ممتازقادری کوشہید قراردینے کا مطالبہ
ڈاکٹر محمدغطریف شہباز ندوی
قرآن اورحدیث میں خدا کے راستہ میں مرنے اور اعلاءکلمة اللہ کے لیے جان دینے کو شہادت قراردیاگیا ہے ۔یہ عظیم رتبہ ہے جوکسی مومن کوحاصل ہوتاہے اورقابل رشک ہے وہ جسے یہ بلند رتبہ مل گیا۔
شہادت ہے مطلوب ومقصودمومن
نہ مال غنیمت نہ کشورکشائی
علامہ اقبال کے یہ زندہ جاوید الفاظ اسلام میں شہادت کی اہمیت اورشہادت کے بلندرتبہ کو بتاتے ہیں۔ لیکن شہادت کوئی ایسی چیز نہیں جس کا مطالبہ کیا جائے یا اس کوکسی سرکاری لقب ،تمغہ اورانعام کی طرح دے دیاجائے ۔ موجودہ دور میں مسلمان اورخاص کر نام نہاد مذہبی مسلمان جس طرح اسلام اوراس کی عظیم تعلیمات اور اس کی مخصوص اصطلاحا ت کا مذاق اڑانے اورجگ ہنسائی کروانے پر تلے ہیں بس اس کا شکوہ اللہ تعالی ٰ ہی سے کیاجاسکتاہے! مسلمانوں نے مقدس لفظ جہاد اورشہادت کو اپنے اعمال سے اتنا بے توقیرکرڈالا ہے کہ آج ہندوستان میں بھگت سنگھ بھی شہید ہے اورکوئی فوجی جوان جوسرحدپر یاکسی معرکہ میں مارا جاتا ہے وہ بھی شہیدہے! نوبت باین جارسیدکہ اب حکومتوں سے مطالبہ کیاجاتاہے کہ فلاں(جس کوہم شہیدسمجھتے ہیں)اس کوشہیدکا درجہ دیاجائے۔ اس کی تازہ تازہ مثال پاکستان میں ممتازقادری کو شہیدکادرجہ دلانے کے لیے مذہبی جماعتوں کی تحریکیں،دھرنے اوربڑے بڑے مشتعل جلوس ہیں جو ناموس محمدی کی حفاظت کے نام پر نکالے جارہے ہیں۔ان جلوسوں میں صوفی اسلام کوماننے والے طبقات بھی شریک ہیں سیاسی اسلام کے نام لیوا بھی اورسیاسی روٹیاں سیکنے والے بھی ۔عام طورپر تاثردیاجاتاہے کہ صوفی اسلام کو ماننے والے بڑے پرامن ہوتے ہیں۔ لیکن یہ پرُتشددمظاہرین جوپاکستانی حکومت کے خلاف دھرنے دے رہے تھے یہ توسب صوفی اسلام کے ماننے والے ہی تھے۔ افسو س کہ پاکستان کی جماعت اسلامی اورکچھ دیوبندی علماء بھی اس نہایت نامعقول مطالبہ میں ان کا ساتھ دے رہے تھےٍ!!
واضح رہے کہ گورنرسلمان تاثیرایک لبرل اور آزادخیال مسلمان تھا۔ تاہم ہماری معلومات کے مطابق اس نے اہانت ِرسول کاکوئی ارتکاب نہیں کیاتھا۔ اس کا قصور یا بداحتیاطی یہ تھی کہ اہانت ِرسول کے کیس کی ایک غیرمسلم ملزمہ سے ملنے کے لیے جیل چلاگیاتھا۔ بلاشبہ اس کا یہ اقدام غلط تھالیکن اگریہ جرم بھی تھاتو اس کی سزا کا طریقہ مہذب سماج میں یہ ہے کہ عدالت سے رجوع کیاجاتا،اس کے خلاف کیس ہوتا پھرجو بھی سزا ہوتی وہ عدالت طے کرتی ۔قرآن اورسنت کے مطابق اس بات کا ہرگزکوئی جوازنہ تھاکہ خود سے اس کواہانت ِرسول کا مجرم قراردے کراس کی جان لے لی جائے جیساکہ اس کے باڈی گارڈ ممتاز قادری نے کیا۔ ممتازقادری ایک جاہل، ان پڑھ اورجذباتی مسلمان تھا جس نے کسی کے بہکاوے میں آکرسلمان تاثیراہانت ِرسول کا مجرم قراردیااورقانون اپنے ہاتھ میں لے کراس کوقتل کرڈالا۔ عدالت میں ممتازقادری کے خلاف کیس چلاجس میں اس کاجرم ثابت ہوا اورعدالتی فیصلہ کی بنیادپر اس کواس کے جرم کی سزادی گئی ۔اب پاکستان میں کئی مذہبی جماعتیں مسلمانوں اورخاص کرپاکستانیوں کی روایتی مذہبی جذباتیت کا فائدہ اٹھاکرحکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل کرآئیں اور وہ مطالبہ کررہی ہیں کہ ممتازقادری کو شہیدکا درجہ دیاجائے ۔ہماری سمجھ میں نہیں آتاکہ شہیدکا درجہ دلواناکون سی بلاہے؟کیاکسی کو شہیدکا درجہ دینے سے وہ واقعی شہیدہوجائے گا؟کیااس طرح ہم ایک نئی بدعت شروع نہیں کررہے ہیں؟ عجیب منطق ہے جسے یہ مذہبی جماعتیں معاشرہ پر تھوپناچاہتی ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کیس میں وہ تمام مذہبی گروہ جماعت اسلامی، اہل حدیث، بریلوی وغیرہ جوممتازقادری کوشہیدکہ رہے ہیں اورشہیدکا درجہ اس کودلاناچاہتے ہیں اوراس کے لیے مہم چلارہے ہیں وہ سب قرآن ،سنت اوراسلامی قانون کی من مانی تشریح کررہے ہیں اوراسلام وپاکستان دونوں کی شبیہ خراب کرنے کے مجرم ہیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