ام المومنین حضرت خدیجہؓ

ڈاکٹرغلام قادر لون

                ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ تاریخ اسلام کے پہلے باب کا زریں عنوان ہیں۔ یہ دنیا کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے عیش و عشرت کی زندگی ترک کرکے اپنی ساری دولت اپنے شوہر نامدار کے قدموں پر نچھاور کردی۔ طبقہ نسواں کیلئے ان کا اسوہ قیامت تک ایک نمونہ رہے گا کیونکہ عام خیال یہی ہے کہ عورت دولت کی رسیا ہوتی ہے۔ ام المومنین کے اسوہ حسنہ سے اس خیال کی تردید ہوگئی۔ عورت مال دار ہو اور شوہر مفلس تو اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ شوہر کی فرمانبردار نہیں ہوتی۔ شوہر صالح ہوتو چاہے دوسروں کی نظروں میں کتنا بلند مقام کیوں نہ رکھتا ہو سرکش بیوی کی نگاہوں میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ حضرت نوح  ؑاور حضرت لوط ؑکی بیویوں کی مثال موجود ہے۔ جو دونوں اپنے عظیم المرتبت شوہروں کی نافرماں تھیں۔ ان کے مقابلے میں فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کی مثال موجود ہے، جو اپنے وقوت کے سب سے سرکش انسان کی اہلیہ ہیں مگر شاہی ماحول میں رہتے ہوئے بھی صالح ؑمزاج عورتوں کیلئے ایک بہترین نمونہ ہے۔ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ بھی قیامت تک عورتوں کیلئے بہترین مثال ہے۔ ان کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ امام المرسلینﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں۔ تمام مسلمانوں کی ماں ہیں اور ان کے اثرات سے تاریخ اسلام کا ورق روشن ہے۔

                 ام المومنینؓ قریش کی ایک عالی نسب خاتون تھیں۔ ان کے والد کا نام خویلدبن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی تھا۔ قصی پر ان کا سلسلہ نسب آنحضرت ﷺ کے نسب سے ملتا ہے قصی کے چھ بیٹوں میں سے دو کے نام عبدمناف اور عبدالعزیٰ تھے۔ آنحضرت کا سلسلہ نسب عبد مناف سے ملتا ہے یعنی محمد ﷺبن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی۔ ام المومنین کا سلسلہ نسب عبدالعزیٰ سے ملتا ہے یعنی خدیجہ ؓ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی آنحضرت ﷺ کے پردادا ہاشم اور ام المومنین کے دادا اسد آپس میں چچازاد بھائی تھے۔ ام المومنین کے والد ہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا جن کے باپ اپنے قبیلہ کے ممتاز فرد تھے۔ ام المومنین کے والد خویلد قریش کے معزز تجارت پیشہ شخص تھے۔ جنہوں نے تجارت سے بڑی دولت کمائی تھی۔ عام الفیل سے پہلے ان کے گھر میں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام خدیجہ رکھا گیا۔ جس کا سال پیدائش تقریباً۶۸ق ھ ہے۔ اگر مشہور سیرت نگار ابن اسحٰق کی اس رائے کو مانا جائے کہ شادی کے وقت حضرت خدیجہ ؓ کی عمر ۲۸ سال اور رسول اللہ ﷺ کی پچیس سال تھی تو ان کا سال پیدائش ۵۶ ق ھ کے آس پاس ہوسکتا ہے جو عام الفیل سے تین سال قبل کا واقعہ ہے۔ خویلد کے متمول گھرانے میں لڑکی ناز و نعم میں پلی بڑھی۔ جب شادی کی عمر کو پہنچی تو ایک معزز شخص ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی کے ساتھ ان کا نکاح ہوا۔ ابو ہالہ سے حضرت خدیجہ ؓ کے دو لڑکے ہوئے ایک کا نام ہند اور دوسرے کا حارث تھا۔ شادی کے کچھ سال بعد ابوہالہ کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ کی شادی عتیق بن عائذمخزومی سے ہوئی جن سے ایک لڑکی ہوئی۔ اس کا نام بھی ہند تھا۔ اسی وجہ سے حضرت خدیجہ ؓ کو ام ہند بھی کہا جاتا تھا۔ عتیق بن عائذ مخزومی بھی شادی کے تھوڑی مدت بعد انتقال کرگئے۔بعض مورخین کے مطابق اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ کی شادی ان کے چچیرے بھائی صیفی بن امیہ سے ہوئی۔ وہ بھی جلد ہی انتقال کرگئے تاہم کچھ مورخین نے اس تیسری شادی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد معزز ین قریش کی طرف سے شادی کیلئے متعدد پیغامات آئے مگر انہوں نے انکار کیا۔

