شیشہ دل چور ہوا، زخم سے سینہ معمور ہوا

حبیب بدر ندوی

شیشہ دل چور ہوا زخم سے سینہ معمور ہوا
میں نے اپنا وہ حال کیا کہ رونے پہ مجبور ہوا

اہل دنیا اہل ستم ہیں عبث ہے ان سے امید وفا کی

دلکش باتوں میں انکی آکر  عبث میں مسرور ہوا

عشق کیا ہے؟ میں کیا جانوں یہ تو ایک تماشہ ہے
شاعری کر کے میں بھی آخر عشق میں مشہور ہوا

مطلب کے بندے مطلبی کر کے نازاں ہیں قسمت پر
دھوکا کھا کر میں ہی آخر سادہ لوحی میں مشہور ہوا

تبصرے بند ہیں۔