عباسی دور میں مملکت کا نظام اور سماجی و معاشی حالات

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

 

مملکت کا نظام

خلافتِ عباسی میں اقتدار کا سر چشمہ خلیفہ کی ذات تھی۔ یوں تو مختلف کا م اور ذمہ داریاں مختلف عہدہ داروں کے حوالے تھیں۔ مثلا دیوانی اختیارات وزیر کے پاس اور عدالتی اختیارات قاضی کے پاس تھے اور فوج کی قیادت سپہ سالار کرتا تھا۔ لیکن مملکت کے تمام امور ومعاملات میں آخری فیصلہ کا اختیار خلیفہ کے ہاتھ میں رہتا تھا۔

عباسی خلفاء نے خلفائے بنی امیہ کی طرح خلافت کے معاملے میں موروثی طریقہ اپنایا۔ خلیفہ اپنے کسی بیٹے یا رشتہ دار کو ،جسے کاروبارِ مملکت سنبھالنے کا زیادہ اہل سمجھتا تھا یا اسے زیادہ چاہتا تھا ،اپنی زندگی ہی میں ولی عہد نام زد کردیتا تھا۔ یہ نام زدگی بسا اوقات بیک وقت ایک سے زائد افراد کی کردی جاتی تھی۔ ابوالعباس سفاح نے اپنے بعد اپنے بھائی ابو جعفر منصور اور اس کے بعد اپنے بھتیجے عیسیٰ بن موسیٰ کو ولی عہد نام زد کردیا تھا۔ منصور خلیفہ ہوا تو اس نے عیسیٰ بن موسیٰ کی ولایت منسوخ کرکے اپنے بیٹے مہدی کو ولی عہد بنایا،البتہ مہدی کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ کو ولی عہد نام زد کیا۔ جب مہدی خلیفہ ہوا تو اس نے بھی عیسیٰ کی ولایت منسوخ کرکے اپنے بیٹوں میں سے پہلے ہادی اور اس کے بعد ہارون رشید کو ولی عہد نام زد کیا۔ ہارون نے خلافت کا بار سنبھالنے کے بعد اپنے بیٹوں امین اور مامون کو ولی عہد بنایا ۔ اس روایت سے صرف واثق نے انحراف کیا کہ اس نے اپنے بیٹے کو ولی عہد نہیں بنایا۔

خلیفہ کے بعد وزیر کادرجہ ہوتا تھا۔عباسی خلافت ایرانیوں کے بھر پور تعاون سے قائم ہوئی تھی۔ اس لیے وزارت کے منصب پر عموماً ایرانیوں کو فائز کیا جاتا تھا۔ وزیر خلیفہ کی نیابت کے فرائض انجام دیتا تھا اور اس کی ہدایت کے مطابق اس کے احکام کی تعمیل کراتا تھا۔ جو خلفاء امور مملکت پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے اور عیش وعشرت میں مگن رہتے تھے ان کے دور میں وزراء کا اقتدار بڑھ جاتا تھا اور انہیں بہت زیادہ اختیارات حاصل ہوجاتے تھے،یہاں تک کہ وہ صوبوں کے والیوں اور عدالت کے قاضیوں تک کا تقرر کرتے تھے یا انہیں ہٹا دیتے تھے۔

خلافت عباسی میں مملکت کا نظم پہلے کی بہ نسبت زیادہ پیچیدہ ہوگیا تھا۔ متعدد محکمے قائم ہوگیے تھے۔ ہر محکمہ کو دیوان کہا جاتا تھا اور اس کا حاکم اعلیٰ دربارِ خلافت کا رکن ہوتا تھا۔

حکومت کو سب سے زیادہ توجہ مالیات پر دینی پڑتی تھی۔اس لےے محکمہء خزانہ کو جسے’دیوان الخراج‘کہتے تھے، حکومت کا سب سے اہم محکمہ سمجھا جا تا تھا۔ سلطنت کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ زکوٰة تھی جو سونے چاندی، تجارتی اموال واملاک اور مویشی کے گلوں پر وصول کی جاتی تھی۔ زرعی اراضی پر عشر وصول کیا جاتا تھا۔ زکوٰة مسلمانوں سے وصول کی جاتی تھی اور انہی کی ضروریات میں قرآن میں مذکور مدات کے مطابق خرچ کی جاتی تھی۔ سرکاری آمدنی کے دیگر ذرائع میں دشمنوں سے خراج یا تاوانِ جنگ کی رقوم، غیر مسلم رعایا سے جزیہ،زمین کی مال گزاری اور اموال تجارت پر ٹیکس قابلِ ذکر ہیں۔ اس آمدنی کو فوجی مصارف اور رفاہ عام کے کاموں میں خرچ کیا جاتا تھا۔ تاریخی شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافتِ عباسی کے ابتدائی زمانے میں بڑی خوش حالی تھی۔ چنانچہ خلفاء وامراء بڑی شان وشوکت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ بعد کی صدیوں میں آہستہ آہستہ آمدنی گھٹتی چلی گئی۔

