کتاب الہند

شبیع الزماں

البیرونی دسویں صدی عیسوی کے مشہور ایرانی اسکالر تھے۔ فلسفہ، منطق، علم ہیئت، فلکیات، تاریخ، جغرافیہ سے لے کر زبان و ادب تک ہر اصنافِ فن میں انھوں نے اپنے علمی کمالات کا مظاہرہ کیا ہے۔

البیرونی کو Father of Indology بھی کہا جاتا ہے۔ Indology سے مراد ہندوستانی سماج کی تاریخ، کلچر، لٹریچر اور زبانوں کا مطالعہ ہے۔گیارہوی صدی کے ابتدا میں البیرونی نے ہندوستان کا سفر کیا اور ہندوستان کے حالات پر ایک مفصل کتاب ’ کتاب الہند ‘ تصنیف کی۔

اس کتاب میں البیرونی نے ہندو فلسفہ، رسم رواج اور روایات کا معروضی مطالعہ پیش کیا ہے۔ کتاب کی تصنیف کے لیے البیرونی نے ہندوؤں کی مذہبی زبان سنسکرت میں مہارت حاصل کی اور وہ ہندو مذہب کے اصحابِ علم اور مبلغوں تک پہنچے اور ان سے استفادہ کرکے ہندو مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

کتاب کی سب سے نمایاں خصوصیت معروضیت اور سائنٹیفک اپروچ ہے ۔ کوئی مذہبی تعصب، قومی روایات اس اپروچ کو متاثر نہیں کر سکی۔ شروع سے آخر تک کتاب تحقیقی پیرایے میں لکھی گئی ہے۔ پوری کتاب میں ہر جگہ دلائل ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے اقتباسات سے نقل کئے گئے ہیں، مصنف نے اپنی ذاتی رائے کو شامل نہیں کیا ہے۔

البیرونی لکھتے ہیں:

” ہم نے اس کو اس طرح لکھ ڈالا کہ اس میں کسی فریق کی طرف کوئی قول ایسا منسوب نہیں کیا جو اسکا نہیں ہے اور نہ اس کا کلام نقل کرنے سے اگر وہ حق کے مخالف اور اہل حق کو اس کا سننا گراں ہو ، احتراز کیا ہے۔ یہ کتاب بحث و مناظرہ کی کتاب نہیں ہے کہ ہم مخالف کے دلائل بیان کرکے جو ان میں سے حق کے خلاف ہیں، ان کی تردید کریں یہ صرف نقل و حکایت کی کتاب ہے۔ “

مولانا آزاد البیرونی کے بارے میں لکھتے ہیں :

” وہ بجا طور پر الفارابی اور ابن رشد کی صف میں جگہ پانے کا مستحق ہے۔ جس طرح ان دونوں نے یونانی فلسفے کے تراجم کی تصحیح کا کام انجام دیا تھا ، اسی طرح البیرونی نے علم ہیئت اور جغرافیے کی از سر نو تصحیح و تہذیب کی اور ہندوستانی علوم کو نئے سرے سے عربی میں مدون کیا۔‘‘

لیکن البیرونی اس صف میں نمایاں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص بلند تر جگہ بھی رکھتا ہے۔ ابو نصر فارابی اور ابن رشد دونوں اس زبان سے نا واقف تھے۔ جس زبان کے فلسفے کی تصحیح و تہذیب میں مشغول ہوئے تھے۔ انھوں نے تمام تر اعتماد عربی کے قدیم تراجم پر کیا۔

یہی وجہ ہے کہ انکی تصحیح مکمل تصحیح نہ ہوسکی اور بعض غلط فہمیاں جو عہد تراجم میں پیدا ہوگئی تھیں وہ آخر تک دور نہ ہوسکیں۔ لیکن البیرونی نے نظر و تحقیق کی بالکل دوسری راہ اختیار کی۔ اس نے جن علوم کو اپنا موضوعِ نظر قرار دیا انھیں خود ان کی اصل زبانوں میں پڑھنے کی کوشش کی۔ ہندوستان کے علوم کی اس نے جس قدر تحقیقات کی ، سنسکرت کی تحصیل کے بعد کی۔ “

گوکہ یہ کتاب ایک ہزار سال پرانی ہے لیکن یہ آج بھی ہندو مذہب اور سماج کو سمجھنے میں معاون ہے۔

تبصرے بند ہیں۔