حبیب بدر ندوی
شیشہ دل چور ہوا زخم سے سینہ معمور ہوا
میں نے اپنا وہ حال کیا کہ رونے پہ مجبور ہوا
…
اہل دنیا اہل ستم ہیں عبث ہے ان سے امید وفا کی
دلکش باتوں میں انکی آکر عبث میں مسرور ہوا
…
عشق کیا ہے؟ میں کیا جانوں یہ تو ایک تماشہ ہے
شاعری کر کے میں بھی آخر عشق میں مشہور ہوا
…
مطلب کے بندے مطلبی کر کے نازاں ہیں قسمت پر
دھوکا کھا کر میں ہی آخر سادہ لوحی میں مشہور ہوا
تبصرے بند ہیں۔