ایک محکمہ عوام کی شکایات کے ازالہ کی غرض سے قائم تھا۔ اسے ’دیوان النظر فی المظالم‘کہتے تھے۔ اس محکمہ کا کام یہ تھا کہ سرکاری انتظامی محکموں میں کسی کو بے انصافی کی شکایت ہو تو تحقیق کے بعد اس کی اصلاح کی جائے۔ عباسی خلفاء میں مہدی پہلا حکم راں ہے جس نے یہ محکمہ قائم کیا ۔ اس کے جانشیں ہادی،ہارون،مامون اور بعد کے خلفاء ان شکایات کو دربارِ عام میں سنتے تھے۔

پولیس کا محکمہ’ دیوان الشروطہ‘ کہلاتا تھا۔ ہر بڑے شہر کی پولیس الگ تھی۔ اس محکمہ سے وابستہ افرادلا اینڈ آرڈر کے نفاذ کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اس محکمہ کا حاکم اعلیٰ محتسب کہلاتا تھا۔ وہ بازار کا بھی ناظرہوتا تھا۔ لین دین میں صحیح اوزان اور پیمانوں سے کام لیا جا تا ہے یا نہیں؟ قرض وقت پر ادا ہورہے ہیں یا نہیں؟ جن باتوں سے شریعت میں منع کیا گیا ہے، مثلاً سودخوری، قمار بازی، شراب نوشی وغیرہ ان کی خلاف ورزی تو نہیں ہورہی ہے؟ ان سب امور کی نگرانی بھی اس کے فرائض میں داخل تھی ،اگرچہ اسے عدالتی اختیارات حاصل نہیں ہوتے تھے۔

ایک اہم محکمہ ڈاک کا تھا،جسے’دیوان البرید‘کہتے تھے۔ یہ محکمہ خلافتِ اموی میں قائم ہوچکا تھا۔عباسی خلیفہ ہارون رشید نے اس کا نئے سرے سے بہتر انتظام کیا۔ اس کی اصل غرض وغایت سرکاری پیغام رسانی تھی، لیکن وہ کسی حد تک عوام کی نجی مراسلت لانے لے جانے کابھی کام کرتا تھا۔ ہرصوبے کے دارالحکومت میں ڈاک خانے بنائے جاتے تھے۔ دارالحکومت سے سلطنت کے تمام بڑے شہروں تک سیدھی سڑکیں تعمیر کی گئی تھیں اور تمام راستوں پر ڈاک چوکی کا باقاعدہ انتظام کیا گیا تھا۔اس کام کے لیے گھوڑے، خچر اور اونٹ استعمال کیے جاتے تھے۔ فوجوں کے سازوسامان کی منتقلی میں بھی اس محکمہ کی سواریاں کا م آتی تھیں۔ پیغام رسانی کے لیے کبوتر بھی پالے اور سدھائے جاتے تھے۔محکمہء ڈاک کے صدر دفتر واقع بغداد میں پوری سلطنت کے راستوں کے نقشے موجود تھے،جن میں مختلف منزلوں کے مقامات اور فاصلے درج تھے۔ ان نقشوں سے مسافر ،سیاح ،سوداگر اور حجاج سب فائدہ اٹھاتے تھے۔ انہی پر آئندہ جغرافیائی تحقیقات کی بنیاد پڑی۔ اس محکمہ کے حاکم اعلیٰ کو ساتھ ہی ایک اور خدمت بھی انجام دینی پڑتی تھی۔ وہ جاسوسی نظام کا بھی حاکم اعلیٰ ہوتا تھا اور پورا محکمہ اس نظام کی مدد کرنے پر مامور تھا۔

ایک اہم محکمہ عدل وقضا کا تھا۔ ہر بڑے شہر میں یہ خدمت کسی فقیہ کے سپرد کی جاتی تھی جو عموماً مسلمانوں کے مقدمات فیصل کرتا تھا۔ (غیر مسلموں کے دیوانی مقدمات کا فیصلہ خود ان کے مذہبی علماء یا عدالتی حاکم کرتے تھے۔) اسی بناپر اسے قاضی کہا جاتا تھا۔ جو فقیہ دارالحکومت میں یہ خدمت انجام دیتا تھا وہ قاضی القضاة کہلاتا تھا۔ سب سے پہلے یہ لقب امام اعظم ابو حنیفہؒ کے شاگرد قاضی ابو یوسفؒ کے لیے استعمال ہوا ۔ وہ عباسی خلیفہ مہدی اور اس کے دو جانشیں فرزندوں ہادی اور ہارون کے عہدِ حکومت میں اس خدمت پر مامور رہے۔ بعض قاضیوں کو بہت جامع اور وسیع اختیارات حاصل تھے۔ وہ فصلِ خصومات کے علاوہ یتیموں، پاگلوں اورنابالغوں کی املاک کا متولی اور اسلامی اوقاف کا نگراں ہوتا تھا۔ مذہبی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کوسزادیتاتھا۔ خلافت عباسی کے ابتدائی زمانے میں صوبائی قاضی والیوں کے حکم سے مقرر کیے جاتے تھے،لیکن چوٹھی صدی ہجری/ دسویں صدی عیسوی میں وہ بغداد کے قاضی القضاة ہی کے نائب ہوگیے تھے۔

