مولانا احمداللہ صادق پوری
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
بہار نہ صرف علم وادب کاگہوارہ رہاہے، بلکہ یہاں کی مٹی سے اٹھنے والے جیالوں نے اپنی جرأت وہمت، شجاعت وبہادری کا نقش چمن چمن قدم قدم، ڈگرڈگر، قریہ قریہ، کوبکو اور شہر درشہر چھوڑا ہے، جواں مردی، اولوالعزمی، حب الوطنی یہاں کی خمیر میں شامل ہے، اوراس کا ثبوت یہاں کے بے شمارمجاہدین آزادی ہیں، جن کی ان تھک جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کی وجہ سے قافلۂ حریت ہمیشہ تیزگام رہاہے۔
تفصیل میں کہاں جائیے، صرف خاندان صادق پور کی خدمات کاہی تذکرہ کیاجائے تو کئی جلدیں تیار ہوجائیں، لکھنے والوں نے لکھا ہے اورتحقیق کرنے والوںنے کیاہے، اس کے باوجود حق ادانہ ہوا، ڈاکٹرامتیاز احمد ڈائریکٹر خدابخش خاں اورنٹیئل پبلک لائبریری پٹنہ نے بجالکھا ہے:
’’ہندوستا ن کوانگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے اورمذہب اسلام کوبدعات سے پاک وصاف کرنے میںالٰہی بخش، احمد اللہ،یحییٰ علی، فیاض علی، اکبرعلی، ولایت علی، عنایت علی وغیرہ…وغیرہ بزرگان صادق پور… نے جس جیالے پن کا ثبوت دیا ہے، حیرت ہے کہ کوئی تاریخ داں، ان کی بے لوث خدمات کا صحیح اور مکمل طورپر ذکرتک نہیں کرتا‘‘۔ (سونیر مجاہدین صادق پور، بہار نمبر۳۳)
جیسا کہ ذکر ہوا، مولانا احمد اللہ صادق پوری، اسی خاندان کے گل سرسبد تھے اوران کی حیات وخدمات اورجنگ آزادی میں ان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ان حضرات کے ساتھ برتی گئی بے اعتنائی کا احساس شدید ہوتاہے، تاریخ کی کڑیاں ملانے کے دشوار گزارعمل کے بعد بھی خیال آتاہے کہ کہیںکوئی کڑی گم ہے اورحلقۂ سلاسل کوجوڑنے کا عمل مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ مولانااحمد اللہ کی حیات مستعار اور جنگ آزادی میں خدمات مستزاد کا؛ مختصر مگر مکمل تذکرہ ہوجائے۔
مولانا احمد اللہ بن الٰہی بخش بن ہدایت علی جعفری کی ولادت ۱۲۲۳ھ مطابق ۱۸۰۸ئ میں ہوئی، ابتدا میں نام احمد بخش تھا؛ لیکن سیداحمد شہیدؒ نے ان کا نام بدل کر احمد اللہ رکھ دیا،اور یہی نام متعارف ہوا، ابتدائی کتابیں مولانا ولایت علی سے پڑھیں، اور حدیث کی سند بھی انھیں سے حاصل کی، درمیا ن کے چند مہ وسال مولانا منور علی آروی کی شاگردی میںبھی گزرے، فراغت کے بعد درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا، توفیض عام ہوا، اورنامور شاگردوںکے ذریعہ دیر تک اور دورتک پھیلا۔ آپ کی ذکاوت، ذہانت، ہمت، دلیری، حمیت، قومی ہمدردی، اور حب الوطنی مشہور تھی۔ مولانا عبدالحئی حسنی نے الاعلام بمن فی تاریخ الہند میں لکھا ہے:
’’وکان رجلاً کریماً، عفیفاً دیناًکبیرالمنزلۃ عند الولاۃ،جلیل القدر، یعیش فی اطیب بال وراغدحال‘‘(ج۵ص۵۵)
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے لکھا ہے:
’’مولانا احمداللہ اور مولانایحییٰ علی سید صاحب کی جماعت کے رکن رکین اور پوری دعوت وتحریک کا مرکز تھے‘‘۔(سیرت سید احمد شہیدج۱ص۳۰۹حاشیہ)
تذکرۂ صادقہ میںآپ کی عقل ودانش کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے:
