معجم البلدان و القبائل…!

 تعارف وتذکرہ: محمد انس فلاحی سنبھلی

 اللہ  ہمارے عبیداللہ طاھربھائی اور عمار بھائی کو جزائے خیر سے نوازے۔ مادر علمی جامعۃ الفلاح (اعظم گڑھ ) کے لیے کتابوں کی خریداری جس محنت اور لگن کے ساتھ کرتے ہیں، وہ ان ہی کا حصہ اور خاصہ  ہے۔ ایک ایک کتا ب کے سلسلے میں چھان بین کرتے ہیں، کتاب  کی قیمت مناسب  ہو، نسخہ محقق اورطباعت معیاری  ہو۔ اس کے لیے انہیں چاہے کتنے ہی مکتبات کا چکر کیوں لگانا نہ پڑے۔ مذکورہ بالا  معجم  اس  کا کھلا ثبوت ہے، جس کی خریداری میں  صرف تین سال اس لیے لگ گئے  جب اسے خریدا جارہا تھا اس وقت قیمت زیادہ تھی۔ اب یہ ریاض کے عالمی بک فیئر میں مناسب داموں میں مل سکی ہے۔

یہ معجم بڑے سائز کی بارہ جلدوں پر مشتمل ہے، جسے دارۃ الملک عبد العزیز، ریاض نے ۱۴۳۵ھ/۲۰۱۴ء میں شائع کیا ہے۔ ترجمہ وتعلیق کا کام ڈاکٹر عبد اللہ بن ناصر الولیعی نے انجام دیا ہے، اور تقریبا ستر متخصّصین وماہرین نے اس کی معلومات کی تحقیق وتصحیح میں مترجم کا تعاون کیا ہے۔

اس معجم کے اصل مصادر تین ہیں:

۱۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی برطانوی معجم Gazetteer of Arabia۔ یہ معجم ۱۹۱۷ء میں چار جلدوں میں شائع ہوئی، یہ جزیرہ نمائے عرب کے مقامات وقبائل کے ناموں پر مشتمل تھی اور انگریزی حروفِ تہجی کے لحاظ سے مرتب کی گئی تھی۔

زیرِ نظر معجم دراصل اسی برطانوی معجم  کے ترجمے اور اس پر مزید اضافوں سے عبارت ہے۔

۲۔ ۱۹۷۰ء سے قبل سعودی عرب کی وزارتِ نقل وحمل کی جانب سے سعودی عرب کے شہروں اور دیہاتوں کے تین الگ الگ سروے کرائے گئے، جو ان علاقوں کی اجتماعی اور اقتصادی صورتحال کی حقیقی تاریخی تصویر پیش کرتے ہیں ۔ اس معجم میں جگہوں کے نام کے سلسلے میں انہیں سرویز پر اعتماد کیا گیا ہے۔

۳۔ اوبنھایم کی جرمن زبان کی کتاب Max F. von Oppenheim کا عربی ترجمہ ”البدو Die Beduinen “ کے نام سے چار جلدوں میں منظرِ عام پر آیا، ساتھ ہی ایک جلد مختلف نقشوں اور قبائل کے سلسلہ ہائے نسب پر مشتمل تھی۔ اس معجم میں قبائل کی معلومات کے سلسلے میں جگہ جگہ اس کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے۔

یہ معجم حروفِ تہجی کی ترتیب  سے ہے، ہر علاقے کی سمت، قریب کے علاقوں سے دوری اور فاصلہ، در جۂ حرارت، خطِ استوا سے دوری، سطحِ سمندر سے اونچائی، آبادی کا تناسب، زراعت  اور شرحِ خواندگی کا بھی تذکرہ ہے۔

اس معجم  کی طباعت دارۃ الملک عبدالعزیز کا بڑا کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔ جزیرہ نمائے عرب، عراق، اور اردن وسیناء کے جنوبی علاقوں اور ان علاقوں میں بسنے والے قبائل کے متعلق جدید معلومات سے مزین یہ معجم محققین کے لیے واقعی ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ معجم البلدان کے موضوع پر لکھی گئی قدیم کتابوں میں ہمیں قدیم علاقوں کی معلومات تو مل جاتی ہیں، لیکن نئے علاقوں اور قبائل کے بارے میں معلومات کا حصول بڑا دشوار مسئلہ تھا، جسے اس معجم نے مکمل طور سے پورا کر دیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسی طرح سے دیگر علاقوں کی معلومات پر بھی بھرپور انداز کا کام کر دیا جائے۔ مدارس اور جامعات کی لائبریریوں کا  اس معجم سے بے نیاز رہنا  خود پر زیادتی  کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟

مصطلحات التاریخ العثمانی : معجم مو سوعی مصور

یہ معجم عربی زبان میں ہے، اور بڑے سائز کی تین جلدوں پر مشتمل ہے، اس کے مصنف ڈاکٹر صالح سعداوی صالح  ہیں، اور اسے دارۃ الملک عبد العزیز، ریاض نے ۱۴۳۷ھ/۲۰۱۶ء میں شائع کیا ہے۔

یہ معجم سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ سے متعلق ہے۔ اس معجم میں سلطنتِ عثمانیہ کے مختلف اداروں میں استعمال ہونے والے الفاظ واصطلاحات کا تعارف کرایا گیا ہے، جیسے حکومتی، ادارتی، سیاسی، مالی، زرعی، فوجی اور تعلیمی ادارے۔ اس معجم میں حروفِ تہجی کی ترتیب سے  ۳۱۰۰ اصطلاحات   کا تعارف شامل ہے، نیز بہت سارے مقامات پر توضیح وتشریح کی خاطر تصاویر، ڈرائنگس، چارٹس اور نقشوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔

اس معجم کی تیاری میں مؤلف نے مختلف مصادر ومراجع سے استفادہ کیا ہے، جن میں مدحت سرت اوغلی کی کتاب ’’موسوعۃ  التاریخ العثمانی المصورۃ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۵۸ء)، محمد زکی پاک آلین کی کتاب ’’معجم مصطلحات التاریخ العثمانی ‘‘ (۳ جلدیں مطبوعہ ۱۹۹۳ء)، اور ’’معجم لاروس الکبیر‘‘ (مطبوعہ ۱۹۸۶ء) خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں، ان کے علاوہ ثانوی مصادر میں ’’موسوعۃ استنبول ‘‘(۸ جلدیں ) اور شمس الدین سامی کی کتاب ’’قاموس ترکی ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۰۰ء) اور ”الموسوعۃ الاسلامیۃ“ وغیرہ شامل ہیں۔

اس معجم میں قدیم ترکی زبان کے الفاظ کو جدید ترکی زبان کے الفاظ کے بالمقابل لکھا گیا ہے تاکہ قاری کے لیے سمجھنے میں دشورای نہ ہو، اس کے بعد عربی زبان میں اس کی تشریح اور توضیح  کی گئی ہے۔

یہ معجم عہدِ عثمانی کی تاریخ کے حوالے سے بہت قیمتی چیز ہے۔ اسے دیکھ کر عہدِ عثمانی کی سماجی، تہذیبی، ثقافتی، معاشی اور تعلیمی صورتحال کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ یہ معجم اہلِ علم کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ امید ہے کہ علمی اور تحقیقی ادارے اسے اپنی لائبریری کی زینت ضرور بنائیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