عہد عباسی میں فوجی خدمات انجام دینے والے دوطرح کے لوگ تھے۔ کچھ لوگ مستقل طور پر جنگی خدمات انجام دیتے تھے اور ماہانہ تنخواہ پاتے تھے۔ یہ’ مرتزقہ‘ کہلاتے تھے۔ کچھ رضاکارانہ سپاہی ہوتے تھے ،جن سے وقتِ ضرورت کام لیا جاتا تھا۔ یہ ’مطوّ عہ‘ کہلاتے تھے۔ فوج کے تین طبقات تھے:پیادہ(حربیہ)،تیر انداز(رامیہ) اور شہ سوار(فرسان)۔ پیادہ فوجی تلوار،ڈھال اور برچھی سے اور شہ سوار زرہ، بکتر، خود ،تیر اور لمبے لمبے نیزوں سے مسلّح کیے جاتے تھے۔ ایک جمعیت ایسے لوگوں کی ہوتی تھی جو مانعِ آتش لباس پہنتے اور دشمن پر آتشیں اشیاء پھینکتے تھے۔ انہیں’ نفّاطون ‘کہا جاتا تھا۔ کچھ لوگوں کی تحویل میں قلعہ شکن آلات: منجنیق، عرادہ، دبابہ وغیرہ ہوتے تھے۔ یہ’ مہندس‘ کہلاتے تھے۔ جنگی دواخانے اور اونٹوں پر پالکیوں کی شکل میں زخمیوں کی سواریاں میدانِ جنگ میں لشکر کے ساتھ چلتی تھیں۔

ابتدائی خلفا ئے بنو عباس کی فوج خراسانی سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ معتصم نے ترکوں کے ایک نئے لشکر کا فوج میں اضافہ کیا ۔ یہ فنونِ حرب کے ماہر اور جنگ آزمالوگ تھے۔ متوکل نے جب سے بیرونی دستے بھرنے شروع کیے اس وقت سے عباسیوں کی قوت میں زوال آنے لگا۔ کیوں کہ اجنبی عناصر کے اضافہ سے پوری فوج میں وحدت کی روح قائم نہ رہی اور قومی سر بلندیوں کا جوش زائل ہوگیا۔ آگے چل کر مقتدر نے یہ طرزعمل اختیار کیا کہ صوبے کے والیوں یا جنگی سپہ سالاروں کو ان کے اقطاع ٹھیکے پردے دیتا کہ وہ اپنی فوج کے مصارف مقامی محاصل سے پوری کرلیا کریں۔

مملکت کی تقسیم بنی امیہ ہی کے عہد میں مختلف صوبوں میں کردی گئی تھی اور ہر صوبہ کا عامل (گورنر) مقرر کیا جاتا تھا۔ بنو عباس کے دور میں بھی یہ چیز جاری رہی۔ البتہ صوبوں کی فہرست وقتا فوقتا بدلتی رہتی تھی۔ افریقہ، مصر، شام وفلسطین، حجاز، یمن، بحرین، الجزیرہ، آذربائی جان، فارس کرمان، مکران، سجستان، خراسان اورخوارزم اہم صوبے تھے۔ گورنروں کی تقرری اور معزولی وزیر کی مرضی پر منحصر ہوتی تھی ۔ کیوں کہ اسی کی تحریک پر خلیفہ تقرر کی منظوری دیتا تھا۔ صوبہ کے سرکاری اخراجات وہاں کی مقامی آمدنی سے پورے ہوتے تھے۔ اگر مصارف کم ہوتے توفاضل رقم مرکزی بیت المال میں بھیج دی جاتی تھی۔

سماجی حالات

عباسی عہد کے سماجی حالات کا جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کا ایک نمایاں مظہر عیش وعشرت اور لہو ولعب کی زندگی تھی۔ اس کے بہت سے اسباب تھے۔ ان میں سے ایک سبب یہ تھا کہ ایرانیوں نے عباسیوں کی سیاسی زندگی کے ساتھ سماجی زندگی کو بھی اپنے رنگ میں رنگ دیا تھا۔

