودہی نہیں تووہ پہلےسےہی معدوم ہےپھراس کےختم ہونےکاکوئی معنی نہیں. احادیث صحیحہ اوراجماع امت اس معنی کاتائیدکرتاہے.

ختم نبوت کےاحادیث سےدلائل:

1- «وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي» (سنن الترمذي).

ترجمہ:۔میں تمام نبیوں میں سے آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

2- «إن مثلي ومثل الأنبياء قبلي كمثل رجل بنى بيتا فأحسنه وأجمله إلا موضع لبنة من زاوية فجعل الناس يطوفون به ويتعجبون ويقولون: هلا وضعت اللبنة، قال: فأنا اللبنة وأنا خاتم النبيين» (رواه البخاري ومسلم).

ترجمہ:۔ میری اور مجھ سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں ان کی مثال یوں ہے جیسے کسی نے ایک بڑی خوبصورت اور عمدہ عمارت بنائی اور اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اس عمارت کے گرد گھوم کر تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اینٹ کیوں نہ لگائی گئی۔ پس وہ اینٹ میں ہی ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔

3- ان لي أسماء أنا محمد وأنا أحمد وأنا الماحي الذي يمحو الله بي الكفر، وأنا الحاشر الذي يحشر الناس على قدمي وأن العاقب الذي ليس بعدي نبي. رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن صحيح.

ترجمہ: بے شک میرے کئی اسماء ہیں میں محمد ہوں میں احمد ہوں میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹاتا ہے۔ اور میں حاشر ہوں کہ میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا (یعنی میرے بعد) اور میں عاقب ہوں وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔

4-سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « فَإِنِّى آخِرُ الأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِى آخِرُ الْمَسَاجِدِ ». رواه مسلم

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پس میں آخری نبی ہوں اور بے شک میری مسجد (انبیاء کی) مسجدوں میں سے آخری ہے۔

5-فَيَأْتُونَ عِيسَى ، فَيَقُولُونَ : يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي المَهْدِ صَبِيًّا ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ؟ فَيَقُولُ عِيسَى : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ اليَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ قَطُّ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا ، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ . فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ : يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الأَنْبِيَاءِ ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ(البخاري ٤٧١٢ مسلم ١٩٤)

ترجمہ: پس لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیؑ آپ اللہ کے رسول ہیں اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں جو مریم کی جانب القاء کیا گیا۔ بچپن میں گہوارے ہی میں آپ نے کلام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہمارے رب سے ہماری شفاعت کیجئے۔دیکھیئے کہ ہم کس قدر بے چین ہیں ؟ پس عیسی علیہ السلام فرمائیں گے کہ آج (ہمارا رب) جتنے غضب میں ہے نہ پہلے کبھی اتنے غضب میں تھا اور نہ بعد کبھی اتنے غضب میں  ہو گا۔ آپ اپنے کسی ذنب کا ذکر نہ فرمائیں گے۔ نفسی نفسی نفسی اور فرمائیں گے کہ تم کسی اور کی طرف جاؤ۔ تم محمد ﷺ کی طرف جاؤ۔

پس لوگ حضرت محمد ﷺ کی طرف آئیں گے اور کہیں گے اے محمد ﷺ ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ اللہ عزوجل نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دیئے۔ ہمارے رب سے ہماری شفاعت کیجئے۔

6-وروى مسلم أيضاً ( 2346 ) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَكَلْتُ مَعَهُ خُبْزًا وَلَحْمًا أَوْ قَالَ ثَرِيدًا . . . قَالَ : ثُمَّ دُرْتُ خَلْفَهُ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عِنْدَ نَاغِضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى جُمْعًا عَلَيْهِ خِيلانٌ كَأَمْثَالِ الثَّآلِيلِ

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن سرجس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی زیارت کی اور آپ ﷺ کے ساتھ روٹی اور گوشت کھایا یا کہا ثرید کھایا۔۔۔ کہا کہ پھر میں آپ ﷺ کے پیچھے گیا تو میں نے آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی وہ آپ ﷺ کے بائیں کندھے کی چپٹی ہڈی کے پاس مسوں کے تل کی طرح تھی۔

7-روى مسلم (2344) عن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال : "رأيت الخاتم عند كتفه مثل بيضة الحمامة يشبه جسده ".أَيْ : يُشْبِهُ لَوْنُهُ لَوْنَ سَائِرِ أَعْضَائِهِ

ترجمہ: حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کے کندھے مبارک میں مہر نبوت دیکھی جیسے کبوتر کا انڈہ، اور وہ بدن سے مشابہہ تھا اور اس کا رنگ بھی دیگر اعضاء کے رنگ سے ملتا تھا