                ام المومنین کے والد خویلد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے’ حرب فجار‘ سے پہلے وفات پائی تھی۔ حربِ فجار کے وقت آنحضرت ﷺ چودہ سال کے تھے۔ ام المومنین کو تجارت کا شغف ورثے میں ملا تھا۔ وراثت میں جو دولت پائی تھی اس سے انہوں نے تجارت کرکے اس قدر سرمایہ کمایا کہ قافلہ میں ان کا سامان تجارت قافلے میں شامل دوسرے تمام تاجروں کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔ وہ مضاربت کے اصول پر کسی معتمدشخص سے معاملہ طے کرکے اسے سامان تجارت دے کر قریش کے قافلے کے ساتھ بھیجتی تھی۔ اس لئے انہیں امانت دار اشخاص کی تلاش رہتی تھی۔ مکہ میں ان دنوں آنحضرت ﷺ کی راستبازی اور دیانتداری کا چرچا تھا۔ حضرت خدیجہ نے آپ ﷺ کے بارے میں سنا تو پیغام بھیجا کہ آپ میرا سامان تجارت لے کر جائیں میں دوسروں کو جو معاوضہ دیتی ہوں آپ کو اس سے دوچنددونگی۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کیا۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اس پیش کش کو ہاتھ سے مت جانے دو اور جاکر معاملہ طے کولو چنانچہ آنحضرت ﷺ حضرت خدیجہ کے پاس گئے اور معاملے طے کیا۔ جب قافلہ کی روانگی کا دن آیا تو آپ ﷺ حضرت خدیجہ کا تجارتی سامان لے کر بصریٰ (شام) کیلئے قافلہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کے ساتھ اپنا غلام میسرہ بھی بھیجا۔ بصریٰ میں آپ ﷺ نے سامان تجارت بیچ کر خاصا نفع کمایا۔ قافلہ جب واپس ہوا اور مکہ پہنچا تو حضرت خدیجہ ؓ  نفع کی برکت دیکھ کر خوش ہوئیں۔ انہوں نے میسرہ سے آپ ﷺ کے اخلاق و عادات کے بارے میں سوالات پوچھے۔ میسرہ نے آپ ﷺ کے پاکیزہ اخلاق، حسن معاملہ اور صدق و دیانت کی ایسی تصویر الفاظ میں کھینچ دی کہ حضرت خدیجہ ؓ بہت متاثر ہوئیں۔ انہوں نے آپ ﷺ کو چار اونٹ معاوضہ میں دئے جب کہ اب تک وہ دو دو اونٹ معاوضے میں دیا کرتی تھیں۔ حضرت خدیجہ ؓ اپنی عفت، پاک دامنی اور شرافت کیلئے جانی جاتی تھی۔ مکہ کے لوگ انہیں ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے پکارتے تھے۔