اسلام میں کسی شخص کے لیے چار سے زائد عورتوں سے نکاح جائز نہیں تھا۔ ہاں لونڈیوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی۔ لونڈیاں یا تو جنگوں میں قید ہوکر آتی تھیں یا بازاروں سے خریدی جاتی تھیں۔ عباسی خلفاء کے حرم میں آزاد عورتوں کے علاوہ لونڈیاں بھی ہوتی تھیں۔ وہ بیویوں کے انتخاب اور اپنے بچوں کی مائیں چننے میں عربی نسل کا کوئی لحاظ نہ رکھتے تھے۔ عباسیوں میں صرف تین خلفاء یعنی ابوالعباس ،مہدی اور امین آزاد ماوں کے بیٹے تھے۔ منصور کی ماں بربر کنیز تھی۔ اسی طرح مامون کی ماں ایرانی ،مہدی اور واثق کی مائیں یونانی اور مقتدر کی ماں ترکی کنیزیں تھیں۔ ماں چاہے آزاد ہو یا کنیز، بچوں کے حقوق برابر ہوتے تھے۔ اسی لیے آزاد عورتوں کی اولاد اور لونڈیوں کی اولاد میں تنافس اور آویزش ہوتی رہتی تھی،جیسا کہ ہارون کے لڑکوں امین اور مامون کے درمیان ہوا۔

عورتوں میں پردے کا رواج تھا اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا تھا۔ اونچے طبقے کی خواتین امورِ سلطنت میں دخیل ہوتی تھیں۔ جیسا کہ ہم مہدی کی بیوی خیزران، ہارون کی بیوی علیّہ، امین کی ماں زبیدہ اور مامون کی بیوی بوران کے معاملے میں پاتے ہیں۔ البتہ خلافتِ عباسیہ کے عہدِ زوال میں عورتوں کا مرتبہ گرگیا تھا۔

عہدِ عباسی میں طرزِ رہائش پر بھی ایرانی اثرات صاف محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ نشست کے لیے دیوان (چوکیوں) کا رواج ہوگیا تھا۔ ویسے فرش پر قالین بچھاکر گاؤ تکیے کا استعمال زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ کھانا چھوٹی میز پر پیتل یا چاندی کی گول کشتیوں میں لگایا جاتا تھا۔ کھانے پینے کا ذوق بھی بہت عمدہ ہوگیا تھا۔ ایران کا سکباج (شوربا) اور فالودہ (شیرنی) مرغوب غذائیں تھیں۔ موسمِ سرما میں مکانات برف سے ٹھنڈے کیے جاتے تھے۔ مشروبات میں شہتوت ،بنفشہ اور گلاب کا عرق شامل کرکے خوشبودار بنایا جاتا تھا۔ البتہ اس زمانے میں خلوت اور نجی محفلوں میں مسکرات کا کثرت سے استعمال ہونے لگا تھا۔ ابونواس (d810 AD) اور ابن المعتز(d 908 AD) کے کلام میں سیکڑوں اشعار شراب کی تعریف وتوصیف میں ہیں۔ اس زمانے میں ایسی محفلیں کثرت سے جمتی تھیں جن میں شراب نوشی اور رقص و سرود کا خاص حصہ ہوتا تھا۔

اس زمانے میں حمام کا بہت زیادہ رواج ہوگیا تھا۔ انہیں طہارت کے علاوہ طبّی فوائد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بغداد شہر آباد ہونے کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہاں دس ہزار حمام بن گیے تھے۔ایک مورخ کے بیان کے مطابق مقتدر کے عہد میں بغداد میں ان کی تعداد ستائیس ہزار(27,000)اور بعد میں ساٹھ ہزار(60,000) تک پہنچ گئی تھی۔ عورتوں کے استعمال کے لیے ان کے خاص دن مقرر ہوتے تھے۔

شطرنج کا کھیل امراء کے گھرانوں میں مقبول تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے ہارون رشید نے رواج دیا تھا۔ اسی طرح تیر اندازی، نیزہ بازی اور گھڑ دوڑ کے کھیل بھی پسند کیے جاتے تھے۔ خلفاء اور ان کے بیٹوں کی تفریح کا سامان شکار ہوتے تھے۔ خلیفہ امین شیر ببر کے شکار کا شوقین تھا۔ معتصم چیتے سے شکار کھیلنا بہت پسند کرتا تھا۔ ہرن،چیتل، خرگوش، مرغابی، جنگلی بط وغیرہ کا شکار کیا جاتا تھا۔ اس کے لیے کتوں، باز، شکرے کو سدھایا جاتا تھا۔

