دال سے دیش بھکتوں کی دیش بھکتی ….!

کہا جاتا ہے کہ کچھ بولنے سے پہلے پیٹ میں کچھ جانا چاہئے اور آج کل پیٹ کی ساری چاہت دال میں سمٹ آئی ہے۔ ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے ہم چاہیں جو بھی کہیں ہماری دال نہیں گلنے والی۔ ویسے بھی دال کی قیمت اس قدر چڑھی ہوئی ہے کہ ہم جیسے عام آدمی کی بساط سے باہر کی چیز معلوم پڑنے لگی ہے۔ دال کی روز افزوں قیمت کو دیکھتے ہوئے بہ آسانی کہا جا سکتا ہے کہ دال ہی مال ہے اور جو مالدار ہے و ہ دالدار ہے۔ایسا لگتا ہے کہ دلداری کے لئے بھی دالداری شرط ہو جائے گی۔ فی الحال تو سیاست میں دال نے اپنی جگہ پکی کر ہی لی ہے ۔ ’’ارہر ‘‘ کو مودی جی کے ساتھ جوڑ ا جا رہا ہے۔ جابجا راہ چلتے ہوئے ’’ہر ہر مودی‘‘ کی جگہ ’’ارہر مودی‘‘بھی سننے اور دیکھنے کو مل جاتا ہے۔بڑے کم عقل لوگ ہیں جو اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔ وہ درحقیقت اس سلوگن کی روح سے نابلد ہیں۔انھیں نہیں معلوم کہ مودی جی اپنے سلوگن پر پوری طرح سے کھرے اتر رہے ہیں۔ اسی سلوگن ’’ہر ہر مودی‘‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہی تو مودی جی دیش ودیش کا چکر کاٹ رہے ہیں تاکہ کوئی گھر باقی نہ رہ جائے۔جہاں جہاں مودی جی جاتے ہیں معلوم نہیں وہاں کیا کیا بنتا ہے ؟ دال بنتی ہے یا بیف۔۔۔لیکن بیف۔۔۔! اف یہ بیف ! یہ تو بڑا قاتل ہے۔ اس کا ذکر بھی مناسب نہیں‘ ہاں اگر برآمد کرنا ہو تو ٹھیک ہے۔یہی تو ہمارے ملک کا امتیاز ہے۔ہر کوئی اس کا کاروبار کر سکتا ہے چاہے وہ ہندو ہو یا مسلم‘ کسی بھی پارٹی سے ہو‘ بی جے پی سے ہو یا کانگریس سے۔مودی جی بی جے پی کے سربراہ اور دیش کے وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ سارے دیش واسیوں کے متر بھی ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے بھاسڑ میں ’مترو‘ ’مترو‘ کا ادِھک ماترا میں پَریوگ کر کے دیش کی جتنا سے اپنی مِتررتا سدھ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن کہنے والے بھی بہت ہیں‘ کہتے ہیں کہ ان کے صرف دو ہی متر ہیں ؛ ایک اڈانی اور دوسرے امبانی۔ دونوں تواپنے ہی دیش کے ہیں ‘ پھر ان سے دوستی میں برائی کیا ہے؟ اگر آسٹریلیا میں سرمایہ کاری کے لئے قرض بھی دیا ہے تو اس سے کون سی آفت آگئی ؟ ایک ہندوستانی ہی کا تو پیٹ بھرے گا اور وہ بھی دال کے لئے نہیں ترسے گا۔ باقی کسان مزدور تو کچھ بھی کھا پی کے پیٹ بھر لیتے ہیں۔ دو چار وقت بھوکے بھی رہ لیں تو ان کا گزارا ہو جاتا ہے۔ آخردیش کے کسان بھی تو مودی جی کے متر اور دوست ہیں اور دوستی میں تو جان کی قربانی بھی دی جاسکتی ہے۔ اب اگر کوئی جان دے رہا ہے تو اس میں رونے گانے کا کیا مطلب؟ جان کی بلی تو ہندوستان کی پرانی روایت رہی ہے۔برائی تو پٹرول‘ گیس اور بجلی کی ہیرپھیر میں بھی نہیں ہے۔ بزنس بڑا ہو تو مال میں خرد برد اور ثبوتوں کے دریا برد میں کوئی مضایقہ نہیں۔ لیکن معلوم نہیں اتنی سی بات کا لوگ بتنگڑ کیوں بنانے لگ جاتے ہیں۔اتنی عام سی بات ہے پر اسے عام آدمی سمجھنے کے لئے راضی ہی نہیں ہورہا ۔ عام آدمی کی بات پر عام آدمی کے سربراہ اروند کیجروال جی یاد آ گئے ۔ ایک وقت میں تو یہ مودی جی اور ان کے مترو کے پیچھے ہی پڑ گئے تھے۔بنارس تک پیچھا کیا انھوں نے لیکن وہاں تو مودی جی بہت آگے نکل گئے‘ آخر دلی میں جاکر ہاتھ لگے اوروہیں دونوں کی باقاعدہ مڈبھیڑ ہوئی۔مڈبھیڑ ہونے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ دونوں طاقتوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ہو‘ البتہ درمیان میں جنگ صاحب کی آمد ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کی ضرور مصداق رہی۔ انھوں نے جو بھی کیا ہو بہر حال وہ اپنی کرسی اور دیش بھکتی دونوں کے ہی حقوق پوری طرح سے اپنے پاس محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔ یہ دیش بھکتی بھی عجیب شے ہے۔