ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاللّٰہِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ وَرَسُولُہٗ۔فاِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَخیرُ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّد ﷺ۔وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وکُل بِدعَۃٌ ضَلَالَۃ و کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ فأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمْ۔ لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ(آل عمران: ۱۸۶)
’’تمھیں مال و جان دونوں کی آزمائشیں پیش آکر رہیں گی اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔‘‘
محترم بزرگو، بھائیو، دوستو، ماؤں اور بہنو!
ابھی میں نے آپ کے سامنے سوۂ آل عمران کی ایک آیت کی تلاوت کی ہے۔ یہ سورہ غزوۂ احد کے بعد نازل ہوئی تھی۔ اس میں اس وقت کے حالات کا تذکرہ کرکے مسلمانوں کو رہ نمائی کی گئی ہے اور ان کے لیے صحیح راہِ عمل دکھائی گئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو بھاری جانی نقصان ہوا تھا۔ ستّر(۷۰) بڑے بڑے صحابہ شہید ہوگئے تھے۔ ابتدا میں اس جنگ میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کچھ صحابہ کو ایک درّہ پر تعینات کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم لوگوں کو یہاں سے کسی بھی صورت میں نہیں ہٹنا ہے۔ لیکن جب انھوں نے دشمن فوجیوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا تو مالِ غنیمت لوٹنے کے ارادے سے انھوں نے وہ مقام چھوڑ دیا۔ چنانچہ خالد بن ولید نے، جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، ایک فوجی ٹکڑی کے ساتھ گھوم کر پیچھے سے حملہ کر دیا۔ مسلمان اس ناگہانی حملے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ وہ اپنی بے تدبیری کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہار گئے۔ سورۂ آل عمران میں جنگِ احد پر تبصرہ کیا گیا ہے اور جن جن پہلوؤں سے مسلمانوں کی جانب سے کم زوریوں کا صدور ہوا تھا ان کی نشان دہی کرکے ان کی تذکیر وتنبیہ کی گئی ہے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ ’’تمھیں جان و مال دونوں کی آزمائشیں پیش آکر رہیں گی۔‘‘ گویا اسلام قبول کرنا اور اس پر قائم رہنا آزمائشوں کو دعوت دینا ہے۔اہلِ ایمان اسلام کا کلمہ بلند کرتے ہیں تو ان کے دشمن سرگرم ہوجاتے ہیں اور ان کو ستانے اور تکلیف پہنچانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے پیغمبر بھیجے، سب پر ایمان لانے والوں کو ان کے مخالفین نے طرح طرح سے ستایا، انھیں اذیتیں پہنچائیں اور ان کا جینا دو بھر کر دیا۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے والوں کو بھی اسی طرح آزمائشوں سے دوچار کیا گیا۔ چنانچہ انھیں مخاطب کرکے کہا گیا:
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ ۔وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللَّہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْنَ ۔ (العنکبوت:۲۔۳)
’’کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ محض یہ کہہ دینے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہیں جائیں گے اور ہم نے تو ان لوگوں کو بھی آزمایا جو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ سو اللہ ضرور ان کو جان لے گا کہ ان میں کون سچے ہیں اور ان میں سے جھوٹے لوگوں کو بھی ضرور جان لے گا۔‘‘
اس آیت میں مزید کہا گیا ہے کہ’’تم اہلِ کتاب اورمشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔‘‘ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو مخالفین طرح طرح کے بُرے القاب دینے لگے۔ آپؐ کو ساحر، کاہن، جادوگر وغیرہ کہا اور مسلمانوں کے بارے میں بھی بہت تکلیف دہ باتیں عام کرنے لگے۔
محترم بھائیو اور بہنو!
مخالفین اسلام کا یہ رویہ ہر زمانے میں اور ہر علاقے میں رہا ہے۔ اس کا مظاہرہ ہم آج کل اپنے ملک میں بھی دیکھ رہے ہیں ۔ مسلمانوں کو طرح طرح سے ستانے اور تکلیف پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھیں اپنے دین پر عمل کے معاملے میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں ۔ گزشتہ چند دنوں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو کرناٹک میں مسلم طالبات کو حجاب پہننے سے روک دیا گیا، کئی ریاستوں میں تبدیلیٔ مذہب کا قانون بنا کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت سے روکا گیا ہے اور یہ خدمت انجام دینے والی بعض شخصیات کو پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ مسلم پرسنل لا پر عمل کی آزادی سے محروم کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ تلواروں، لاٹھی، ڈنڈوں، چاقوؤں اور دیگر اسلحہ سے لیس ہوکر مذہبی جلوس نکال کر مسلمانوں کو خوف زدہ کیا جا رہا ہے اور مسجدوں پر حملہ کرکے میناروں پر بھگوا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سب مسلمانوں کو ستانے اور تکلیف پہنچانے کی ہی مختلف صورتیں ہیں، جن کا آیت میں تذکرہ کیا گیا ہے۔
محترم بھائیو!