عہدِ عباسی میں غلاموں اور لونڈیوں کی تجارت بہت عام ہوگئی تھی۔ یہ مختلف قومیتوں اور ملکوں سے تعلق رکھتے تھے۔ مصر،جزیرة العرب کے جنو ب اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام اور ترکی النسل گورے ہوتے تھے۔ مورخین نے ذکر کیا ہے کہ متوکل کے محل میں چارہزار (4,000) لونڈیاں تھیں۔ لونڈیوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیاجاتاتھا۔ خاص طور سے انہیں گانا سکھایا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے اس عہد میں رقص و سرود عام ہوگیا تھا۔ عوامی مقامات، شاہراہیں، خلفاء کے محلات، مال داروں کے گھر وغیرہ میں مغنّین ومغنّیات نظر آتے تھے۔ الاغانی میں ہے کہ لوگ گانے کے اتنے دل دادہ ہوگیے تھے کہ کوئی مغنی کسی پل پر گانے لگتا تو اس کا گانا سننے کے لیے اتنے لوگ اکٹھا ہوجاتے کہ پل ٹوٹنے کا اندیشہ ہونے لگتا تھا۔ جو لونڈیا ں اچھا گانا گاتی تھیں ان کی بھاری قیمت لگتی تھی۔ مثلا عریب المغنیہ پانچ ہزار (5,000) دینار میں بیچی گئی۔ ہارو ن رشید نے ایک لونڈی 36 ہزاردینار میں خریدا تھا۔ اس کے نتیجے میں عراق میں گانے کا خوب رواج اور لہو وفحش گوئی کو بڑھاوا ملا۔ بعض لونڈیاں صرف خلفاء اورامراء کے درباروں میں گاتی تھیں اور بعض لونڈیوں کو ان کے مالکان عوامی جگہوں میں گانے کے لیے پیش کرتے تھے، جہاں گانا سننے کے لیے عام لوگ آتے تھے اور ان پر پیسہ لٹاتے تھے۔ اس قسم کی لونڈیوں کا معاشرتی زندگی پر اثر پڑا ۔ ان کی وجہ سے اخلاقی فساد بڑھا۔ چوں کہ یہ لونڈیاں مختلف قومیتوں کی تھیں اس وجہ سے ان کے ملکوں کے بہت سے عادات واطوار بھی سماج میں درآئے۔

عباسی معاشرہ کی ایک تقسیم نسلی بنیاد پر تھی۔ وہ دوبڑے گروہوں میں تقسیم تھا۔ ایک گروہ عربوں کا تھا اور دوسرا ایرانیوں اور غیر عربوں کا۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان تنافس اور کش مکش کے نتیجے میں وہ تحریک برپا ہوئی جسے تاریخ عرب میں ’شعوبیت ‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔

عہد عباسی میں تین طرح کے رجحانات پائے جاتے تھے:

ایک رجحان یہ تھا کہ عرب تمام قوموں میں سب سے بہتر ہیں۔ اس رجحان کے قائلین یہ دلیل دیتے تھے کہ عرب عہدِ جاہلیت اور عہدِ اسلام دونوں میں آزاد رہے ہیں۔ اس وقت کی عظیم شہنشاہیتیں بھی ان پر حکومت نہیں کرسکی تھیں۔ وہ بہت سے اخلاقی فضائل ومناقب سے بہرہ ور ہیں۔ اسلام ان کے درمیان پروان چڑھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے تھے۔ انہوں نے اسلام کا پیغام دوسری قوموں تک پہنچایا ہے۔

دوسرا رجحان یہ پروان چڑھا کہ عرب دوسروں سے افضل نہیں ہیں۔ تمام انسان ایک مٹی اور ایک نسل سے ہیں۔ کوئی قوم دوسری قوم سے افضل نہیں ہے۔ تفاضل قوموں کے درمیان نہیں،بلکہ افراد کے درمیان ہونا چاہیے۔

تیسرا رجحان نہ صرف عربوں کی شان گھٹاتا تھا،بلکہ دوسری قوموں کو ان سے بہتر قرار دیتا تھا۔ اس رجحان کے حاملین نے عربوں کے ماضی، زبان،علوم،فلسفہ اور انساب پر طعن کیا ہے،مثالب ومعایب پر کتابیں لکھی ہیں اور ایرانیوں کی فضیلت پر احادیث وضع کیں اور قصے گھڑے ہیں۔ اس رجحان کو وہ لوگ پروان چڑھا رہے تھے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور اپنے قدیم مذہب پر قائم تھے، یا ظاہری طور پر اسلام لے آئے تھے، دل سے اسے قبول نہیں کیا تھا،یا جن پر وطنی رجحان غالب تھا ،وہ عربوں کو ناپسند کرتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے ان کا ملک چھین لیا تھا۔

شعوبیت کا اطلاق اولاً دوسرے رجحان کے حاملین پر ہوتا تھا، بعد میں تیسرے رجحان کے حاملین پر بھی ہونے لگا۔

احمد امین نے اپنی کتاب’ ضحیٰ الاسلام‘ میں درج ذیل نتائج نکالے ہیں:

1۔ شعوبیت کے علم برداروں نے اپنے دعویٰ کی دلیل اسلامی تعلیمات کو بنایااور کہا کہ اسلام نسلی اعتبار سے کسی قوم کو دوسری قوم سے افضل نہیں قرار دیتا، بلکہ جزا وسزا کو اعمال پر مبنی قرار دیتا ہے۔ پھر انہوں نے عربوں کو حقیر قرار دینا شروع کیا اور دوسری قوموں کو ان سے افضل قرار دینے لگے۔

