پناماپیپرزیعنی بحرالکاہل میں طوفان

احمدجاوید

بحر الکاہل دنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے۔ اسے یہ نام پرتگیزی جہاز راں فرڈیننڈ میگلن نے دیا تھا جو دراصل لاطینی لفظ Mare Pacificum سے نکلا ہے جس کا مطلب پرسکون سمندر ہے۔یہ زمین کے کل رقبے کے ایک تہائی حصے پر پھیلا ہوا ہے ۔شمال سے جنوب کی جانب بحیرہ بیرنگ سے بحر منجمد جنوبی کے درمیان ۱۵ہزار۵۰۰ کلومیٹر اور مشرق میں انڈونیشیا سے لے کر کولمبیا اور پیرو تک اس کی لمبائی ۱۹ ہزار۸۰۰ کلومیٹر ہے۔اس سمندر کی مغربی حد آبنائے ملاکا پر ختم ہوتی ہے۔ روئے زمین پر سب سے گہرا مقام ماریانا ٹرینچ بحر الکاہل میں واقع ہے جس کی گہرائی ۱۰ ہزار۹۱۱ میٹر ہے۔ اس سمندر کی اوسط گہرائی ۴ ءہزار۳۰۰ میٹرہےاوراس میں تقریبا۲۵؍ ہزار جزائر ہیں جو دنیا بھر کے سمندر میں موجود کل جزیروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔اگر میں آپ سے کہوں کہ آج کی اس دنیا میں بحرالکاہل سے بھی گہرا، اس سے بھی لمباچوڑااور اس سے بھی زیادہ پرسکون ایک سمندرموجود ہے جس میں اتنے جزیرے آباد ہیں جن کا شمار ممکن نہیں لیکن نہ یہ سمندر آپ کو نظر آتا ہے نہ اس کی گہرائی کسی سے ناپی جاتی ہے اورنہ اس کے گہرے پانیوں میں آباد جزیرے ہی کسی کو دکھائی دیتے ہیں توآپ کو میری عقل پرشبہ ہوگا۔لیکن یہ کوئی مذاق نہیں، آپ یقین مانیںبلکہ ہوسکے تو ان دستاویزات کو دیکھنے کی زحمت گوارا کریں جوبحرالکاہل سے بھی بڑے ، اس سے بھی گہرے اوربے شماراندیکھے جزیروں والےسمندر کےراز کھول رہے ہیں۔ جی ہاں! ہم کسی اوردستاویزات کا ذکر نہیں کررہے ہیں،یہ پناما پیپرزکا ہی ذکرہے جو پچھلے ایک ہفتے سے قسطوں میں افشا ہورہاہے اور دنیا انگشت بدنداں ہے کہ اس سمندر میں کتنے جہازڈوب کر تیرتے اور کتنے ڈوب جاتے ہیں، کتنے جزیرے آباد ہیں اور کتنی دنیائیں غرقاب ہوتی رہتی ہیں اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ یہاں پر یہ دوہرانے کی چنداںضرورت نہیں کہ جس سمندر اور جن جزیروں کا ہم یہاں ذکرکررہے ہیں، وہ ہماری دنیا کی معیشت کا وہ برفشار ہے جس کی ایک ادنیٰ سے جھلک نے حساس انسانوں کے ہوش اڑا کر رکھ دئے ہیں۔یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ اس سمندرکی شارک مچھلیاں کیسی کیسی نامی گرامی ہستیاں ہیں۔یہ جہازنگل جاتی ہیں اور ڈکار نہیں لیتیں۔