’’آپ کی عقل ودانش کااس قدرشہرہ تھاکہ گورنمنٹ انگریزی بھی آپ سے اکثر رفاہ عام کے کاموں میں مشورہ لیا کرتی تھی،آپ برابر کمیٹی کے رکن ممبر ہوا کرتے تھے،آپ حکام رس تھے،اورجلسۂ وائسرائے بہادر میں درجۂ اول میں شمار ہوتے تھے اکثر وہ مقدمات جورعایا اور گورنمنٹ کے درمیان آراضی کے متعلق ہوتے؛ مثلاً کوئی زمین حکومت کو خریدنی ہوتی تو اس کی قیمت کا فیصلہ آپ کے ہی سپرد ہوتاتھا اور آپ اس خوبی سے فیصلہ فرماتے کہ حاکم و محکوم دونوں راضی ہوجاتے‘‘۔(ص۱۴۶)
جب انگریزوں نے انکم ٹیکس لگایا اوراس کی وصولی کا انتظام حکومت کی طرف سے کیاجانے لگا تو جو چار افراد اس کام کے لیے منتخب کیے گئے، ان میں آپ سرفہرست تھے۔ آپ کی تقریر اور تحریر ایسی مدلل، منطقی اور باوزن ہوتی کہ اس سے انکار کرنا مشکل ہوتا، ججوں کے درمیان اختلاف رائے کی صورت میں مقدمہ آپ کی رائے پر فیصل ہوتا، مولانا کے اس اثر ورسوخ کی وجہ سے کسی کوان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیںہوتی تھی۔ ۱۸۵۷ئ کی جنگِ آزادی کے بعد مسٹر ٹیلر کمشنر پٹنہ نے جب آپ کو گرفتار کیا اور تین مہینے نظربندرکھا، بات اوپر تک پہنچی تو نہ صرف فوری آ پ کی رہائی کا حکم ہوا؛ بلکہ مسٹر ٹیلر کمشنر پٹنہ کو اس کے عہدے سے برخاست کردیاگیا۔
اس پہنچ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انگریزوں سے ملے ہوئے تھے ؛بلکہ یہ کام کی حکمت عملی تھی، جس کا پتہ انگریزوں کو بہت بعدمیں چل سکا۔ ڈاکٹر ہنٹر کو اس خاندان سے یہی شکایت تھی،ایک جگہ مولانا احمداللہ کے چھوٹے بھائی مولانایحییٰ علی(م فروری ۱۸۶۸ئ) کے بارے میںلکھتاہے:
’’یحییٰ علی اعلیٰ خاندا ن سے تعلق رکھتاتھا، پٹنہ میں انگریزی حاکموں کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے تھے، اس کے خاندان میں سے ایک ہماری حکومت میں اعزازی عہدے پر مامور تھااوردوسرا ہماری سرحد پر مجاہدین کی جماعت کی رہنمائی کررہا تھا، جوہماری فوجوں پر چھاپے ماررہی تھی‘‘۔ (ہما رے ہندوستانی مسلمان، ص۴۸)
ہنٹر نے نے حکومت میں اعزازی عہدے پرمامور ہونے کی جوبات کہی ہے، اس کا تعلق مولانا احمد اللہ ہی سے ہے، جس کی تصدیق ’’درمنثور ‘‘کی اس عبارت سے ہوتی ہے:
’’اپنی ریاست کے نظم ونسق سرکاری سطح پر اہل شہر کی خدمت اور رفاہ عام کے مشاغل کے ساتھ درس کا سلسلہ بھی جاری رکھا‘‘۔(ص۵۷)
۱۸۵۷ئ کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جوحالات پیداہوئے، اس میں اس حکمت عملی کو دیر تک اور دور تک جاری رکھنا ممکن نہ ہوسکا، چنانچہ جلدہی مولانا احمد اللہ اس حکمت عملی کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے اور وہ جو کہا گیا ہے کہ سر مونڈاتے ہی اولے پڑے، مسٹر ٹیلر نے مولانا کو گرفتار کرلیا، جس کا ذکر پہلے آچکاہے، تین مہینہ کی قید کے بعد رہائی ملی، مولانا پھراپنی پرانی روش پر چل پڑے۔