2۔ شعوبیت کوئی ایسا عقیدہ نہ تھا جس کی تعلیمات متعین اور شعائر نمایاں ہوں، بلکہ حقیقت میں یہ ایک ایسی جمہوریت سے عبارت تھا جس کا مقصد عربوں کی اشرافیت کا مقابلہ کرنا تھا۔ اسی لیے اس کے معتقدین ہر ملک،علاقہ اور نسل میں پائے جاتے تھے۔

3۔ اس رجحان کے پروان چڑھنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ یہ وطنی رجحان اور مذہبی عصبیت کو بڑھاوا دیتا تھا۔عربوں نے ایرانیوں کی حکم رانی کا خاتمہ کردیا تھا۔ مصر،شام اور مغرب پر حکومت کی تھی۔ وہاں کے باشندے عرب نہیں تھے۔ مصروشام کے بہت نصاریٰ عربوں کو ناپسند کرتے تھے جنہوں نے انہیں ان کے ملکوں سے جلا وطن کردیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ملک پر وہیں کے لوگ حکومت کریں۔

4- شعوبیین میں ہرطرح کے لو گ تھے۔ ایرانی،نبطی،قبطی،اندلسی وغیرہ۔ ہر جگہ کی شعوبیت کا ایک خاص رنگ تھا۔

5۔ شعوبیت کے مختلف درجات تھے۔ اس کا آغاز اعتدا ل کے ساتھ اور خاتمہ انتہا پسندی پر ہوتا تھا۔ معتدل قسم کے لوگ عربوں اور غیر عربوں کو برابر قرار دیتے تھے،جب کہ انتہا پسند عربوں کو حقیر قرار دیتے تھے اور ان کے ہر امتیاز کا انکار کرتے تھے۔ بعض لوگ عربوں اور اسلام کو الگ الگ رکھتے تھے۔وہ عربوں پر بحیثیت قوم نکیر کرتے تھے، مگر اسلام سے مطلق تعرض نہیں کرتے تھے۔

6۔ شعوبیت اختیار کرنے والوں میں ہر طبقہ کے لوگ تھے۔

عباسی عہد میں شعوبی تحریک کا اثر صرف ادبی میدان تک محدود نہ رہا، بلکہ سیاسی زندگی پر بھی پڑا۔عربوں اور ایرانیوں کے درمیان کش مکش اپنے عروج پر پہنچ گئی تھیں۔ شعوبیوں نے عربی عصبیت کو کم کرنے کی کوشش کی اور چوں کہ وہ دین اسلامی کے واسطے سے تھی اس لیے اس کے کم زور پڑنے پرزندقہ عام ہوگیا۔ اس کا اثر فکری اور سیاسی دونوں سطحوں پر ہوا۔ مرکز خلافت سے دور دراز کے علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکیں اٹھنے لگیں اور چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستیں قائم ہوگئیں۔

معاشی حالات

خلافتِ عباسی میں سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد معاشی اعتبار سے بہتر حالت میں تھے۔ وہ عموما خوش حال زندگی گزارتے تھے۔ بالائی طبقہ، اہل علم، شعراء وادباء، تاجروں اور صنعت پیشہ افراد پر مشتمل تھا۔ زیریں طبقہ میں مزدور، کاشت کار اور گلہ بان آتے تھے۔ بڑی آبادی غیرمسلموں پر مشتمل تھی جو ذمّی کہلاتے تھے۔

سلطنت کی وسعت اور تمدن کی ترقی کے نتیجے میں تجارت کو وسیع پیمانے پر فروغ حاصل ہوا۔ ابتدا میں بیش تر تاجر یہودی،عیسائی یا مجوسی تھے۔ بعد میں مسلمانوں نے ان کی جگہ لے لی۔ بغداد ،بصرہ، سیراف، قاہرہ اور اسکندریہ جیسی بندرگاہیں برّی و بحری تجارت کا مرکز بن گئی تھیں۔ منصور کے عہد ہی سے مسلمان تاجر چین جانے لگے تھے۔ اسی طرح مغرب کی طرف وہ مراکش اور اندلس تک جایا کرتے تھے۔ وہ عرب علاقوں سے کھجور،شکر، سوتی واونی ملبوسات، فولاد کے اوزار اور شیشے کے ظروف لے کر جاتے تھے اور مشرق بعید سے مصالحہ جات، کافور، ریشم اور افریقہ سے ہاتھی دانت، آبنوس اور حبشی غلاموں کی درآمد کرتے تھے۔ ان کے تجارتی جہاز دنیا کے دور دراز ملکوں میں آتے جاتے تھے اور وہ خود بھی کافی عرصہ بحری اسفار میں گزارتے تھے۔ تاریخ میں بغداد کے ایک جوہری کا حال مذکور ہے جس کے مال میں سے خلیفہ مقتدرنے 14 کروڑ دینار ضبط کرلیے تھے، پھر بھی وہ دولت مند رہا۔

