کوئی بد بخت ہوگا جس کو گھر اچھا نہیں لگتا

مقصود اعظم فاضلی

کوئی بد بخت ہوگا جس کو گھر اچھا نہیں لگتا
سفر کرنا ہے مجبوری ، سفر اچھا نہیں لگتا

رہے محدود گھر تک نور ، نامنظور ہے مجھ کو
ہواؤں کو چراغِ رہ گزر  اچھا نہیں لگتا

وہ یہ کہتے ہوئے دامن جھٹک کر چل دیئے میرا
کسی کے ساتھ رہنا عمر بھر اچھا نہیں لگتا

سبھی رشتوں میں خود غرضی کے کیڑے رینگ جاتے ہیں
سبب یہ ہے کہ مجھ کو مال و زر اچھا نہیں لگتا

جسے سونپی گئی اقوامِ عالم کی نگہبانی
اسی کا خود سے رہنا بے خبر اچھا نہیں لگتا

ہوئے جب پتھر آنا بند تو ایسا لگا اعظم
کہ لوگوں کو درختِ بے ثمر اچھا نہیں لگتا

تبصرے بند ہیں۔