                بصریٰ کے سفر سے واپسی کے تقریباً تین ماہ بعد حضرت خدیجہ ؓ  کی ایک سہیلی نفیسہ بنت منبہ نے بات چلائی۔ نفیسہ نے آنحضرت ﷺ کے پاس جاکر شادی کے بارے میں ان کا عندیہ معلوم کرنا چاہا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری آمدنی اتنی قلیل ہے کہ بیوی کی کفالت نہیں کرسکتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگر کسی کو پیغام بھیجوں تو مجھ جیسے نادار کو کون رشتہ دے گا؟ نفیسہ نے کہا کہ اگر آپ راضی ہوں تو وہاں آپ کا رشتہ کرادوں گی جہاں شرافت اور عالی نسبی بھی ہوگی اور مال و دولت میں بھی قریش کا کوئی خاندان اس کا ہمسر نہ ہوگا۔ آپ ﷺ نے پوچھا ایسی کونسی عورت ہوگی تو نفیسہ نے جواب دیا ’’خدیجہ بنت خویلد‘‘ آپ ﷺ نے پوچھا کیا وہ اس رشتہ کیلئے تیار ہوگی؟ نفیسہ نے جواب دیا کہ آپ اپنی منظوری دیں انہیں راضی کرنے کی ذمہ داری میری ہے۔ میں انہیں اس کے لئے آمادہ کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔

                عربوں میں عورتوں کی طرف سے شادی کی بات چلانا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ انہیں شادی بیاہ کی بات کرنے کی آزادی تھی مگر خاندانی اور سماجی روایات کی پاسداری کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔

                آنحضرت ﷺ نے نفیسہ کی بات کا تذکرہ اپنے چچاوٗں ابو طالب اور حمزہ ؓ سے کیا تو انہوں نے خوشی اور رضامندی کا اظہار کیا اور حضرت خدیجہ کے چچا عمر بن اسد کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم اپنے بھتیجے کیلئے آپ کی بھتیجی کا رشتہ مانگتے ہیں۔ حضرت خدیجہ ؓ نے بھی نفیسہ کی بات سے اپنے چچا عمر بن اسد اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو آگاہ کیا تھا۔ اس نے جب عمر بن اسد کے پاس آپ ﷺ کیلئے حضرت خدیجہ ؓ کے رشتے کا پیغام آیا تو انہوں نے خوشی اورمسرت کے ساتھ اسے منظور کرلیا۔ شادی کیلئے تاریخ مقرر کی گئی۔ مقررہ تاریخ پر ابو طالب، حضرت حمزہ اور بنو ہاشم کے تمام معزز اشخاص آنحضرت ﷺ کو لے کر حضرت خدیجہ ؓ کے مکان پر گئے۔ بعض روایات کے مطابق براتیوں میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ بھی شامل تھے۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ انکی پچپن کی دوستی کو دیکھتے ہوئے یہ قرین قیاس بھی ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ کے مکان پر ان کے چچا عمر بن اسد، ان کے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل اور خاندان کے دوسرے معززین نے برات کا استقبال کیا۔ ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا جس میں انہوں نے خدا کا شکر ادا کرنے کے بعد اپنے خاندان کے اوصاف اورآنحضرت ﷺ کے فضائل بیان کئے اور حضرت خدیجہ ؓ سے ان کے نکاح کا تذکرہ کیا۔

                ان کے بعد حضرت خدیجہ ؓ کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کھڑے ہوئے اور خطبہ میں خدا کا شکر بجا لانے کے بعد اپنے خاندان کے فضائل گنوائے اور کہا کہ ہمیں یا کسی عرب قبیلے کو بنی ہاشم کے فضائل سے انکار نہیں اس لئے ہم نے آپ سے یہ رشتہ منظورکرلیا ہے۔ قریش کے معززحضرات ! آپ گواہ رہیں ہم نے خدیجہ ؓ بنت خویلد کا نکاح محمد ﷺبن عبداللہ کے ساتھ کردیا۔ خطبہ نکاح کے بعد حضرت خدیجہ ؓ کے چچا جو ان کے ولی بھی تھے، کھڑے ہوئے یہ کہہ کر مکمل کردی کہ اے قریش کے معزز صاحبو! آپ سب حضرا ت گواہ رہیں میں نے اپنی بھتیجی خدیجہ ؓ بنت خویلد کا نکاح محمد ﷺبن عبداللہ کے ساتھ منظور کیا۔ مورخین کے بقول پانچ سو طلائی درہم اور بعض کے بقول بیس اونٹ مہر مقرر ہوئے، نیک دعاوٗں کے ساتھ تقریب اختتام کو پہنچی۔