آپ کے علم میں ہے کہ دنیا میں دو امریکا ہیں۔ شمالی امریکا اور جنوبی امریکا۔ریاستہائے متحدہ امریکہ(یو ایس اے) شمالی امریکا میں ہے جب کہ جنوبی امریکا چھوٹے بڑے 14ممالک پر مشتمل ہے۔ان دونوں امریکاؤں کے دونوں طرف دو بڑے سمندر ہیں، بحرالکاہل اور بحراوقیانوس۔ ان دونوں امریکاؤں کو خشکی کی ایک لمبی پٹی آپس میں ملاتی ہے، اس پٹی پر چھ چھوٹے چھوٹے ملک واقع ہیں۔ پناما دونوں امریکاؤں کو آپس میں ملانے والی اسی پٹی پر آباد ہے۔سوویت یونین اور امریکا کے درمیان سردجنگ شروع ہوئی اور دنیا میں ہتھیاروں کی تجارت ہونے لگی، ویتنام اور افغانستان کی جنگوں نے منشیات کو انڈسٹری بنا دیا اور ایشین ٹائیگرز نے سر اٹھایا اور دنیا میں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہوا۔ ۱۹۶۰سے ۱۹۸۰ءتک دنیا کے۳۷ ملکوں میں فوجی انقلاب اور باوردی حکومتیں آئیں،جمال ناصرسے کرنل قذافی تک ان حکومتوں نے لوٹ مار شروع کر دی۔یہ حکمراں اپنے لوٹ کے مال کو ٹھکانے لگانے کے ٹھکانے ڈھونڈنے لگے۔ نوے کی دہائی میں دنیا میں کارپوریٹ انقلاب آ گیا،یہ اپنے ساتھ مثبت اورمنفی دونوں اثرات لے کر آیا۔ ہزاروں لاکھوں کمپنیاں بننے لگیں اور ان کمپنیوں نے ٹیکس چوری شروع کر دی۔اس نیا رجحان پناما اور دنیا کے کئی چھوٹے اور غریب ملکوں کے لیے نعمت ثابت ہوا اور یہ ممالک ٹیکس کی چوری کرنے والے سرمایہ داروں کے لیے جنت بن گئے۔یہ سرمایہ کاری اور ٹیکس فری جیسے خوبصورت لفظوں کے ذریعے دنیا بھر کے اسمگلروں، مافیاؤں، آمروں، ٹیکس چوروں، اسلحہ فروشوں اور شاہی خاندانوں کا محفوظ ٹھکانہ بلکہ صفائی خانہبن گئے، آپ اگر نقشہ دیکھیں تو آپ دیکھیں گے، پناما کی سرحدیں کولمبیا سے ملتی ہیں اور کولمبیا منشیات فروشوں اور مافیا لارڈز کی جنت ہے۔ پناما کے دو وکیلوں جارجن موزیک اور رومن فانسیکا نے دنیا کی ان تبدیلیوں پر نظر رکھی ہوئی تھی۔انھوں نے صورتحال کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور پناما میں ۱۹۷۷ء میں ’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘ کے نام سے ایک لاء فرم بنا ئی، یہ فرم شروع میں کولمبیا کے منشیات فروشوں اور مافیا لارڈز کیلیے’آف شور کمپنیاں‘ بناتی تھی۔ پناما نے ان دنوں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کیلیے ’ٹیکس فری‘ اصلاحات متعارف کرائی تھیں، دنیا کا کوئی بھی دولت مندشخص پناما میں کمپنی بنا سکتا تھا، بینک اکاؤنٹ کھول سکتا تھا اور اس اکاؤنٹ میں جتنی چاہے رقم جمع کر سکتا تھا، حکومت اس سے ’سورس‘ نہیں پوچھتی تھی، موزیک فانسیکا اینڈ کو نے کلائنٹس کیلیے پناما کے ہزاروں شہریوں کے شناختی کارڈ جمع کیے، بینکوں کو ساتھ ملایا اور دھڑا دھڑ آف شور کمپنیاں بنانے لگی۔لاء فرم کے کلائنٹس ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں اپنی ’بلیک منی‘ ڈالتے تھے اور پھر اس رقم سے یورپ، مشرق بعید اور امریکا میں جائیدادیں بھی خریدتے تھے، کاروبار بھی کرتے تھے، فیکٹریاں بھی لگاتے تھے اور عیاشی بھی کرتے تھے۔ یہ لوگ رشوت اور کک بیکس بھی ان اکاؤنٹس کے ذریعے لیتے ہیں۔ رشوت دینے والی پارٹیاں ان آف شور کمپنیوں کے نام پر تجارتی سامان خریدتیں، یہ سامان دوسرے ملکوں میں بیچ دیا جاتا اور رقم کمپنی کے اکاؤنٹ میں آ جاتی۔ یہ لوگ مختلف ملکوں کی ٹیکس رعایتوں، اسٹاک ایکس چینجز اور سٹے بازی کا فائدہ بھی اٹھاتے تھے اور یوں ان کی بلیک منی بھی وائٹ ہو جاتی تھی اور دولت میں دن دونارات چوگنا اضافہ بھی ہوتا تھا۔موزیک فانسیکا کا کاروبار ایسا چلا کہ قانونی صلاحکاروں کی یہ فرم دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فرم بن گئی اور اس کے دفاتر دنیا بھر میں کھل گئے۔ اب اس کےمؤکلوں میں صرف مافیاز اور منشیات فروش شامل نہیں ہیں بلکہ یہ اب دنیا جہان کے امراء کی لاء فرم ہے، یہ ان کیلیے آف شور کمپنیاں بناتی ہے، ان کیلیے عارضی دفاتر کا بندوبست بھی کرتی ہے،ان کے جعلی اسٹاف بھی بھرتی کرتی ہے، ان کو ٹیکس سے بھی بچاتی ہے اور انھیں سرمایہ کاری کے نئے نئے طریقے بھی بتاتی ہے۔ یہ فرم اس قدر مضبوط ہے کہ یہ چھوٹے ملکوں میں حکومتیں بدل دیتی ہے، یہ پھر ان حکومتوں سے ٹیکس اصلاحات کے نام پر سسٹم تبدیل کراتی ہے، اپنے کلائنٹس سے وہاں سرمایہ کاری کراتی ہے اور آخر میں ان ملکوں کا سارا سرمایہ سمیٹ کر غائب ہو جاتی ہے۔ یہ فرم ہمارے ملکوں کے نظام میں بھی خوفناک حد تک دخیل ہے۔ کیسے؟ اس کے لیے ہم یہاں ایک مثال اپنے پڑوس سے اور ایک وطن عزیزسے پیش کریںگے۔ آپ پر واضح ہوجائےگاکہ یہ سیاہ سمندر ہم کو کس طرح نگل رہاہےاور ہم اس کے سامنے کیسے بے بس ہیں؟

