واقعہ معراج اور تھیوری آف ریلیٹیوٹی

محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

رجب المرجب کا مہینہ اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ کریم نے اس ماہ مقدس میں اپنے پیارے حبیب  ﷺ کو معراج جسمانی عطافرمائی۔یہ وہ خارق العادات واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفل دروازوں کو کھولا اور انسان کو خلاء کے راستوں کی جستجو ڈالی۔ اس واقعہ کی منزل لامکاں و لاقیود تھی لہذا قید و مکاں کی اس دنیا میں اس کی مثل اور ادراکِ کامل ممکن نہیں۔ آج کی یہ تحریر دو حصوں پر مشتمل ہے؛ پہلا حصہ واقعہ معراج سے متعلقہ روایات سے اخذ شدہ خلاصہ پر اور دوسرا جدید دور کے سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کی تھیوری پر مشتمل ہے۔

واقعہ معراج کے تین مراحل ہیں سب سے پہلا مرحلہ مسجد الحرام سے مسجد الاقصی (قبلہ اول بیت المقدس شریف) تک ہے۔ اس مرحلہ میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں زندہ اور حالت صلاۃ میں دیکھا۔ صحیح مسلم شریف کے باب فضائل موسی علیہ السلام کے تحت حدیث نمبر 2375میں ہے کہ آقا کریم ﷺ نے فرمایا معراج کی رات جب میں موسی علیہ السلام کی قبر سے گزرا تو وہ اپنی قبر میں کھڑے صلاۃ پڑھ رہے تھے، اسی مرحلہ میں رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس شریف میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی۔ دوسرا مرحلہ بیت المقدس شریف سے سدرۃ المنتہی تک سفر اور جنت و دوزح کو دیکھنے کا ہے، اس مرحلہ میں رسول اللہ ﷺ نے تمام آسمانوں پر مختلف انبیاء کرام سے ملاقاتیں کیں اور ہر آسمان پر آپ کا شیانِ شان استقبال ہوا۔رسول اللہ ﷺ کی معراج کا سب سے اہم مرحلہ تیسرا مرحلہ ہے اور درحقیقت معراج مصطفی ﷺ وہ تیسرا مرحلہ ہی ہے۔ یہ سدرۃ المنتھی سے لے کر وصال ربوبیت کا مرحلہ ہے۔ اس مرحلہ کو اپنی حیثیت اور علم کے مطابق بیان کرنے سے قبل ا ایک اہم نکتہ پیش ہے کہ اللہ کریم نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا ’’وما ارسلناک الا رحمۃ اللعالمین‘‘ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کربھیجا۔ آپ قران کریم کے الفاظ پر غور کریں کہ فرمایا تمام جہانوں کے لئے رحمت۔ لہذا رسول اللہﷺ اس جہاں دنیا کے لئے، آسمانوں کے لئے، اور جہاں جہاں جہان آباد ہے چاہے وہ یہ زمین ہو یا کوئی اور سیارہ، ہماری کہکشاں میں یہ ہمارا سولر سسٹم ہو یاکائنات میں کہیں دور لاکھوں نوری سال کی دوری پر موجود کسی اور کہکشاں میں کوئی اور سولر سسٹم، سدرۃ المنتہی ہو یا جنت الفردوس کے محلات،جہاں کہیں بھی کوئی جہان ہے وہاں رسول اللہ ﷺ کی رسالت ورحمت موجود گویا تمام مخلوق اور تمام جہان رسول اللہ ﷺ کی رحمت کے تحت ہیں۔ لہذا جو جگہ، شئے، مکاں اور جہان خود رحمتِ نبی ﷺ کے تحت ہوں وہاں اس نبی ﷺ کی معراج کا کمال کیسے ممکن ہے؟؟ معراج کا کمال ہی تب ہو گا جب نبی ﷺ اپنی حدودِ رسالت و رحمت سے نکل کر خاص وصال ربوبیت کے انوار و تجلیات میں جائے گا۔اللہ کریم نے سورۃ النجم میں ارشاد فرمایا کہ؛ ما ضل صاحبکم وما غوی۔ اور تمہارے صاحب (حضور نبی مکرم ﷺ اپنے سفر معراج میں) میں بھٹکے نہ بہکے۔ اس آیت کریمہ کا اطلاق بھی معراج کے تیسرے مرحلہ میں ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے تو لاکھوں فرشتے ساتھ تھے، براق کی سواری تھی، لے جانے والے جبرئیل تھے تو اس پوری سیر میں بھٹکنے اور بہکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس آیت کا اطلاق ہی تب ہوا جب جبرئیل نے کہا؛  یا رسول اللہ ﷺ لو دنوت انملۃ لاحترقت۔ یا رسول اللہ ﷺ اگر میں انگلی کے ایک پورے کے مانند بھی اس سے آگے بڑھا تو ضرور جل جائوں گا۔بحوالہ تفسیر روح البیان، جلد اول، تفسیر نیسابوری، جلد اول، تفسیر القشیری، تفسیر رازی۔قرآن و حدیث میں پہلے دو مراحل کے کئی واقعات موجود ہیں لیکن تیسرے مرحلے کا بغیر وضاحت و تفصیل فقط اشارۃً بیان ہے کیونکہ انسانی عقل جہاں تک بھی ترقی کر لے تیسرے مرحلہ کے ادراک کی ابتداء کو بھی نہیں پہنچ سکتی اس لئے اللہ کریم نے اس مرحلہ کے بارے میں فقط اتنا فرمایا کہ ’’ ثم دنی فتدلیo فکان قاب قوسین او ادنیo فاوحی الی عبدہ ما اوحیo‘‘۔ ترجمہ: پھر وہ (رب کریم اپنے محبوب سے) اور قریب ہوا اور پھر اور زیادہ قریب ہو گیا۔ پس پھر (رب کریم اور نبی کریم ﷺ) کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا (وصال خداوندی میں وہ فاصلہ) اس سے بھی کم ہو گیا۔ پھر اس (اللہ کریم) نے جو چاہا اپنے بندہِ خاص (رسول مکرم ﷺ) پر وحی فرمائی۔ غور فرمائیں کہ اللہ کریم نے قرب و وصال کی کوئی حد ہی بیان نہیںکی بلکہ فقط اتنا کہہ دیا کہ دو کمانوں سے بھی زیادہ قریب ہو گئے اور پھر جو چاہا وہ اللہ نے وحی فرمایا۔ گویا اللہ کریم نے یہ بھی راز میں رکھا کہ کیا وحی فرمایا؟؟  کسی کو کیا غرض کہ وہ کیا وحی ہوئی۔ ایک وحی تو قرآن ہے جو ہمارے سامنے ہے اور ایک وحی واقعہ معراج کی بھی ہے جو اللہ و رسول کاآپس کا راز ہے۔

