عید کی رات ’انعام کی رات ‘ہے اسے بازاروں میں ضائع مت کیجیے

سراج الدین ندویؔ

ماہ مبارک کا آخر ہوچکا ہے ۔چاند دیکھتے ہی رمضان کا مہینہ ختم ہوجائے گا ۔لیکن اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہے گا۔عید الفظر کی رات کو’ لیلۃ الجائزۃ’ کہا جاتا ہے، عربی زبان میں جائزہ کے معنی ہیں ’انعام‘۔ اس کو انعام کی رات ا س لیے کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں روزے دارنے جو مشقت برداشت کی ہے، اس کے انعامات اس رات میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ عید الاضحی کی رات کو’ لیلۃ الجائزہ ‘نہیں کہا جاتا، اسی طرح عید کے دنوں کو بھی ‘یوم الجائزہ’ نہیں کہا جاتا۔حدیث کے مطابق جب عید الفطرکی رات آتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات سے لیا جاتا ہے۔سُمِّیَتْ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ لَیْلَۃَ الْجَائِزَۃِ.(شعب الایمان بیہقی)

لیلۃ الجائزہ خاص امتِ محمدیہ کے لیے ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میری امت کو رمضان المبارک سے متعلق پانچ خصوصیات ایسی عطا کی گئی ہیںجو سابقہ امتوں کو نہیں ملیں، من جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا:اے اللہ کے رسول!کیا یہ شبِ قدر ہے؟آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:نہیں،یہ رات شبِ قدر نہیںبلکہ یہ اس رات میں کام کرنے والے کو کام پورا کرنے پر مزدوری دی جاتی ہی۔(کشف الاستار)

لیلۃ الجائزہ کی عبادت کا ثبوت تابعین کے اقوال سے بھی ملتا ہے۔حضرت ابو مجلز ؒ فرمایا کرتے تھے کہ عید الفطر کی رات اس مسجد میں گذارو جس میں تم نے اعتکاف کیا ہو، پھر صبح عیدگاہ کی طرف جائو۔(مصنف ابن ابی شیبہ)اس کے علاوہ عیدین کی راتوں میں عبادت کا ذکر تو متعدد احادیث میں موجود ہے۔حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:جو عیدین کی راتوں میں جاگ کر عبادت کا اہتمام کرے گا، اس کا دل اس وقت بھی زندہ رہے گا،جس وقت سب کے دل مردہ ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ،طبرانی اوسط)

ایک اور مقام پر حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: جو پانچ راتوں میں شبِ بیداری کرے اُس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ ذی الحج کی آٹھویں، نویں اور دسویں رات اور چوتھی عِیدُ الفِطْر کی رات، پانچویں شَعْبان کی پندرھویں رات ۔ (اَلتَّرْغِیْب وَ التَّرْھِیْب )

حضرت عبدُ اللہ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی ایک رِوایت میں یہ بھی ہے: جب عیدُ الْفِطْر کی مبارَک رات تشریف لاتی ہے تواِسے ’’لَیْلَۃُ الْجَائِزۃ‘‘ یعنی ’’اِنعام کی رات‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تواپنے شتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اِس طرح آواز لگاتے ہیں: ’’اے اُمَّتِ مُحمّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! اُس ربِ کریم کی بارگاہ کی طرف چلو!جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے‘‘۔ پھراللہ اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’اے میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم! آج کے روزاِس (نماز عیدکے) اِجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرمائوں گا(یعنی اِس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو)میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطائوں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت وجلال کی قسم!میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رُسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا فتہ لوٹ جائو۔تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔‘‘ (اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرھِیْب )

عام طور پر ہم عید کی رات خریداری میں گزاردیتے ہیں ۔ساری ساری رات بازار کھلے رہتے ہیں۔خواتین سے بازار بھرے رہتے ہیں۔گھروں میں چاند دیکھتے ہی کھانے پکانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ہاتھوں میں مہندی لگائی جاتی ہے۔نوجوان موٹر سائکلوں پر ہڑدنگ کاٹتے ہیں۔ایسا لگتا ہے رمضان میں جن شیاطین کو قید کیا گیا تھا ان کی رہائی ہوگئی ہے ۔ضرورت بھر سامان کی خریداری،یا اپنے شوہروں کے لیے عورتوں کا سنورنا ایک حد تک جائز عمل ہے ،مگر اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم اپنے رب کو راضی کریں۔اس سے اپنے روزوں کی قبولیت کے لیے دعا کریں۔تاکہ اس انعام کے مستحق ہو سکیں جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔

یہ انعام کی رات ہے ۔اس میں اللہ سے خوب دعائیں کیجیے۔اس رات کو شہنشاہ کائنات اپنے غلاموں کو ان کے اعمال کی جزا دینے بیٹھا ہے ،ان کے روزوں کا انعام دینے کے لیے بیٹھا ہے،ان کی تراویح ،ان کی تلاوت کا اجر دینے کے لیے موجود ہے ،اپنے دامن کو پھیلائیے،اس کے سامنے سجدے میں گرجائیے ،اس سے اپنی کوتاہیوں کی معافی طلب کیجیے اور اس سے مغفرت کی امید رکھیے۔

تبصرے بند ہیں۔