مولانا کے چھوٹے بھائی مولانا یحییٰ علی؛ جو پٹنہ تحریک آزادی کے روحِ رواں تھے، اور سید صاحب کی شہادت کے بعد بھی پوری جرأت، دلیری، مستعدی، اوربلند حوصلگی کے ساتھ اس مرکز کے نظم ونسق کوسنبھالے ہوئے تھے، واقعہ یہ ہے کہ انھوںنے مولانا احمد اللہ اور اپنے رفقاء کے ساتھ ۱۸۵۷ئ کے بعد حریت کی چنگاری کونہ صرف بجھنے سے بچانے کا کام کیاتھا؛ بلکہ جہد مسلسل سے اسے شعلہ جوالا اور آتش فشاں بنادیا تھا، جس کے پگھلے لاوے اور مادے ایک طرف برطانوی لشکر کو نقصان پہنچا رہے تھے، دوسری طرف ان کے سارے خواب اس کے نتیجے میں جل کرخاکستر ہوئے جارہے تھے، ظاہر ہے اس کے نتیجے میں ہونایہی تھا کہ اس تحریک کے قائد کو پابند سلاسل اورداخل زنداں کردیاجائے، چنانچہ ۱۸۶۴ئ میں وہ گھڑی آگئی جب مولانا یحییٰ علی ایک بڑی جماعت کے ساتھ قید کرلیے گئے، ایسے میں اس مرکز آزادی کو جاری رکھنے اوراس کی خدمات کو تسلسل عطا کرنے کے لیے مولانا احمداللہ کو کھل کر میدان میں آنا پڑا۔ انھوںنے جومثالی جدوجہد کی اس کے نتیجہ میں پٹنہ کے دارالاشاعت چھوٹا مال گودام سے سرحد تک جسے فوجی خفیہ زبان میںبڑا مال گودام کہتے تھے، مجاہدین کا تانتا لگ گیا،پنجاب کے وسیع و عریض علاقہ میں دوہزار میل (کلومیٹرنہیں) کی مسافت ان خطرات کے ساتھ طے کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، جگہ جگہ انگریزوں نے جاسوسوں کا جال پھیلا رکھا تھا،اس سے قطع نظر وہ اپنے قد وقامت اور زبان کی وجہ سے بھی خطرہ میں پڑتے تھے؛ لیکن اس خطرناک کام کے لیے جومنصوبہ بندی کی گئی اورجس ہوش مندی سے کام لیاگیا، اس کا ایک نقشہ مسٹر ہنٹر نے یوں کھینچا ہے۔لکھتاہے:
’’تمام راستے پر جماعت خانوںکاسلسلہ قائم کردیاگیا،اوران کاانتظام معتبر مریدو ں کے حوالہ کیاگیا،پتلی سڑک کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا، اس طرح سرحدی کیمپ کو جانے والا ہرباغی مختلف صوبوں میں بے خطر چلا جاتا تھا، اس کو یقین تھا کہ ہرپڑائو پر اس کوایسے دوست مل جائیں گے؛ جواس کے لیے چشم براہ ہیں، جماعت خانے جو راستے میں پڑتے، ان کے منتظم مختلف طبقات کے لوگ تھے،مگر تمام کے تمام انگریزی حکومت کا تختہ الٹنے میں ہمہ تن مصروف‘‘۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان،ص۱۳۵)
مرکزی کمان سنبھالے ابھی مولانا احمد اللہ کو کچھ ہی ماہ ہوئے تھے کہ ان کے خلاف انگریزوںنے شکنجہ کسنا شرع کیا، گرفتاری کے منصوبے بننے لگے؛ لیکن بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ثبوت کیسے فراہم ہو، کچھ گواہ مل جائیں تو اس میں بھی کامیابی نہیں مل رہی تھی۔بقول ہنٹر:
’’کیونکہ ان میں سے کسی ایک نے بھی گرفتارہونے کے خوف سے یاکسی بڑے لالچ سے اپنے تباہ شدہ امام کے خلاف گواہی دینے پرآمادگی ظاہر نہیںکی‘‘۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان، ص۱۳۶)