                شادی کی تقریب ختم ہوئی تو دوسرے دن ابو طالب نے ولیمہ کی دعوت دی جس میں انہوں نے تمام بنی ہاشم کو بلایا اور حضرت خدیجہ ؓ کے خاندان والوں کو بھی اس میں مدعو کیا۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ کے چچا عمر بن اسدنے ایک شاندار دعوت دی جس میں انہوں نے اپنے قبیلہ کے افراد کو بلایا اور آنحضرت ﷺ اور بنی ہاشم کو بھی مدعو کرکے کھانا کھلایا۔ اس طرح اس بابرکت شادی کے تمام مراحل بحسن و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچ گئے۔

                شادی کے بعد ام المومنین نے اپنی ساری دولت آنحضرت ﷺ کے قدموں میں ڈال دی۔ آنحضرت ﷺ ان کے مکان میں منتقل ہوگئے اور اب ہجرت تک یہی ان کی قیام گاہ تھی۔ ہجرت کے بعد اس مکان پر حضرت علی کے بھائی عقیل نے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس پر قبضہ کیا۔ چونکہ ابو طالب کے وارث وہی تھے۔ انہوں نے ان تمام مکانات پر قبضہ کیا اور انہیں ابو سفیان کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ ان میں آنحضرت ﷺ کا مکان بھی تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ آپ کہاں قیام فرمائیں گے تو آپ ﷺ نے فرمایا’’عقیل نے گھر کہاں چھوڑا کہ اس میں اتروں۔ ‘‘

                ام المومنین کی عمر شادی کے وقت عام روایات میں چالیس سال بتائی جاتی ہے مگر ابن اسحاق نے آنحضور ﷺ کے ساتھ شادی کے وقت ان کی عمر ۲۸ سال بتائی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی عمر اس وقت پچیس سال تھی۔ شادی کی تقریب ۵۹۶ء میں انجام کو پہنچی۔

                ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے چھ بچے ہوئے جن میں دو لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں جن کی اجمالی تفصیل یہ ہے:

۱)            حضرت قاسم ؓ:  یہ رسول اللہ ﷺ کی پہلی اولاد تھی۔ انہیں کے نام پر آپ ﷺ کی کنیت ابو القاسم ہے۔ یہ کنیت آپ ﷺ کو بہت پسند تھی۔ ان کا انتقال بچپن ہی میں ہوا۔

۲)            حضرت عبداللہ ؓ :  ان کا لقب طیب اور طاہرہے۔ انہوں نے بھی صغرسنی ہی میں وفات پائی جس پرقریش نے کہا تھا کہ محمد ﷺ ابتر ہوگئے، قریش کے جواب میں ’سورہ الکوثر ‘ نازل ہوئی۔

