آیا موسم داخلوں کا ۔۔۔!

مدثر احمد
امسال کے پرائمری ، ہائی اسکول و کالجوں کے امتحانات کم و بیش ختم ہوچکے ہیں اور تمام تعلیمی اداروں کے نتائج بھی منظر عام پر آچکے ہیں ، بیشتر والدین اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخلے دلوانے کے لئے فکر مند ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے اسکول میں داخلہ دلوائیں چاہے اس کے لئے کتنے بھی پیسے خرچ ہوں ۔ اسی سوچ کے تحت اکثر والدین اپنے بچوں کو داخلہ دلواتے ہوئے یہ فکر کرتے ہیں کہ انکے بچے جہاں تعلیم حاصل کریں اسکی عمارت عالیشان ہو ، وہاں کا یونیفارم رنگ برنگ کا ہو ، اساتذہ ہائے ۔ ہاو ڈو یو ڈو میں ہی بات کرنے والے ملیں ، انکے بچے جب اسکول جائیں تو اچھی بس میں جائیں اور جانے سے پہلے والدین بچوں کو دور تک بائے بائے کہتے رہیں ۔ یہ تصور اچھے تعلیمی ادارے کے تعلق سے آج کل کے والدین کا میں پایا جاتاہے اور ان تمام چیزوں کو دیکھ کر ہی ہم یہ طئے کرلیتے ہیں کہ جس اسکول میں ہمارا بچہ جارہاہے وہ اچھا اسکول ہے ۔ تعلیمی ادارے بھی اپنے دلکش اشتہارات میں ان تمام باتوں کو خوب بڑھا چڑھا کرپیش کرتے ہیں تاکہ ماڈرانائزیشن میں ڈوبے ہوئے لوگ ان کی جانب راغب ہوسکیں اور اپنے بچوں کا داخلہ دلواسکیں ۔ ان اشتہارات میں جو سہولیات بتائی جاتی ہیں اس کو برﺅے کا ر لانے کے لئے ہی تو لاکھوں روپئے ڈونیشن کے نام پر وصول کیا جاتاہے ۔ عام طور پر ڈونیشن کے معنی الگ ہیں جسے ہم شان سے ڈونیشن کہتے ہیں اسے اردو میں چندہ کہا جاتاہے اور تعلیمی اداروں میں چندہ لینے اور دینے کو عیب نہیں سمجھا جاتا، کچھ سال قبل تک مسجدوں ، مدرسوں ، مٹھوں میں چندہ لیا جاتاتھا ۔ مدرسوں اور مٹھوں میں چند ہ لیا بھی جائے تو کوئی بری بات نہیں ہے کیو نکہ وہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے یتیم ، بے سہارا، لا چار وغیرہ رہتے تھے لیکن آج اچھے خاصے لوگ چندہ لے بھی رہے ہیں اور دے بھی رہے ہیں اوریہ لوگ اسے عیب نہیں سمجھتے ۔ خیر ، لاکھوں و ہزاروں روپیوں کے چندہ لینے کے بعد جو تعلیم ہمارے بچوں کو دی جارہی ہے وہ بھی نصاب کے لحاظ سے تو اچھی ہے لیکن جس علم کو طالب العلم کو دینا ہے وہ علم آج تعلیمی اداروں سے معیوب ہوچکاہے اور وہ علم ہے اخلاقیات ، تہذیب ، انسانیت کا علم ہے ۔ اچھے تعلیمی اداروں کی تلاش میں جانے والے والدین اوربچے کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ جو علم ہم حاصل کرنے جارہے ہیں وہ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی کے لئے اہم ہو اور ہماری نظر میں وہی علم سچاہے جو آخر تک ہمارے کام آئے ۔ یل کے جی سے ڈگری تک جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس میں کب کس نے کتنے نمبرات لئے وہ شاید ہی کوئی یاد رکھے ، کچھ دیر بیٹھ کر سوچیں کہ ہم نے دوسری جماعت میں کتنے نمبرات لئے تھے ، ساتویں جماعت میں کتنے نمبرات لئے تھے شاید ہی کسی کو یاد ہے ۔ اگر ہم کچھ یاد ہے تو ہمارے اساتذہ کی جانب سے پڑھايا جانا والا وہ علم یا د ہے جس میںنیکی کا سبق دیا گیا تھا ، جھوٹ و فریب سے بچنے کا درس دیا گیا تھا ، بڑوں کے احترام کا علم دیا گیا تھا ۔ ایسے تعلیمی ادارے جو اخلاقیات کی تعلیم کے لئے بھی کتابیں اور نوٹس بکس رکھتے ہیں وہ کہاں تک صحیح ہیں ۔ اخلاقیات اور بھلائی کا علم تو دلوں سے دیا جاتاہے ، نوٹس بکس اور کتابوں میں پڑھنے والا علم تو امتحان تک محدود ہوتاہے ۔ اس لئے ہمیں ایسے تعلیمی اداروں کو ترجیح دینی چاہئے جو واقعی میں دل سے ہمارے بچوں کی تربیت کریں ۔ نوٹس بک ، اچھی بس ، بڑی عمارت وغیرہ تو عارضی ہیں اور مستقل یعنی پرماننٹ تو اخلاقیات کی تعلیم دینے والے ادارے ہیں ۔ ہمارے بچوں کو ڈونیشن کی بناء پر تعلیم دینے والے ادارے نہ ہوں بلکہ اچھی نسل پیدا کرنے والے ادارے ہوں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