8-أخرج هذا الحديث الإمام البخاري في صحيحه ( 6140 ) عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ( بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَة كَهَاتَيْن ) يعني : إصبعين ، وجاء عن سهل بن سعدٍ الساعدي رضي الله عنه مرفوعا بلفظ ( بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعة هكذا – ويشير بأصبعيه فيمدُّ بهما -) رواه البخاري ( 6138 ) ومسلم ( 2950 ) ، وأخرجه الإمام مسلم في صحيحه ( 867 ) عن جابر بن عبد الله قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خطب احمرَّت عيناه وعلا صوته واشتد غضبه حتى كأنه منذر جيش يقول ” صبَّحكم ومسَّاكم ” ويقول ( بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَة كَهَاتَيْنِ ) ويقرن بين إصبعيه السبابة والوسطى . وخرج الإمام أحمد ( 38 / 36 ) بإسناد حسن من حديث بريدة ( بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَة جَمِيعاً إِنْ كَادَتْ لَتَسْبِقُنِي ) .

یہ حدیث امام بخاری اپنی صحیح میں لائے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اور قیامت ان دونوں کی طرح نزدیک بھیجے گئے ہیں یعنی دو انگلیاں، حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ ان الفاظ کے ساتھ مرفوع روایت کرتے ہیں (میں اور قیامت اتنے نزدیک بھیجے گئے ہیں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی دوانگلیوں کے اشارہ سے اس نزدیکی کو بتایا اور پھر انہیں پھیلایا) اسے امام بخاری و مسلم نے روایت کیا، امام مسلم اپنی صحیح میں یہ روایت لائے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں، آپ کی آواز بلند ہو جاتی اور آپ کے چہرۂ مبارک سے شدید غضب ظاہر ہوتا۔ یوں لگتا کہ آپ دشمن کے کسی لشکر سے ڈرانے والے ہیں۔آپ کہتے: وہ لشکر تم پر صبح آپڑے گا یا شام۔ اس موقع پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی درمیانی انگلی اور انگشت شہادت کو ملاتے ہوئے فرماتے: میرا مبعوث ہونااور قیامت کا آنا، ان دو انگلیوں کی طرح (قریب)ہے۔

امام احمد نے حسن اسناد کے ساتھ حدیث بریدہ روایت کی ہے کہ "مجھے اور قیامت دونوں کو ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھیجا گیا ہے۔ "

قال أبو حاتم بن حبان رحمه الله :

” يُشبه أن يكون معنى قوله صلى الله عليه وسلم ( بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَة كَهَاتَيْنِ ) أراد به : أني بُعثت أنا والساعة كالسبابة والوسطى من غير أن يكون بيننا نبي آخر ؛ لأني آخر الأنبياء وعلى أمتي تقوم الساعة ” انتهى من ” صحيح ابن حبان ” ( 15 / 13

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :

((أنا سيد ولد ادم يوم القيامة ولافخر وبيدي لواء الحمد ولافخر، وما من نبي يومئذ، ادم فمن سواه، الا تحت لوائي، وانا اول من تنشق عنه الارض ولافخر، قال فيفزع الناس ثلاث فزعات، فياتون ادم، فيقولون: انت أبونا ادم فاشفع لنا الى ربك، فيقول اني اذنبت ذنباً، اهبطت منه الى الارض، ولكن ائتوا نوحا ً، فياتون نوحاً، فيقول: اني دعوت على اهل الارض دعوة فاهلكوا، ولكن اذهبوا الى إبراهيم، فياتون إبراهيم فيقول: اني كذبت ثلاث كذبات، ثم قال رسول الله (- صلى الله عليه وسلم -): ما منها كذبة الا ماحل بها عن دين الله، ولكن ائتوا موسى، فيأتون موسى، فيقول: اني قتلت نفساً، ولكن ائتوا عيسى، فيأتوا عيسى فيقول: إني عبدت من دون الله، ولكن ائتوا محمداً، قال: فياتوني فانطلق معهم)).- إسناده ضعيف.( أخرجه ” احمد ” 3/ 2، و ” الترمذي ” – واللفظ له – / (3148 و 3615)

میں روز قیامت کو بنی آدم کا سردار ہوں گا اور میں اس پر فخر نہیں کرتا اور میرے ہاتھوں میں حمد کا جھنڈہ ہو گا اور میں اس پر فخر نہیں کرتا۔ اور آدمؑ اور ان کے علاوہ جتنے بھی نبی ہوں گے سب میرے جھنڈے تلے ہوں گے۔ میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس کے لیئے زمین شق ہو گی اور میں اس پر فخر نہیں کرتا۔

عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : أُعطيت خمسا لم يعطهن أحد من الأنبياء قبلي :  نُصرت بالرعب مسيرة شهر  وجُعلت لي الأرض مسجداً وطهوراً ، فأيما رجل من أمتي أدركته الصلاة فليصلِّ  وأُحلّت لي الغنائم ، ولم تُحلّ لأحد قبلي  وأعطيت الشفاعة وكان النبي يبعث إلى قومه خاصة ، وبعثت إلى الناس عامّة .(شرح الحديث الـ 42)

ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کے انبیاء میں سے کسی کو بھی عطا نہیں کی گئیں ایک شہر کی دوری سے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی میرے لیئے تمام زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا۔ پس میری امت کا کوئی شخص جہاں نماز ادا کرنا چاہے ادا کر سکتا ہے۔ میرے لیئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہ ہوا مجھے شفاعت عطا کی گئی تمام نبی ایک خاص قوم کی جانب مبعوث کیئے گئے جبکہ مجھے تمام نبی نوع انسان کی طرف مبعوث کیا گیا۔

فقد روى مسلم في صحيحه، من حديث أبي هريرة -رضي الله عنه- أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لاَ يَسْمَعُ بِي أحد من هذه الأمة لا يَهُودِيٌّ، وَلاَ نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلاَّ كانَ مِنْ أَصْحَابِ النار.فقد ورد في الصحيحين أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا تقوم الساعة حتى يبعث دجالون كذابون قريب من ثلاثين، كلهم يزعم أنه رسول الله.

ترجمہ :۔ صحیحین میں وارد ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ تیس جھوٹے دجال نہ ظاہر ہو جائیں ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔

ذهبت النبوة وبقيت المبشرات الرؤيا الصالحة (رواه أبو داود)

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ،  قَالَ أنس رضي الله عنه : فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ . فقَالَ : وَلَكِنِ الْمُبَشِّرَاتُ ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ ؟ قَالَ : رُؤْيَا الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ ، وَهِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ . رواه الإمام أحمد والترمذي ، وصححه الألباني والأرنؤوط .

ترجمہ :بے شک رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے لہذا میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہ آئے گا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں پر گراں گزری تو آپ ﷺ نے فرمایا البتہ بشارتیں باقی ہیں۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ بشارتیں کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمان کا خواب۔ اور یہ نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔ اس حدیث کو امام احمد اور امام ترمذی نے روایت کیا اور البانی و الارناوؤط نے صحیح قرار دیا۔

أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يُمْحَى بِيَ الْكُفْرُ ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى عَقِبِي ، وَأَنَا الْعَاقِبُ ، وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ . رواه البخاري ومسلم ، واللفظ له .

ترجمہ : میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ جس کے ذریعے اللہ کفر کو مٹاتا ہے۔ میں حاشر ہوں اور میرے قدموں میں لوگوں کا حشر ہو گا(یعنی میرے بعد)۔ میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔

ان تمام مضامین کوسامنےرکھنےسےمعلوم ہوتاہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدنہ توکوئی نبی ہے اورنہ کسی پروحی کانزول ہوگا.اصحاب پاک مصطفی اوراجماع امت محمدیہ نےبھی احادیث سےیہی معنی سمجھاتھا.

سیدناعمررضی اللہ تعالی عنہ فرماتےہیں:

ان اناساکانوایؤخذون باالوحی فی عھدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،وان الوحی قدانقطع

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانےمیں انسانوں کےمعاملات بذریعہ وحی کھول دئےجاتےتھےمگراب وحی منقطع ہوچکی ہے.(صحیح البخاری: 2641)

اسی طرح سیدناابوبکروعمررضی اللہ عنھماجب رسول اللہ کی وفات کےبعدسیدہ ام ایمن کےپاس گئےتووہ رونےلگیں،عرض کیا: روتی کیوں ہیں؟

اللہ کےہاں جوہے، وہ رسول اللہ کےلئےبہترہے،کہنےلگیں؛جانتی ہوں کہ رسول اللہ کےلئےاللہ کےہاں بہت بہترہے، روتی مگراس لئےہوں کہ آسمان سےوحی کاسلسلہ منقطع ہوچکا.یہ سن کرسیدناعمروابوبکرکےدیدےبھی نم ہوگئے. صحیح مسلم: 2454

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کااجماعی تعامل اوراس کےبعدامت محمدیہ کااجماع بھی اس بات پرپختہ یقین رکھتاہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدکوئی نبی نہیں،نہ آپ کےبعدکسی نبی کاآناممکن ہےاورنہ کسی پروحی کاآناممکن ہےجوایسادعوی کرتاہے،جھوٹاہے،کذاب ہے،اوردجال ہے.

علامہ ابن حزم لکھتےہیں کہ:

جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانام اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب تواترکےساتھ ثابت ہےاسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری نبی ہونابھی تواترسےثابت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدکوئی نبی نہیں.البتہ سیدناعیسی علیہ السلام کےنزول کی احادیث ثابت ہیں،یہ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئےتھے.اوریہود کادعوی ہےکہ انہوں نےعیسی کاقتل کردیاتھا.ان تمام باتوں کااقرارواجب ہےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدنبوت کاوجودباطل ہے. (الفصل فی الملل ولاھواء والنحل:1/68)

دعاہےکہ مولائےکریم ہم سب کوعقیدہ ختم نبوت پرکاربندرکھے.

تبصرے بند ہیں۔