                ام المومنین کے بطن سے آنحضرت ﷺ کی چار بیٹیاں ہوئیں :۔

۳)            حضرت زینب ؓ:  ان کی پیدائش شادی کے پانچ سال بعد ہوئی۔ ام المومنین نے ان کی شادی اپنی بہن ہالہ بنت خویلد کے بیٹے ابوالعاص بن ربیع سے کردی تھی۔ ابو العاص جنگ بدر میں اسیر ہوگئے تو ان کا زر فدیہ ادا کرنے کیلئے مکہ میں حضرت زینب کے پاس رقم نہ تھی۔ انہوں نے رقم کے بدلے اپنے گلے کا ہار بھیجا۔ یہ ہار ام المومنین نے شادی کے وقت انہیں دیا تھا۔ ہار جب مدینہ پہنچا تو رسول اللہ ﷺ نے ہار کو پہچان لیا۔ آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ صحابہ سے فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو ماں کی یاد گار بیٹی کو واپس کردیں۔ تمام صحابہ نے سر تسلیم خم کیا اور ہار واپس کردیا گیا۔ حضرت زینب نے اسلام کی راہ میں بہت تکالیف اٹھائیں۔ ابوالعاص بہت شریف الطبع تھے مگر حالت کفر میں تھے ۶ یا ۷ ھ میں اسلام لائے۔ حضرت زینب کے ابو العاص سے دو بچے تھے۔ ایک لڑکی جس کا نام اُمامہ تھا۔ آنحضرت ﷺ کو امامہ بہت عزیز تھیں۔ ایک دفعہ امامہ کو کندھے پر اٹھائے ہوئے مسجد نبوی میں آئے۔ اسی حالت میں نماز پڑھائی۔ رکوع میں جاتے وقت بچی کواُتار دیتے، کھڑے ہوتے تو پھر کندھے پر سوار کرتے۔ حضرت زینب کا ایک لڑکا علی تھا۔ وہ بچپن میں فوت ہوا تھا۔ حضرت زینب کا انتقال ۸ ھ میں ہوا۔

۴)            حضرت رقیہ  ؓ :  یہ بعثت نبوی سے سات سال پہلے پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی حضرت عثمان ؓسے ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے شوہر حضرت عثمان کے ساتھ حبش کی طرف ہجرت کی۔ آنحضرت نے دعادیتے ہوئے فرمایا کہ ابراہیم ؑ اور لوط ؑ کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کو لے کر ہجرت کی ہے۔ حضرت عثمان ؓ سے ان کے ایک بچہ عبداللہ ہوا جس نے صرف چھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ حبش سے یہ لوگ مکہ لوٹے۔ اس کے بعد مدینہ کو ہجرت کی حضرت رقیہ جنگ بدر کے دنوں میں بیمار تھیں۔ جس روز مدینہ بدر کی فتح کی خوشخبری پہنچی اسی دن حضرت رقیہ نے وفات پائی۔ ان کی تیمار داری کیلئے رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو غزوہ بدر کے موقعہ پر مدینہ ہی میں ٹھہرنے کا مشورہ دیا تھا۔

۵)            حضرت ام کلثوم ؓ:  یہ رسول اللہ ﷺ کی تیسری صاحبزادی ہیں۔ حضرت رقیہ ؓ کا انتقال ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی شادی حضرت عثمان ؓ سے کردی۔ حضرت ام کلثوم نے ۹ ھ میں وفات پائی۔ آنحضور ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت علی، حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ بن زید نے قبر میں اُتارا۔ حضرت ام کلثوم کی اولاد کے بارے میں مورخین خاموش ہیں۔

۶)            حضرت فاطمہ ؓ :  یہ آنحضرت ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ ان کی شادی ۶ ھ  میں حضرت علی کے ساتھ ہوئی۔ ان سے حضرت علی کے پانچ بچے ہوئے۔ حضرت حسن ؓ، حضرت حسین ؓ، حضرت محسن ؓ، حضرت ام کلثوم ؓ، حضرت زینب ؓ۔ حضرت فاطمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد ۱۱ ھ میں وفات پائی۔ چاروں صاحبزادیوں نے دین کی راہ میں تکلیفیں اٹھائی ہیں۔

                ام المومنین کی جو اوالادیں پہلے شوہروں سے تھیں، ان میں مورخین دو اور بعض نے تین کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک لڑکے کا نام’ ہند‘ تھا۔ انہوں نے اسلام قبول کیا۔ بڑے فصیح اللسان تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے اوصاف اس طرح بیان کرتے تھے۔ کہ اوصاف انہی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ حضرت حسن ؓ کو ان سے بہت محبت تھی اور وہ انہیں ماموں کہہ کرپکارتے تھے۔ ہند جنگ جمل میں حضرت علی ؓکی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ایک اور لڑکے کا نام طاہر تھا۔ انہیں رسول اللہ ﷺ نے یمن کا حاکم بناکر بھیجا تھا۔ خلافت صدیقی میں انہوں نے مرتدین کے خلاف جنگ میں نمایا ں کارکردگی دکھائی۔

