مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ: اتحاد امت کے داعی
الطاف جمیل شاہ
اختلاف رائے کوئی برائی نہیں بلکہ علمی میداں کا حسن ہے مگر اختلاف تنقید اور تزلیل میں کافی فرق ہے میرے مطابق اختلاف کا حق ہر ایک کو حاصل ہے اور هونا بھی چاہیے اور تنقید کا حق ہر ایک کے لئے نہیں هوتا جبکہ تزلیل تو ویسے بھی ناروا میں سے بھی ناروا فعل ہے ہر آدمی کی افضلیت یا تو اسکے کردار عمل و اخلاق یا علمی خدمات کی بنیاد پر هوتا ہے اگر هم سید مودودی رحمہ اللہ کو دیکھ کر اور صدق دل سے جائزہ لیں تو بالکل اسلام کی تاریخ میں امت مسلمہ کے بڑے بڑے اور نامور مجددین اور مفکرین جیسا کے عمر بن عبدالعزیز اور شیخ احمد سرہندی رح سید احمد رح ،،شاہ اسماعیل شہید،، کے بعد "تجدید احیائے دین” کے میدان میں ایسے دور میں سید مودودی رحمہ اللہ” جیسا مفکر دیکھنے کو ملتے ہیں جب پوری دنیا میں ہر طرف سے اسلام پر اغیار حملہ آور تھے مغربی تہذیب سوشلزم کیمونزم عقلیت پرست الحاد کی نظاموں کی کشمکش کے ضد میں تھی تو اسی دور میں سید مودودی رحمہ اللہ` ہی آگے بڑھے سید نے اتحاد امت کے بارے میں بہت لکھا قارئین کی نظر کچھ باتیں شاید کہ ہمارے لئے مشعل راہ بن سکیں اس وقت جب ہمارے ہاں اختلاف و افتراق کی بہار عروج پر ہے۔
سید مودودی رحمہ اللہ نے خود اپنے مریدوں کو تحقیق کی راہ دکھائی ہے اپنی تقلید کی نہیں۔ اسکے علاوہ جہاں تک سید مودودی رحمہ اللہ کی تصانیف کا تعلق ہے تقریبآ 120 سے کچھ زیادہ مدلل ایسی کتابیں موجود ہے جو قیامت تک انشاءاللہ باطل نظریات کے حامل غباروں سے هوا نکالنے کے لیے کافی ہے۔ مسلمانوں کے حلقوں میں معترضین متعصبانہ رویہ اپنا کر مودودی رحمہ اللہ پر جا بجا، اعتراضات، کاٹ چھانٹ،، سیاق و سباق سے ہٹ کر الفاظ کو اپنی جامہ پہنانا اور اپنی مرضی کا مطلب گھڑنا اور بے وقعت فتاوی دینا انکا شیوہ رہا اگر کوئی صاحب مسلکی اندھیروں سے نکل کر یا موجودہ چیلنج پر سید مودودی رحمہ اللہ اور اسکی تصانیف کا بغور مطالعہ کرے تو یقین ہے کہ اختلاف کے باوجود مودودی رحمہ اللہ کو خراج تحسین پش کئے بناء نہیں رہئے گا مخالفین کی مخالفت سے بے پرواہ ہوکر سید مودودی رحمہ اللہ اپنے کام میں مگن رہے اور پوری قوت سے راہ عظیمت میں کھڑے رہے اپنی تحریر و تقریر میں لچک کا کہیں مظاہرہ نہیں کیا بلکہ جو حق تھا اسے بیان کیا تحریر کیا بلندیوں پر پہنچ کر بھی علم کے افق پر نمایاں حیثیت پر فائز ہوکر بھی کبھی کسی کی تذلیل و تحقیر نہیں کی کسی مخالف سے کبھی مقابلہ آرائی نہیں کی اپنی تو چھوڑے دوسرے علماء پر جب تنقید کے نشتر چلے تو سید مودودی رحمہ اللہ تڑپ اٹھے ۔ یہ 1936ء کی بات ہے کہ چند جیّد علما کی طرف سے مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمیدالدین فراہی کے خلاف کفر کا فتویٰ شائع ہوا۔
مولانا مودودی نے تڑپ کر اس کے جواب میں لکھا: ’’مؤمن کو کافر کہنے میں اتنی ہی احتیاط کرنی چاہیے، جتنی کسی شخص کے قتل کا فتویٰ صادر کرنے میں کی جاتی ہے، بلکہ یہ معاملہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کسی کو قتل کرنے سے کفر میں مبتلا ہونے کا خوف تو نہیں ہے، مگر مؤمن کو کافر کہنے میں یہ خوف بھی ہے کہ اگر فی الواقع وہ شخص کافر نہیں ہے، اور اس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان موجود ہے، تو کفر کی تہمت خود اپنے اوپر پلٹ آئے گی۔ پس، جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہو، اور جس کو اس کا کچھ بھی احساس ہو، وہ کبھی کسی مسلم کی تکفیر کی جرأت نہیں کر سکتا جو شخص مسلمان کی تکفیر کرتا ہے، وہ دراصل اللہ کی اُس رسی پر قینچی چلاتا ہے، جس کے ذریعے سے مسلمانوں کو جوڑ کر ایک قوم بنایا گیا ہے اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ علمائے دین میں کافروں کو مسلمان بنانے کا اتنا ذوق نہیں، جتنا مسلمانوں کو کافر بنانے کا ذوق ہےاختلاف امت کے حوالے سید کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اختلافات کی فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔
فکر و نظر کےاختلافات اغراض اور خواہشات کے اختلافات گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات ، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نِت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور اُبھرتے چلے آ رہے ہیں ۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اُس میں مزاحِم ہوتا ہے اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اُسے بگاڑنے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا ۔ اِس صورتحال نے ہر پہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ کام کر رہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو ۔ اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہو گئے ہیں تو ہمیں اختلافات اور مخالفت و مزاحمت کے اِس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے ذہن کو اُن بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب ، یا کم از کم باشندگانِ پاکستان متفق ہو سکیں اور جن پر متفق ہو کر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجائے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔ معیار حق کے بارے سید کہتے ہیں غلط بات نہ اِس دلیل سے صحیح ھو سکتی ھے کہ وہ پہلے سے ھوتی چلی آ رھی ھے اور نہ اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہی دلیل کافی ھے کہ بڑے بڑے لوگ اِس میں مبتلا ھو چکے ھیں ۔ حق کا اِثبات اگر ھو سکتا ھے تو خدا کی کتاب اور رسولوں کی سُنّت ھی سے ھو سکتا ھے ۔
سید کہتے ہیں میں نے فتویٰ دینے کی غلطی آج تک کبھی نہیں کی ۔ فتویٰ جو شخص بھی مجھ سے پوچھتا ھے میں ہمیشہ اُس کو یہی جواب دیتا ہوں کہ مجھے مَنصبِ اِفتا حاصل نہیں ھے ۔ البتہ جو لوگ مسائل میں میری تحقیق پوچھتے ہیں اُن کو اپنے علم کے مطابق جواب دے دیتا ہوں ۔ اور جواب دیتے وقت فقہ کی مُستند کتابوں سے مراجعت کرنے کا پورا التزام کرتا ہوں ۔ مطالعہ و تحقیق کے بغیر اظہارِ رائے سے میں نے ہمیشہ اجتناب کیا ھے ۔ یہ اور بات ھے کہ کبھی محض اظہارِ رائے پر اِکتفا کر جاتا ہوں اور دلائل و مآخذ بیان کرنے کا موقع نہیں پاتا ۔
مخلتف جماعتوں کے بارے میں سید فرماتے تھے کہ مذہبی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف نہیں مددگار هونی چاہیے اگر مقصود خدا کے لئے کام کرنا هو تو ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش هونا چاہیے کہ جس خدا اور رسول کے لیے میں کام کرتا هوں اسی خدا اور رسول کے لیے یہ بھی کام کرتا ہے۔