میری گفتگو کا دوسرا مرحلہ واقعہ معراج اور البرٹ آئن سٹائن کی تھیوری پر مشتمل ہے۔ اگرچہ واقعہ معراج کے ادنی ادراک کو بھی جدید سے جدید سائنس نہیں پہنچ سکتی کیونکہ واقعہ معراج فقط قدرت رب تعالی اور رسول اللہ ﷺ کا معجزہ ہے۔لیکن جدید سائنس کی روشنی میں ہم کسی حد تک اس واقعہ کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ضمناً ایک نکتہ عرض ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے مسلمان بھائی یہ کہتے ہیں کہ زمین کے مدار سے باہر کوئی نہیں جاسکتا، کوئی جائے گا تو وہ تباہ ہو جائے گا۔اس مسئلہ میں عرض ہے کہ؛ یہ بات سراسر غلط ہے۔ اللہ کریم نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ؛ والقمر اذا اتسقo لترکبن طبقا عن طبقo فما لھم لا یومنونo(سورۃ الانشقاق)۔ ترجمہ: قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے۔ تم ضرور طبق در طبق سواری کرو گے۔ پس کیا ہے انہیں کہ (وہ اللہ کی بیان کی ہوئی پیشن گوئیوں پر) ایمان نہیں لاتے۔ آیت کریمہ میں واضح ہے کہ انسان پہلے ایک طبق پر جائے گا اور پھر اس سے دوسرے طبق پر جائے گا۔ اللہ کریم نے یہ راستہ و طریقہ بیان فرمایا ہے نہ کہ خلائی سفر و سیاروں کی تسخیر کی حد، اب جدید سائنس نجانے کتنے طبقات تک سفر کرے گی۔عند اللہ طبق سے مراد کیا ہے؟ یہ بات مزید تحقیق طلب ہے کہ طبق سے مراد ایک سیارہ ہے یا خلائی سٹیشن یا ایک پورا سولر سسٹم۔ لہذا انسان کا خلاء میں جانا اور دیگر سیاروں کو تسخیر کرنا ناممکن نہیں۔

