تبصرہ کتاب: باتونی لڑکی از رئیس صدیقی

نام کتاب:  باتونی لڑکی
ناشرومصنف: رئیس صدیقی
ضخامت: 144؍صفحات
قیمت: 89؍روپے
ملنے کاپتہ:  مکتبہ جامعہ لمٹیڈ،اردوبازارجامع مسجد ،دہلی۔۶
رئیس صدیقی کی ادب اطفال پر مبنی تصنیف ہے،رئیس صدیقی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ،چوں کہ اکثر وبیشتر ان کی کہانیاں ملک وبیرون ملک کے مقتدر اخبارات ورسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔بچوں کی ضروریات کوذہن میں رکھ کرتخلیق کیا گیا ادب ادب اطفال یا بچوں کا ادب کہلاتا ہے۔ تقرباً ہرہرزبان میں اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ اردوزبان میں ادبِ اطفال کی جانب جن ادیبوں نے توجہ دی ان میں رئیس صدیقی کا نام نمایاں ہے۔ اس سے قبل بھی ادب اطفال پر ان کی کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔بچے کسی بھی ملک وقوم کا مستقبل ہوتے ہیں،ان کی بہتر تعلیم وتربیت ہی قوم کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔رئیس صدیقی نے اپنی کتاب میںبچوںکے لیے جو کہانیاں تخلیق کی ہیں ،وہ ان کی کمال ہنرمندی ظاہر کرتی ہے۔بچوں کا ادب ، ادب کی ایک مشکل ترین صنف سمجھی جاتی ہے،کیوں کہ یہ ادب ایک مقصدی ادب ہوتا ہے ، اس کے ذریعے بچوں کو مسرت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان میں تخیل کی صلاحیت پیداکرنے، جذبہ اور حوصلہ پروان چڑھانے،مختلف النوع تجربات سے روشناس کرانے، دنیااور لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے، ان میں ثقافتی و تہذیبی ورثے کو منتقل کرنے اوراخلاقی اوصاف کے نشوونما کی کوشش کی جاتی ہے۔سائنس اور ٹکنالوجی کے اس ترقیاتی دور میں بچوں کے ادب پر بہت کم توجہہ دی جارہی ہے،بچوں کا ادب بہت کم تخلیق ہو پارہا ہے، البتہ بچوں کے لیے ادبی رسالے مسلسل شائع ہورہے ہیں، جن میں ’پیام تعلیم‘، ’ہلال‘،’امنگ‘ ،’اچھا ساتھی ‘اور قومی کونسل کا ’’رسالہ بچوں کی دنیا‘‘اہمیت کے حامل ہیں۔دور حاضر میں کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ،موبائیل،ٹیب پر بچے گیمس کھیلنے میں مشغول ہیں۔جس سے بچوں کے اندر چڑچڑاہت پیدا ہورہی ہے۔ٹکنالوجی کا استعمال ہونا چاہئے ،مگر ٹکنالوجی ہم پر حائل ہورہی ہے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایسے میں والدین کافریضہ ہونا چاہئے کہ اپنی اولاد کو اردو زبان وادب سے واقف کروائیں ساتھ ہی اردو لٹریچر اپنے بچوں کو مطالعہ کیلئے فراہم کریں ،تاکہ ان کے اخلاق وآداب سنوارسکیں۔زیرنظر کتاب کو تخلیق کرنے کا مقصد مصنف کے مدنظر بچوں کے ادب کی اہمیت کو اجاگر کرنا ساتھ ہی ان میں اخلاقیات کو فروغ دینا شامل ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی پودے کی ابتدائی نشو و نما کے دوران اس کا مکمل دھیان رکھا جاتا ہے تبھی وہ پھل دار اور تناور درخت کی صورت اختیار کر پاتا ہے، اسلیے اخلاقیات کی نشو نما کے لیے بھی کم عمری میں ہی توجہ دینا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ عہد میں ہمارے اسلاف، بچوں کے لیے ایسے لٹریچر کی فراہمی پر بہت زیادہ توجہ دیا کرتے تھے جو ان کی اخلاقی ترقی کا ضامن بن سکے۔ ادب اطفال پر جہاں ماضی میں مائل خیر آبادی، حفیظ جالندھری، علامہ اقبال اور ماہر القادری جیسے کہنہ مشق ادباء و شعراء نے کام کیا، وہیں دورِ جدید میں رئیس صدیقی اس ضرورت کی تکمیل کررہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ادب اطفال سے ہماری ادبی دنیا خاصی کمی کا شکار ہے۔ عموماً یہ شکایت کی جاتی ہے کہ ہمارے ادیب حضرات بچوں کا ادب تخلیق کرنے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے اور پرانی کتابوں میں الف لیلیٰ کے قصے، سند باد جہازی اور ابن بطوطہ کے سفر نامے اور شیخ چلی کے واقعات کے علاوہ عہد وسطیٰ میں کوئی ایسی کتاب معرض وجود میں نہیں آئی جو بچوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہو۔ غرضیکہ بچوں کے لئے ادب تخلیق کرنے کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی تھی۔ مگر قابل مبارکباد ہیں ادب اطفال کے معمار رئیس صدیقی صاحب کہ انہوں نے اس طرف توجہ کی اور متواتر طور پر بچوں کے لیے گلشن ادب کی آبیاری میں خود کو وقف کر دیا اور ان کے زرخیز ذہن نے 36؍ کہانیوں اور 144؍ صفحات پر مشتمل ایک کتاب کو تخلیق کیا جو نصیحت آموز کہانیوں سے پر ہے، بلکہ بچوں میں اچھے اخلاق، راست گوئی، محنت و لگن، ایمانداری و خود اعتمادی اور بری عادتوں سے اجتناب جیسی اچھی صفات سے بچوں کو متصف کرنے کے لئے کہانیوں اور واقعات کا سہارا لیا گیا ہے، کیونکہ بچوں کا ذہن اسے جلدی قبول کرتا ہے اور اسے دیر تک محفوظ رکھتا ہے۔رئیس صدیقی نے بچوں کے ذوق وشوق کا خیال کرتے ہوئے ان کی دلچسپی کا سامان فراہم کیا ہے۔ اپنی کہانیوں کے ذریعے انھوں نے بچوں کومختلف میدانوں سے متعلق آشناکرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔بچوں کا ادب تخلیق کرنامشکل مرحلہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کے لیے جہاں بچوں کی نفسیات، رجحانات، اور معاشرت وماحول کا دقیق علم درکار ہے، وہیں ان تمام چیزوں کو بچوں کی سطح پر اتر کر بیان کرنے کا اور سمجھانے کا فن بھی نہایت ضروری ہے، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔کتاب کا نام بھی ان کی ایک کہانی ’باتونی لڑکی‘کا عنوان ہے۔کتاب میں شامل کہانیوں کے ذریعے بچوں کو جہاں کائنات کی نئی جہات سے واقفیت حاصل ہوگی ،وہیں ان کے اندرملکی اورقومی خدمت کا جذبہ بھی پروان چڑھے گا۔اس کتاب کی ہر کہانی آخر میں پڑھنے والے کو ایک پیغام دیتی ہے اور تخلیق کار کا اسلوب اور طرز تحریر بھی بڑا شائستہ، شگفتہ اور شستہ ہے۔کتاب میں شامل سبھی کہانیاںسبق آموز ہیں۔ توقع ہے کہ رئیس صدیقی کی دیگر تصانیف کی طرح اسے بھی عام قبولیت ملے گی۔

تبصرے بند ہیں۔