آج کل تو نام اور بھیس دونوں بدل کر آرہی ہے اور اس کا سارا کریڈٹ مودی جی اور ان کے مترو کو جاتا ہے۔آخر دیش اور مودی جی میں فرق ہی کیا ہے۔ دیش مودی جی سے ہے اور مودی جی دیش سے ودیش میں ۔ دونوں ایک ہی سمان ہیں دیش بھکتی کہیں یا مودی بھکتی‘ اس کے معنی اور معنی کار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دیش بھکتی کے لئے مکتی ضروری ہے اور مکتی کے لئے واپسی۔ واپسی کے دروازے ہمہ وقت کھلے ہیں چاہے گھر آنے کی واپسی ہو یا باہر جانے کی۔ آج کے نفسانفسی کے دور میں بھی کتنے اچھے دیش بھکت یا مودی بھکت ہیں جو ہر لمحہ رہنمائی کے لئے تیار رہتے ہیں اور’’ بھٹکوں ‘‘کو فوراً واپسی کا راستہ دکھانے میں ذرا بھی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ ایسے رہنما ؤوں کو ہم ’’بھکتوں ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ انھیں دونوںیعنی ’بھٹکوں ‘اور’ بھکتوں‘ کی تال میل سے دیش کا سیکولزرم برقرار رہتا ہے۔ رواداری سیکولزم کی جان ہے اور اس کے تحفظ کی راگ الآپنے میں بھی بھکت آگے رہتے ہیں۔ اس سے بڑی رواداری کی دلیل اورکیا ہوگی کہ دونوں (بھکتوں اور بھٹکوں)ایک دوسر ے کو سنتے اور جھیلتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں تھوڑا بہت تو گالم گلوج چلتا ہی ہے۔ انسان طبیعتاً جذباتی ہوتا ہے اور ہندوستانی انسان مزاجاً اور زیادہ جذباتی ‘ چاہے وہ وطن پرستی ہو یا زن پرستی ۔ جذبات میں آکرکچھ لوگ زن پرستی میں دھر لئے جاتے ہیں اور کچھ تو پارٹی ہی بدل لیتے ہیں۔ہندوستانی عشق ہے ‘نہ چھپنے کے معاملے میں مشک سے بھی زیادہ گھاتک۔ کب تک ’تو ہے میری کرن‘ ’تو ہے میری کرن‘ کا نغمہ دل میں دبائے بیٹھے رہیں گے۔ کہیں نہ کہیں تو زن پرستی سر چڑہ کر بولے گی ہی۔ اسی لئے ہندوستانی دیش بھکت کا خون بھی معاف ہونے لگا ہے۔ اب تو منا بھائی جیسے لوگوں کو بھی بڑا کنفیوژن ہونے لگا ہوگا ‘ اصل دیش بھکت کون ہے لاٹھی والا یا ریوالور والا لیکن اگر لاٹھی والا نوٹوں پر ہو تو اچھے اچھے دیش بھکت انھیں جھک کر سلامی دینے پر مجبور نظر آتے ہیں۔بہرکیف اتنا تو ماننا ہی پڑے گا کہ اگر دیش بھکت (اسے دوسرے نام سے بھی پڑھ سکتے ہیں) جذباتی ہو جائے تو مخالفت کی چنداں ضرورت نہیں۔دیش بھکتوں کو اپنی ماں سے بہت پیار ہوتا ہے اس لئے وہ دوسروں کی ماں سے نفرت کرتے ہیں۔ان سے تھوڑی کہا سنی ہوجائے تو ان سنی کر دیجئے ۔ ہمارے دیش کے وزیر اعظم مودی جی بھی یہی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ دیش میں کچھ بھی ہوجائے ‘ کتنا ہی ہنگامہ برپا کیوں نہ ہو ‘وہ سن کر ان سنی اور دیکھ کر ان سین (Unseen) کردیتے ہیں۔ مودی جی ہی تو ہم ہندوستانیوں کے رول ماڈل ہیں۔ ہر طرح کی رنگا رنگ ماڈلنگ بھی کر لیتے ہیں اور ایکٹنگ بھی۔ ہر اسٹائل میں نظر آئیں گے ‘ ہر رنگ میں نظر آئیں گے ‘ کچھ بھی ہو نظر ضرور آئیں گے۔ان کا اور کیمرے کا جنم جنم کا رشتہ ہے۔ درمیان میں جو بھی چیز آڑے آئے اسے ہٹانے سے بالکل بھی نہیں چوکتے تاکہ پوزیشن میں آکر ڈیجیٹل انڈیا کا صحیح پوز دے سکیں۔ صحیح پوزیشن کا پوز دینا بھی کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ بڑے دل گردے کا کام ہے بلکہ اس دلیری لئے چوڑی چھاتی کا ہونا بھی ازبس ضروری ہے۔ آفریں ہے ہمارے ایسے وزیر اعظم پر جو 56 انچ کا کشادہ سینہ لئے ہوئے ہم ہندوستانیوں کے خاطراپنا سینہ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی کیمرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ‘ اپنی چھاتی پھلا کربڑے ہی فخر سے کہیں: ہم مودی بھکت ہیں ‘ ہم دیش بھکت ہیں‘ ہم بھکت ہیں‘ باقی سب اندھ بھکت ہیں تاکہ دنیا کے گوشے گوشے میں ہمارے دیش کا نام روشن ہو۔

تبصرے بند ہیں۔