جدید دور میں انسان نے چاند تک سفر کرنے کے بعد دیگر سیاروں کو تسخیر کرنے کے لئے بھی کمر کس رکھی ہے لیکن جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود انسان روشنی کی رفتار (186000 میل،یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ) کے مطابق سفر نہیں کر سکتا۔ روشنی کی رفتار کو حاصل کرنے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ 1905 میں جدید دنیا کے سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے  Theory of Relativity پیش کی۔ اس تھیوری میں آئن سٹائن نے واضح کیا کہ Time and Space کی تمام مشکلات اس نظریے کے مکمل ادراک کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے۔آئن سٹائن برسوں سوچ بچار اور تحقیق کے بعد اس نکتہ پر پہنچا کہ روشنی کی 90% رفتار سے سفر کرنے والے جسم کا حجم نصف رہ جاتا ہے اور اس کے ساتھ وقت کی رفتار بھی نصف رہ جاتی ہے۔ اس کو سادہ مثال سے لیں کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے خلائی جہاز میں جو روشنی کی 90%فیصد رفتار سے دس سال سفر کرے تو اس شخص پر زمین کے مقابلے میں فقط 5سال گزریں گے۔ اس کی وجہ یہ کہ انسانی جسم کے اس قدر تیز سفر کرنے سے انسان کا مکمل نظام تنفس آہستہ ہو جائے گا اور اس پر وقت کم گزرے گا۔ اس نظریے کو سائنس جاننے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں مکمل تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں۔ اس نظریے کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ’’ اگر کوئی شخص روشنی کی رفتار سے سفر کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس پر وقت بالکل رک جائے گا‘‘۔

اگرچہ اس رفتار سے سفر کرنا انسان کے اختیار میں نہیں لیکن اللہ کریم جو وقت، رفتار، روشنی اور مکاں کا خالق ہے وہ اگراپنی قدرت خاص سے کسی کو اس رفتار سے سفر کروا دے تو اس شخص پر وقت تھم جائے گا۔ اب اس نکتے کو ذہن میں رکھیں اور آیات و احادیث کا مطالعہ کریں تو ہمیں واقعہ معراج کچھ اس طرح سے ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ براق (برق کی جمع اور برق عربی زبان میں بجلی، روشنی کو کہتے ہیں) پر سواری فرمائی۔ معراج کی رات بیت الحرام سے بیت المقدس۔بیت المقدس میں امامت۔بیت المقدس سے ہر آسمان سے ہوتے ہوئے سدرۃ المنتہی۔ جنت و دوزخ کا معائنہ۔ پھر وصل الہی کا سفر۔ واپس تشریف آوری ہوئی تو وضو کا پانی ابھی بہہ رہا تھا اور بستر بھی گرم تھا۔ اتنے کم وقت چند سیکنڈ یا منٹ میں لاکھوں کروڑوں میل بلکہ نوری فاصلوں کا سفر کیسے ممکن ہو گیا۔

آئن سٹائن کا نظریہ ہمیں یہ معجزہ سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ اگر انسان نوری رفتار سے سفر کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس پر وقت تھم جائے گا۔ اور یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ معراج کے لئے برّاق کو بھیجا گیا۔ عربی میں برّاق برق کی جمع ہے اور عربی جمع کا کم از کم اطلاق تین کے عدد پر ہوتا ہے۔ لہذا اگر زیادہ نہ سہی برّاق کو تین برق ہی مان لیا جائے اور برق کا مطلب روشنیLight ہے۔ اور روشنی یا نورLightکی رفتار 186000میل فی سیکنڈ بنتی ہے۔ اور اس کو برّاق پر قیاس کرتے ہوئے 3سے ضرب دے دیں تو یہ رفتار 558000 میل فی سیکنڈ بنے گی۔ گویا سیاحِ لامکاں ﷺ کی سواری کی کم از کم رفتار 558000میل فی سیکنڈ تھی۔ البرٹ آئن سٹائن کی Theory of Relativity کی اس تھیوری کو سامنے رکھیں اور احادیث و واقعاتِ معراج کاسائنسی مطالعہ کریں تو اس جدید نظریہ کی بنیاد پر بھی اسلام اور واقعاتِ معراج کی سچائی واضح ہوتی ہے خاص کر معراج کے اتنے بڑے واقعے میں صرف چند سیکنڈ یا منٹ کیسے لگے رسول اللہ ﷺ کے لئے وقت کیسے تھم گیا تھا۔

اگرچہ یہ معجزہء نبوی ﷺ ہے اور معجزہ عقل سے محال شئے کو کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی حد تک سمجھنے میں آئن سٹائن کی تھیوری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اللہ کریم کی قدرت یا رسول اللہ ﷺ کا معجزہ کسی قسم کی تھیوری کے پابند ومحتاج قطعاً نہیں ہو سکتے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں مقام مصطفی ﷺ کی معرفت نصیب فرمائے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