اس آیت میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ان حالات سے نپٹنے کا طریقہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔‘‘
سورٔ آل عمران ہی میں دوسری جگہ دشمنانِ اسلام کے حوالے سے کہا گیا ہے:
إِن تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَإِن تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَفْرَحُواْ بِہَا وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْْدُہُمْ شَیْْئاً إِنَّ اللّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیْطٌ(آل عمران:۱۲۰)
’’اگر تمھیں کوئی کام یابی حاصل ہوتی ہے تو ان کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں ۔ اگر تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کار گر نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں، اللہ اسے اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔‘‘
ان آیات میں دو چیزیں اختیار کرنے کی تلقین کیگئی ہے: ایک صبر، دوسرا تقویٰ۔ صبر قرآن مجید کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ انبیاء کو اس کی تاکید کی گئی ہے۔ اہلِ ایمان کو اس کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے فوائد و ثمرات بیان کیے گئے ہیں اور اس کے اچھے انجام کی خبر دی گئی ہے۔ صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر طرح کے مظالم برادشت کیے جائیں اور ان کا مقابلہ کرنے کی کوئی تدبیر اختیار نہ کی جائے۔ صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہا جائے اور تمام مصائب و مشکلات کو تقدیر کے حوالے کر دیا جائے، بلکہ صبر استقامت اور پامردی کا دوسرا نام ہے۔ صبر اس عزم مصمم کا نام ہے کہ حالات چاہے جتنے خراب اور نامساعد ہوں، لیکن ایمان پر قائم رہنا ہے اور اس کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آزمائشوں کے تھپیڑوں میں قدموں کو ڈگمگانے نہیں دینا ہے، بلکہ حالات کا دیوانہ وار مقابلہ کرنا ہے اور انھیں سدھارنے اور بہتر بنانے کی تدابیر اختیار کرنی ہے۔ صبر کا مطلب خودسپردگی اختیار کرنا اور سر جھکا دینا نہیں، بلکہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہنا اور ظالموں کا بھر پور مقابلہ کرنا ہے۔
محترم بزرگو اور دوستو!
اس آیت میں صبر کے ساتھ جس دوسری چیز کو اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ کی رضا اور خوش نودی کو پیش نظر رکھا جائے۔ وہ کام کیے جائیں جن سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اوران کاموں سے بچا جائے جن سے اس کا غضب بھڑکتا ہے۔ زندگی اس طرح گزاری جائے کہ اللہ تعالیٰ کے اجر و انعام کا استحقاق بنے اور اس کی بیان کردہ سزاؤں سے نجات کی یقین دہانی ہو۔ یہ نہ دیکھا جائے کہ ہمارے کن کاموں سے اقتدار پر قابض لوگ خوش ہوں گے، چنانچہ انھیں انجام دینے کی کوشش کی جائے اور کن کاموں سے ان کی پیشانی پر بل پڑ جائیں گے اور وہ تکلیف پہنچانے لگیں گے، چنانچہ ان سے رک جایا جائے، بلکہ ہر حال میں اور ہم کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو ملحوظ رکھا جائے۔
محترم بھائیو!
قرآن مجید میں جن گزشتہ قوموں کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے حضرت موسیٰؑ کی قوم (بنی اسرائیل) بھی ہے۔ مصر کے حکم راں فرعون اور وہاں کے قبطی لوگ صدیوں تک ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے، انھیں طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا کرتے ہے۔ ان سے بے گار کے کام لیتے رہے اور انھیں ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرتے رہے۔ان کے درمیان حضرت موسیٰؑ کو مبعوث کیا گیا۔ اس وقت بھی قبطیوں کا ظلم و ستم ان پر جاری تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
اسْتَعِیْنُوا بِاللّہِ وَاصْبِرُواْ إِنَّ الأَرْضَ لِلّہِ یُورِثُہَا مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْن(الاعراف:۱۲۸)
’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔ زمین اللہ کی ہے۔وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور آخری کام یابی انہی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں ۔‘‘
بالآخر بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کرنے والے ناکام و نامراد ہوئے۔ فرعون اور اس کا لاؤ لشکر دریا میں غرق ہو گیا۔ ان کا کرّو فر نیست و نابود ہوگیا اور بنی اسرائیل کو آزادی کی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا۔
محترم بھائیو!
اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہر زمانے اور ہر جگہ کے لیے ہے۔ اس کا ظہور آج بھی ہو سکتا ہے۔ آج ہم مسلمان ستائے جا رہے ہیں ۔ ہمارے بنیادی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں، ہمیں سکون و اطمینان سے جینے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ہماری مسجدوں، گھروں اور کاروبار کے مقامات پر حملے کیے جا رہے ہیں اور ہمیں خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان حالات سے ہمیں پریشان اور دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ضرور بدلیں گے۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم صبر استقامت کا ثبوت دیں اور تقویٰ کی روش اختیار کریں۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین ۔
تبصرے بند ہیں۔