عہدِ عباسی میں صنعت وحرفت کو بھی خوب فروغ ملا۔ قالین،پردے،فرش،کھانا پکانے کے برتن، ریشم، اون اور اطلس ودیبا کے ملبوسات تیار ہوتے تھے۔ خلیفہ مستعین نے ایک خاص قالین تیار کروایا تھا جس میں سونے کے تاروں سے ایسے پرندے بنوائے تھے جن کی آنکھیں یاقوت اور قیمتی جواہرات کی تھیں۔ اس پر 13کروڑ درہم کی لاگت آئی تھی۔ ایک اور صنعت اونٹ اور بکری کے بالوں کے کپڑے اور ریشمی عبا کی تھی جس کی دوردور تک شہرت تھی۔ شیراز کے دھاری دار اونی چغے اور حریر وزربفت کے لباس خراسان اور ارمینیہ کی فرش کی چادریں، پردے اور مسند کے غلاف ،بخارا کی جا ئے نماز، مصر کے قندیل وفانوس، گل دان، کھانا پکا نے کے برتن اور کپڑے ،صور وسیدا اور شام کے شیشے کے ظروف مشہور تھے۔

عباسی دور میں کاغذ کی صنعت کو بھی فروغ ملا ۔ سمرقند، بغداد، مصر اور دوسرے مقامات پر اس کے کارخانے قائم ہوئے۔ خلیفہ معتصم نے اس صنعت کی قدر افزائی کی۔ اسی خلیفہ کے دور میں صابون اور شیشے کے کارخانے قائم ہوئے۔ خلافتِ عباسیہ میں جوہری کا فن بھی عروج پر پہنچا۔ موتی، یاقوت، پکھراج، نیلم، الماس وغیرہ خلفاء اور شہزادوں کو بہت مرغوب تھے۔ ہارون رشید نے ایک یاقوت، جوکئی ایرانی شہنشاہوں کی ملکیت میں رہا تھا، چالیس ہزار دینار میں خرید کر اس پر اپنا نام کھدوایا تھا۔ یہ اتنا بڑا اور چمک دار تھا کہ رات کو اندھیرے میں چراغ کی طرح روشنی دیتا تھا۔ خلیفہ مکتفی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے دوکروڑ دینار مالیت کے جواہرات وعطریات اپنی وفات پر چھوڑے تھے۔

عباسی سلطنت معدنی وسائل سے بھی مالا مال تھی۔ خراسان میں سونے چاندی کی کانیں تھیں۔ سنگ مرمر اور سیماب بھی وہیں سے آتا تھا۔ ماوراءالنہر سے یاقوت اورلاجورد،کرمان سے شیشہ اور چاندی ،بحرین سے موتی اور نیسا پور سے فیروزہ بڑی مقدار میں نکلتا تھا ۔ صنعا سے عقیق اور کو ہستانِ لبنان سے لوہا آتا تھا۔ اسی معدنی پیداوار میں تبریز کا سنگِ مرمر ،اصبہان کا سرمہ ،شام وفلسطین کا کبریت بھی شامل ہیں۔

خلافتِ عباسی کے ابتدائی زمانے میں زراعت کو بھی ترقی ملی۔ یہ اگر چہ قدیم باشندوں ہی کے ہاتھ میں رہی۔ لیکن خلفا کی توجہ سے اس میں بہتری آئی۔ جو کھیت بنجر اور گاؤں اجڑ گیے تھے،انہیں ازسرِ نو قابلِ کاشت بنایا گیا اور آباد کیا گیا۔ حکومت نے سب سے زیادہ توجہ دجلہ فرات کی وادی پر دی کہ پوری سلطنت میں سب سے زیادہ زرخیز علاقہ یہی تھا۔ فرات کی قدیم نہریں دوبارہ کھدوائی گئیں یا نئی نہروں کی تعمیر کی گئی۔ خراسان کا علاقہ بھی زرخیز تھا۔ اس کا شمار سب سے زیادہ خراج دینے والے صوبوں میں ہوتا تھا۔ىعرب جغرافیہ نویسوں کے مطابق بخارا کے مضافات سچ مچ باغ بن گیے تھے۔ان میں انوع واقسام کے پھل پھول اور ترکاریاں اگائی جاتی تھیں۔ اسی طرح تجارتی مقاصد سے پھولوں کی بھی وسیع پیمانے کاشت کی جاتی تھی۔ دمشق ،شیراز، فیروزآباد اور فارس وغیرہ میں گلاب، نیلوفر اور بنفشہ کے عطر بنانے کی صنعت ترقی پر تھی۔