پاکستان میں شوکت عزیز نام کا ایک وزیراعظم ہوا کرتا تھا، یہ کہاں سے آیا، یہ چند ہفتوں میں وزیر خزانہ کیسے بن گیا۔پھریہ وزیراعظم کیسے بنا، اس کے دور میں ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کیسے ہوا، پاکستان کی پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر کیسے پہنچی، ڈالر کی قیمت کیسے مستحکم رہی اور پھر یہ۲۰۰۸ء میں اچانک کہاں غائب ہو گیا اور اس کے جانے کے چند ماہ بعدپاکستان کا خزانہ کیسے خالی ہو گیا؟ اس کا جواب ’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘ کے پاس ہےکیونکہ اس کو یہی فرم پاکستان لائی تھی، اسی نے وزیراعظم بنوایا تھا، اسی نے اپنے مؤکلوں کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کرائی تھی اور اسی نے شوکت عزیز کے ذریعے اپنےمؤکلوں کا کالادھن سفید کرایا تھا اور ان کے اثاثوں میں اضافہ کیا تھا۔اس فرم کے جو دستاویزات اس وقت میڈیا میں افشا ہورہے ہیں، وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ دنیا کی معیشت کس طرح مٹھی سرمایہ داروں کی یرغمال ہے اوربحرالکاہل سے بھی بڑایہ سیاہ سمندردنیاکے محنت کشوں کی کمائی اور ترقی پذیرملکوں کی معیشت کوکیونکر نگل رہا ہے؟


یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