سید کہتے ہیں کہ اِس میں شک نہیں کہ ایک ہی مقصد اور ایک ہی کام کے لیے مختلف جماعتیں بننا بظاہر غلط معلوم ہوتا ھے اور اس میں انتشار کا بھی اندیشہ ھے ۔ مگر جب نظامِ اسلامی درہم برہم ہو چکا ہو اور سوال اُس نظام کو چلانے کا نہیں بلکہ اُس کے از سرِ نَو قائم کرنے کا ہو ، تو ممکن نہیں ھے کہ ابتدا ہی میں وہ ” الجماعۃ ” وجود میں آ جائے جو تمام اُمّت کو شامل ہو ، جس کا التزام ہر مسلمان پر واجب ہو ، اور جس سے علیحدہ رہنا جاہلیت اور علیحدہ ہونا ارتداد کا ہم معنی ہو ۔ آغاز کار میں اس کے سوا چارہ نہیں کہ جگہ جگہ مختلف جماعتیں اس مقصد کے لیے بنیں اور اپنے اپنے طور پر کام کریں۔
یہ سب جماعتیں بالآخر ایک ہو جائیں گی اگر نفسانیت اور افراط و تفریط سے پاک ہوں اور خلوص کے ساتھ اصل اسلامی مقصد کے لیے اسلامی طریق پر کام کریں ۔ حق کی راہ میں چلنے والے زیادہ دیر تک الگ نہیں رہ سکتے ۔ حق ان کو جمع کر کے ہی رہتا ھے ، کیونکہ حق کی فطرت ہی جمع و تالیف اور وحدت و یگانگت کی متقاضی ھے ۔ تفرقہ صرف اُس صورت میں رُونما ہوتا ھے جب حق کے ساتھ کچھ نہ کچھ باطل کی آمیزش ہو یا اوپر حق کی نمائش ہو اور اندر باطل کام کر رہا ہو ۔ "
جماعت اسلامی کے بارے میں سیّد کہتے ہیں ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ بسلامتی ہوش و حواس ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ صرف ہماری ہی جماعت حق پر ھے اور جو ہماری جماعت میں نہیں ھے وہ باطل پر ھے ۔ ھم نے کبھی لوگوں کو اپنی جماعت کی طرف دعوت نہیں دی ھے ۔ ہماری دعوت تو صرف اُس فرض اسلام کی شہادتِ حق کی طرف ھے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر اور آپ پر یکساں عائد ہوتا ھے ۔ جماعت اسلامی میں شامل ہونے کے بارے سید کہتے ہیں :
جماعت اسلامی میں شامل ہونے یا شامل رہنے کے لیے میری تحریروں سے اتفاق ہرگز ضروری نہیں ہے۔ یہ بات میں نے اُسی روز کہہ دی تھی جس روز جماعت اسلامی کی تشکیل ہوئی تھی میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نے نہ کسی دینی منصب کا دعوی کیا ہے اور نہ ہی اپنی ذات کی طرف دعوت دی ہے۔ اس لیے سرے سے میرے کوئی معتقدین ہی نہیں ہیں۔ میں اور میرے ساتھی سب اللہ اور اُس کے رسول علیہ السلام کے معتقدین ہیں اور ہمارا تعلق صرف راہ خدا میں ہم سفری کا ہے ۔ مختلف مسلکوں کے بارے سید کہتے ہیں میں خود حنفی طریقے پرنماز پڑھتا ہوں مگر اہل حدیث شافعی، مالکی، حنبلی سب کی نماز کو درست سمجھتا ہوں اور سب کے پیچھے پڑھ لیا کرتا ہوں۔
سید پر تنقید کرنے والے کے بارے سید کی رائے ہے سید کی صاحبزادی اپنے ابا کا ایک واقعہ اپنی کتاب شجرہاۓ سایہ دار میں لکھتی ہیں۔ ابا جان اچھرہ کی مسجد میں بچوں کو بھی جمعے پڑھنے ساتھ لے جاتے تھے ۔ مسجد کے خطیب ایک مولانا صاحب تھے جو ابا کے بہت مخالف تھے ۔ ایک جمعے میں ابا سامنے ہی بیٹھے تھے کہ مولانا صاحب بولے : مسلمانو،، یاد رکھو ،اگر کوئی مودودیہ مرجائے ،اور اس کو دفنا دیا جائے، اور اس کی قبر پر پودا نکل آئے ،اور اس پودے کو کوئی بکری کھا لے ،تو یاد رکھو اس بکری کا دودھ پینا بھی حرام ہے۔
اس کے باوجود ابا جی انھی خطیب صاحب کے پیچھے نماز پڑھتے۔ شام کو جماعت کے کارکنان نے ابا سے پوچھا یہ جو لوگ آپ کو برا بھلا کہتے ہیں ان کی پیچھے ہم نماز کیونکر پڑھیں ؟ ابا جی نے کہا : انھی کے پیچھیں پڑھیں، کیونکہ جتنا قرآن و سنت سے میں واقف ہوں وہاں کہیں نھیں لکھا جو مودودی کو گالیاں دے اس کے پیچھے نماز نھیں ہوتی دوسرا میرے بارے میں وضاحتیں دے کر اپنا وقت ضائع مت کیا کریں رب الکریم ہمیں اس مصیبت ۔ انتشار و افتراق امت کے شر سے محفوظ فرمائے جس نے ہمارے عروج کو پستی میں دھکیل دیا۔
تبصرے بند ہیں۔