                ام المومنین ؓکے ایک لڑکے کا نام ہالہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ آرام فرمارہے تھے کہ ہالہ آگئے اور بیٹھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ جب بیدار ہوئے تو انہیں سینے سے لگا کر پیار کیا۔

                ام المومنین کے ایک بھائی کا نام عوام تھا۔ حضرت زبیر جو حواری رسول کے نام سے مشہور ہیں۔ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، انہی عوام کے فرزند ہیں۔

                ام المومنین کی دو بہنیں تھیں۔ ایک کا نام ہالہ تھا۔ ہالہ اسلام لائی تھیں۔ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد زندہ تھیں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ حضرت عائشہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ہالہ آئیں اور دروازے پر آواز دے کر اندار آنے کی اجازت طلب کی۔ ان کی آواز حضرت خدیجہ ؓ سے ملتی جلتی تھی۔ آپ ﷺ ’ہالہ آئیں ہالہ آئیں ‘ کہتے ہوئے لپک کردروازے کی طرف دوڑے۔

                ام المومنین کی دوسری بہن کا نام رقیقہ تھا۔ ان کی بیٹی امیہ اسلام لائی۔ وہ صحابیہ ہے۔

                ام المومنین کے ایک قریبی حکیم بن جزام تھے جن کا شمار رئوساء قریش میں ہوتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے تھے۔ حالت کفر میں بھی شریف اور بردبار تھے۔ بعثت سے قبل رسول اللہ ﷺ کے خاص دوستوں میں تھے۔ آٹھ ہجری تک ایمان نہیں لائے۔ یہ وہی حکیم بن جزام ہیں، جو حضرت خدیجہ ؓ کے لئے کھانا لیجارہے تھے۔ جب وہ آپ ﷺ اور بنی ہاشم کے ساتھ شعیب ابی طالب میں محصور تھیں۔

                ام المومنین بے حد عقلمند، زیر ک اور دور اندیش تھیں۔ رسول اللہ ﷺ سے شادی کے بعد انہوں نے اپنی ساری دولت آنحضور ﷺ کے قدموں میں رکھ دی کہ وہ جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ بچوں کی تربیت اور گھر کے انتظام کا کام انہیں کے ذمہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے بچوں کی بہترین ماں اور گھر کی بہترین منتظم کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ وہ پچیس سال رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں رہیں۔ ان کی فرمانبرداری، سلیقہ شعاری اور فہم و فراست نے اس قدر گرویدہ بنا لیا تھا کہ ان کی حیات میں آپ ﷺ نے دوسری شادی نہیں کی۔ بعثت سے کچھ پہلے جب رسول اللہ ﷺ غار حرا میں چلے جاتے تھے تو ام المومنین کئی کئی دنوں کیلئے کھانا بنا کر کے رکھ دیتیں۔ جسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس غار میں جاتے۔ غار میں جب پہلی وفعہ فرشتہ وحی لے کر نازل ہو اتو آپ ﷺ گھر آگئے اور ڈر اور خوف کی وجہ سے حضرت ام المومنین سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھادو۔ جب ام المومنین نے ان پر کپڑا ڈال دیا تو کچھ دیر بعد آپ ﷺ کو افاقہ ہوا اور حالت سنبھلی تو ام المومنین نے پوچھا کیا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج عجیب ماجرا پیش آیا۔ میں غار میں تھا کہ آسمان سے ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہا ’پڑھ‘میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ اس پر فرشتے نے آگے بڑھ کر مجھے سینے سے لگایا پھر چھوڑ دیا اور کہا ’’پڑھ‘‘ میں نے پھر جواب دیا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ فرشتے نے پھر مجھے سینے سے لگا کر چھوڑ دیا اور کہا۔ ’’پڑھ‘‘ میں نے پھر کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ اس پر فرشتے نے پھر مجھے سینے سے لگایا اور کہا:

                ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا، ہاں ! پڑھ تیرا رب عزت و شان والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ کچھ بتایا جو وہ جانتا نہ تھا۔ ‘‘(العلق ۱ تا۵)

                یہ پڑھ کر فرشتہ غائب ہوگیا تو میں گھر آگیا۔ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگتا ہے۔ یہ ماجرا سن کرام المومنین نے آپ ﷺ کو دلاسا دیا اور کہا:۔

                ’’ہرگز نہیں۔ بخدا آپ کو اللہ تعالیٰ رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلح رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، درماندوں کا بوجھ برداشت کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے معاملہ میں لوگوں کی اعانت کرتے ہیں ‘‘۔

                اس کے بعد ام المومنین  آپ ﷺ کو اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عبرانی زبان جاتے تھے اور تورات و انجیل کے عالم تھے۔ انہوں نے جب سارا ماجرا سنا تو کہا:

                ’’یہ تو وہ ناموس ہے جو موسیٰ پر اترا تھا۔ کاش میں اس وقت طاقتور ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکالے گی۔‘‘

آپ ﷺ نے یہ الفاظ سن کر کہا:

                ’’کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟‘‘

                ورقہ نے جواب دیا:

                ’’ہاں جو کوئی بھی وہ چیزلایا جو آپ لائے ہیں تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی اگر میں نے تمہارازمانہ پایا تو میں تمہاری پوری مدد کروں گا‘‘۔

                ام المومنین رسول اللہ ﷺ کو لے کر واپس آگئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اعلانیہ دعوت دینی شروع کی تو قوم نے سخت مخالفت کی ور تمسخر و تضحیک سے لے کر ایذا رسانی کے مختلف طریقوں سے رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو تنگ کیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ قریش نے ایکاکرکے آنحضرت ﷺ، انکے گھر والوں اور بنو ہاشم کو مکہ سے باہر دو پہاڑوں کے درمیان شعب ابی طالب میں محصور کیا اور ان سے مکمل بائکاٹ کیا۔ شعیب ابی طالب میں ابو طالب، حضرت خدیجہ ؓ، حضرت خدیجہ ؓ اور تمام بنو ہاشم تھے۔ یہ بائکاٹ تین سال جاری رہا اور ۱۰ نبوی میں اس وقت ختم ہوا جب اس کے بارے خود قریش کے اندر اختلاف ہوا۔ شعیب ابی طالب کے تین سال انتہائی تکلیف دہ اور کٹھن تھے۔ بھوک پیاس اور پریشانی سے ام المومنین کی صحت متاثر ہوگئی تھی۔ گھاٹی سے نکلنے کے بعد بیمار رہنے لگیں۔ بہت کمزور اور نحیف ہوگئی تھیں۔ اسی حالت میں امت کی اس عظیم محسنہ نے جان جانِ آفرین کے سپرد کی۔ اس وقت نماز جنازہ شروع نہیں ہوئی تھی۔ آنحضور ﷺ نے خود قبر میں اُتارا۔ مقام حجون میں دفن کی گئیں۔ اس طرح ۱۰ نبوی ؍ ۶۲۰ء میں ام المومنین رسول اللہ کی زوجیت میں ۲۵ برس گزارنے کے بعد ۶۵ سال کی عمر میں جہاں فانی سے رخصت ہوگئیں۔