کوششیں جاری رہیں، اوربالآخر انگریزوںنے جھوٹی گواہی کے لیے میرمجیب الدین تحصیل دارساکن نارنول کوکھڑاکیا اور اسے یقین دلایاکہ اگر تم نے ان قیدیوں میں سے کچھ کو بہلا پھسلاکر مولانا احمد اللہ کے خلاف گواہ بنادیا، تو رہائی کے ساتھ تحصیل دار ی بھی تمہیں لوٹا دی جائے گی،اس لالچ میں اس نے قیدیوں کو بہلاناپھسلانا شروع کیا، لیکن قیدیوںکی سوچ یہ تھی کہ ہماری دنیاتو تباہ ہوہی چکی ہے، جھوٹی گواہی دے کر اپنی آخرت کو کیوںتباہ کریں۔ اس سوچ کو حوصلہ مولانا یحییٰ علی اور مولانا محمدجعفر تھانیسری کی وجہ سے ملتا تھا، انگریزوں کو جب یقین ہوگیاکہ ان دونوں کے رہتے اس مہم میں کامیابی نہیں مل سکتی تو ان دونوں حضرات کو سینٹرل جیل لاہور روانہ کردیا گیا، اب میدان صاف تھا، چنانچہ محمد شفیع وعبدالکریم وغیرہ سرکاری گواہ بن گئے اوران کی گواہی کی بنیادپر ماہ مئی ۱۸۶۵ئ میں مولانا احمد اللہ کو حبس دوام بعبور دریائے شور مع ضبطی جائدادکی سزاسنائی گئی اس طرح۵؍جون ۱۸۶۵ئ کو انڈمان میں جلا وطن اور قید کیے جانے والے آپ پہلے تاریخی شخص ہوگئے۔
انڈمان کی فضا انسانی زندگی کے لیے سازگار نہیں تھی، ۱۷۸۹ئ میں اسے آباد کرنے کی کوشش کی گئی؛ لیکن ۱۷۹۶ئ میں اس منصوبے کو ترک کردینا پڑا، انگریزوں نے اس جزیرہ کاانتخاب اس لیے کیاتھا تاکہ مجاہدین یہاں گھٹ گھٹ کر مرجائیں؛ بلکہ موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں،صاحب اعلام نے اس مصائب آلام کے لیے جوتعبیراختیا ر کی ہے اس سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، لکھتے ہیں: فالقوا علیہ من المصائب ما تقشعر منہا الجلودوا تقدر القلوب (الاعلام، ج ۷،ص۵۵)
مولانااحمداللہ جب انڈمان پہنچے تو انھیں ایک کچہری میں محرری کاکام سونپاگیا، آپ نے پانچ سال تک یہاں کام کیا؛ لیکن حب الوطنی کے نتیجے میں جوشدائد آنے تھے اورجن آزمائشوں سے گزرنا تھا، اس کی تکمیل ابھی نہیںہوئی تھی، چنانچہ لارڈ میووائسرائے ہند کے ایک مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوجانے کے بعدانگریزوں کا غصہ مسلمان قیدیوں پراترا اوراکثر مسلمان دور دراز کے خطرناک جزیروں میںبھیج دیے گئے۔ مولانا احمد اللہ کوبھی وائر آئی لینڈ بھیج دیا گیا اور اسپتال کے ایک شعبہ میں خدمت کا کام سونپا گیا، یہاں سترہ سال آپ نے مصائب وآلام کے ساتھ گزارے، جہاںوہ بقول غالبؔ ؎
پرئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو پرسانِ حال
اور مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
کا منظرسامنے تھا،مولانا عبدالرحیم نے ان کی علالت کے پیش نظر بار بار درخواست کی کہ انھیںا برڈین منتقل کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کی تیمارداری کی جاسکے، بڑی جدوجہد کے بعد ۲۰؍نومبر۱۸۸۱ئ کومولانا عبدالرحیم کووائٹر جانے کی اجازت دی گئی؛ لیکن ان کے وہاں پہنچنے سے قبل ہی ۲۱؍نومبر۱۸۸۱ئ مطابق ۲۸؍محرم ۱۲۹۸ھ شب دوشنبہ کوبوقت ایک بجے مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔مولانا عبدالرحیم نے تدفین کے لیے ابرڈین لے جانے کی اجازت مانگی تاکہ انھیں ان کے حقیقی بھائی یحییٰ علی کے قریب ابر ڈین میںدفن کیاجائے، یہ درخواست بھی رد کردی گئی،چنانچہ ڈنڈاس پیٹ میں جو وائپر (ویپر) سے تھوڑی دوری پر ہے، تدفین عمل میںآئی اور اس طرح اسلام کا یہ جاں باز سپاہی دیارِ غیر میں قیامت تک کے لیے آسودۂ خاک ہے، اور وطن کی دوگززمین بھی اسے میسر نہ آسکی۔
تبصرے بند ہیں۔