مملکت کی آمدنی کا ایک ذریعہ جزیہ سے حاصل ہونے والی رقم بھی تھی۔ یہ صرف ان ذمیوں سے لی جاتی تھی جو ہتھیار چلاسکتے تھے۔ بیمار، کم زور، مذہبی لوگ، راہب، بوڑھے، عورتیں اوربچے اس سے مستثنیٰ تھے۔ جزیہ کی رقم بھی بہت معمولی اور ان ٹیکسوں سے کہیں کم ہوتی تھی جو مسلمانوں سے وصول کیے جاتے تھے،نیز انہیں آسان قسطوں پر وصول کیا جاتا تھا۔

خلاصہ

عہدِ عباسی میں خلافت کا طریقہ موروثی تھا۔ خلیفہ اپنی زندگی ہی میں اپنے کسی بیٹے یا رشتہ دار کو اپنے بعد خلافت کے لیے نام زد کر دیتا تھا۔ امورِ مملکت چلانے کے لیے مختلف عہدے اور ذمہ داریاں تقسیم تھیں، لیکن خلیفہ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی۔ خلیفہ کے بعد طاقت ور شخصیت وزیر کی تھی، جو عموماً کوئی ایرانی ہوتا تھا۔ وہ اس کی ہدایت کے مطابق اس کے احکام کی تعمیل کراتا تھا۔ حکومت کے دیگر عہدے دار اس کے ماتحت ہوتے تھے۔ امورِ مملکت چلانے لے لیے مختلف محکمے قائم کےے گئے تھے۔محکمہء خزانہ کا کام حکومت کے لیے مالیات کی فراہمی تھی۔ مسلمانوں سے زکوٰة و عشر، دشمنوں سے خراج اور تاوانِ جنگ اورغیر مسلم رعایا سے جزیہ کے علاوہ زمین کی مال گزاری اور اموالِ تجارت پر ٹیکس وصول کئے جاتے تھے۔ پولیس کا محکمہ لا اینڈ آرڈر کو قائم رکھتا تھا۔ محکمہء ڈاک کے ذریعے سرکاری اور عوامی پیغام رسانی کا کام لیا جاتا تھا۔ محکمہء عدل و قضا کے تحت قاضی مسلمانوں کے مقدمات کا تصفیہ کرتے تھے۔ فوجی خدمات کے لیے کچھ لوگوں کو مستقلاً رکھا جاتا تھا، جنھیں ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی اور کچھ سے وقتِ ضرورت کام لیا جاتا تھا۔ فوج پیادہ افراد، تیر اندازوں اور شہ سواروں پر مشتمل ہوتی تھی۔ انتظامِ مملکت چلانے کے لیے پورے ملک کو مختلف صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور ہر صوبے کا ایک عامل(گورنر) مقرر کیا جا تھا۔

مسلمانوں کی سماجی زندگی ایرانی تہذیب ومعاشرت کے رنگ میں رنگ گئی تھی۔ طرزِ رہائش، لباس، ماکولات و مشروبات اور وسائلِ تفریح وغیرہ پر اس کا اثر پڑا تھا۔ حمام کا بہت زیادہ رواج ہو گیا تھا۔ غلام اور لونڈیوں کی تجارت عام ہو گئی تھی۔ لونڈیوں کو ناچنا گانا سکھایا جاتا تھا۔ اس کا اثر سیاسی اور سماجی زندگی کے علاوہ ادب پر بھی پڑا تھا۔ اس دور میں سماج نسلی بنیاد پر دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ایک گروہ عربوں کا تھا اور دوسرا ایرانیوں اور غیر عربوں کا۔ ان کے درمیان کش مکش کے نتیجے میں ایک تحریک برپا ہوئی جسے ’شعوبیت‘ کا نام دیا گیا۔اس تحریک کے علم بردار اس بات کے قائل تھے کہ عرب کسی معاملے میں غیر عربوں سے افضل نہیں ہیں۔

عہدِ عباسی میں سلطنت کی خوب توسیع ہوئی اور تمدن کو ترقی ملی۔ اس کے نتیجے میں تجارت کو بڑے پیمانے پر فروغ ہوا۔ بندرگاہیں برّی و بحری تجارت کا مرکز بن گئی تھیں۔ تاجر عرب علاقوں کی پیداوار اور مصنوعات لے کر ایک طرف چین اور دوسری طرف اندلس تک جاتے اور وہاں کی چیزیں لے کر عرب علاقوں میں واپس آتے تھے۔ اسی طرح مختلف صنعتوں کو بھی ترقی ملی۔ قالین، پردے، فرش، ملبوسات، جواہرات، کاغذ، صابون اور شیشے کے کارخانے مختلف شہروں میں قائم تھے۔ ملک کے مختلف حصوں سے معدنیات نکلتی تھیں۔ زراعت پر بھی توجہ دی گئی۔ بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بنایا گیا۔ آب پاشی کے لیے نہریں کھدوائی گئیں۔ انواع و اقسام کے پھل، پھول اور ترکاریوں کی کاشت کی جاتی تھی۔

تبصرے بند ہیں۔