                ام المومنین صفات حسنہ کا مجسمہ تھیں۔ اولوالعزمی، بلند ہمتی، سیر چشمی، فہم و فراست، صبر و شکر، خلوص و ایثار اور تقویٰ و پرہیز گاری میں اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ پہلی مسلمان خاتون تھیں بلکہ گھر میں رسول اللہ ﷺ پر سب سے پہلے آپ ہی ایمان لائی تھیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جب کچھ دنوں کے لئے وحی رُک گئی تو آپ پہاڑ پر پہنچے جہاں آسمان سے آواز آئی ’’اے محمد’’ آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نے آسمان کی طرف نظر دوڑائی تو دیکھاجبرائیل آدمی کی صورت میں افق پر کھڑے ہیں۔ ‘‘ رسول اللہ ﷺ جب گھر لوٹے تو ام المومنین نے کہا کہ آپ کہاں تھے؟ میں نے آپ کی تلاش میں آدمی دوڑائے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں سارا واقعہ سنایا جس پر ام المومنین نے یہ الفاظ کہے: آپ خوش ہوجائیں اور ثابت قدم رہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، مجھے اُمید ہے کہ آپ اس اُمت کے نبی ہونگے۔‘‘ ام المومنین پیکر صبر و ثبات تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ دلاسا دیا جس روز ام المومنین نے وفات پائی اس کے تین روز بعد آپ ﷺ کے شفیق چچا ابو طالب بھی انتقال کرگئے۔ اس بنا پر اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ (غم کا سال) کہتے ہیں۔ یہ دونوں آپ ﷺ کے بڑے سہارے تھے۔

                ام المومنین کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ وفات تک ان کی بے حد تعریف کیا کرتے تھے۔ ان کی تعریف سن کر حضرت عائشہ ؓ فرماتی تھیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی کسی زوجہ پر اس قدر رشک نہیں کیا جتنا خدیجہ ؓ پر حالانکہ میں نے انہیں دیکھا تک نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب بھی گھر میں کوئی بکری ذبح ہوتی یا کوئی اچھی چیز پکتی تو اس کا کچھ نہ کچھ حصہ حضرت خدیجہ ؓ کی سہیلیوں کو بھیجتے۔ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ آئی۔ وہ حجرہ عائشہ ؓ میں تھے رسول اللہ ﷺ بڑے تپاک سے ملے اور دیر تک دریافت حال کرتے رہے کہ جب ہم مکے سے آئے تو تم کس حال میں رہیں، یہاں کس طرح پہنچیں۔ بڑھیا بھی دیر تک باتیں کرتی رہی۔ جب وہ چلی گئی تو حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہ یہ بڑھیا کون تھی۔ اس نے فضول باتوں میں آپ کا اتنا وقت لیا اور آپ بھی اس کے فضول باتیں سنتے رہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا عائشہ یہ معمولی عورت نہیں ہے اس کا نام حسانہ مزینہ ہے۔ یہ خدیجہ ؓ کی عزیز سہیلی ہے۔ وہ اس سے بہت محبت کرتی تھیں۔ میں اس کے ساتھ اچھی طرح پیش کیوں نہ آوٗں۔ حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ شادی کی بات پہلے پہل سفینہ نے چلائی تھی۔ فتح مکہ کے بعد وہ اسلام لانے کیلئے حاضر خدمت ہوئی تو رسول اللہ ﷺ دیر تک اس کے ساتھ باتیں کرتے رہے اور بڑی شفقت اور مہر بانی سے پیش آئے۔ حضرت خدیجہ ؓ کا جب بھی ذکر آتا تو آنکھیں اشکبار ہوتیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ سے آپ ﷺ نے فرمایا:۔

                ’’میں اس کی تعریف کیوں نہ کروں۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگوں نے میرا انکار کیا۔ اس نے میری تصدیق کی جب دوسروں نے مجھے جھٹلایا اس نے اس وقت اپنا مال میرے قدموں پر رکھ دیا جب دوسروں نے مجھے محروم کیا۔ اس سے خدا نے مجھے اولاد دی اور دوسری بیویوں سے اولاد نہیں ہوئی۔‘‘ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے حضرت فاطمہؓسے فرمایا: فاطمہ تم اپنے زمانہ کی عورتوں سے افضل ہو، آسیہؑ اپنے زمانے کی عورتوں سے افضل تھی۔ مریم ؑپچھلی قوموں کی عورتوں کی سردار ہیں اور خدیجہ ؓ میری اُمت کی تمام عورتوں سے افضل ہیں۔ ‘‘

 ٭٭٭

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