مولانا واضح رشید ندوی:عظیم خانوادے کے عظیم فرزند
راحت علی صدیقی قاسمی
سرزمین ہند علم و ادب کا گہوراہ ہے، اس ملک کی مٹی میں علم کی خوشبو بسی ہوئی ہے، اس کی خوبصورتی، دلکشی و جاذبیت ،اس کے جائے وقوع ،موسم، آب و ہوا کے باعث ہے، اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، البتہ اس حقیقت کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ ہندوستان علم وادب کا گہوارہ ہے اور بہت سی عظیم شخصیات نے اس ملک کی تاریخ کو تابناک بنایا ہے،بہت سے خانوادے ہیں جن کے باعث یہ ملک علم کے میدان میں مثال ہونے کا شرف رکھتا ہے، اور وہ خانودے تاریخ کے اوراق پر ستاروں کی مانند چمک رہے ہیں اور اپنی خدمات جلیلہ کی بنیاد پر تاریخ ہند کا مرکزی کردار ہیں۔
خانوادۂ ولی اللہ جس نے علمِ حدیث و تفسیر میں نمایاں کارنامے انجام دیے، کفر و الحاد پر کاری ضرب لگائی، باطل طاقتوں کو منھ توڑ جواب دیا،اسلام کی ترجمانی و تبلیغ اشاعت کے میدان میں تابندہ نقوش ثبت کئے،جو نشان منزل ہیں ، ان پر قدم رنجہ ہو کر اس میدان میں کامیابی و کامرانی کے اعلی منازل طے کئے جاسکتے ہیں ، خانوادہ قاسمی نے درس و تدریس منطق و فلسفہ اور علم کلام میں نمایاں خدمات انجام دیں ،علم و عقل کے دعویداروں اور مذہب اسلام پر نکتہ چینی کرنے والوں کو مسکت جوابات دئے، آج بھی اس بحر ذخار سے موتیاں چننے والے چن رہے ہیں ، اور یہ دریا سکون و طمانیت کے ساتھ موجزن ہے، خانوادۂ انورشاہ نے علم حدیث اور زبان و ادب کی بے پایاں خدمات انجام دیں ،ختم نبوت کے تحفظ کے لئے سینہ سپر رہے، اور افراد سازی و رجال سازی کے قابلِ رشک نمونے پیش کئے، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، اور پتھروں سے ہیرے تراشے جارہے ہیں ، خانوادۂ مدنی کے افراد نے نظم و نسق، سیاست و حکمت کے میدان نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں ، اور علم وادب کے گوشہ کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا ،اس خانوادہ کے فرزند آج بھی خدمت دین میں مشغول ہیں۔
سرزمین ہند میں ایک اور خانوادہ ہے، جس کا علمی وقار بلندو بالا ہے، جس نے قرآن و حدیث تفسیر بیان و خطابت دعوت دین اور اشاعت دین کے شعبوں کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب کے شعبہ میں وہ خدمات جلیلہ انجام دیں کہ اہل زباں بھی متحیر ہوگئے، اور ان کے طرز نگارش کے گرویدہ ہوگئے، ان کی تخلیقات اور فکری بلندیوں کو دیکھ کر ان کی علمی قابلیت کے اسیر ہوگئے، ساری کائنات کے باشندوں کو عجم خیال کرنے والے، اس خانودہ کی گفتارو خطابت سے محو حیرت ہوگئے، یہ خانوادہ رائے بریلی تکیہ کلاں کا حسنی خانوادہ ہے، جس کا ہر فرد بشر آسامان علم و ادب کا آفتاب و ماہتاب ہے، زبان دانی و قوت بیانی میں بے مثل ہے، قلم سے موتی اگلنے میں یکتا و منفرد ہے، جن کے الفاظ قلوب کی دنیا پر حکومت کرتے ہیں ، اور لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیتے ہیں۔
اس عظیم خانوادہ کا ایک عظیم فرزند ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا، اس کا رخصت ہونا یقینی طور پر ملت اسلامیہ کے لئے رنج والم کی بات ہے، تکلیف کے آثار ہر چہرے پر نمایاں ہیں ، غموں و اندوہ ملت اسلامیہ کا ہر فرد بشر محسوس کررہا ہے، البتہ اہل ندوہ کے لئے ایسی صورت حال ہے جس کو لفظوں میں سمونا مشکل کام ہے، جیسے کسی گھر کا بڑا رخصت ہو جائے، کسی بچہ کا مشفق و مربی دنیا چھوڑ جائے، اس طرح کی صورت حال اہل ندوہ کے لئے ہے، چونکہ دارالعلوم ندوۃ العلما کے معتمد تعلیم جناب مولانا واضح رشید ندوی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
مولانا واضح رشید ندوی عربی زبان و ادب کے عظیم خدمت گاروں میں سے ایک تھے، انہوں نے زبان وادب کی مختلف زاویوں سے نمایاں خدمت انجام دی، میدان صحافت کو اپنے قلم کی طاقت سے خوبرو کیا البعث الاسلامی، اور الرائد میں اس دعوے کے دلائل بکثرت موجود ہیں ، ان کے اداریہ اور صور و اوضاع کے عنوان سے تحریر کئے گئے ان کے مضامین جہاں ان کی طرز نگارش کی یکتائی اور انفرادیت کی جانب مشیر ہیں ، وہیں ان کی فکری بلندی کو بھی محیط ہیں ، انہوں نے عالم اسلام کے مسائل ان کے اسباب و علل کو بخوبی اپنی تحریروں میں پیش کیا، مغرب کی اسلام دشمنی کے وجوہات و اسباب پر روشنی ڈالی، مغربی تہذیب و ثقافت کے کھوکھلے پن کو عیاں کیا، یورپ کی فکری آزادی اور بے راہ روی کو موضوع گفتگو بنایا، اس کی صحیح صورت حال سے قارئین کو باخبر کیا، آزادی رائے کے کھوکھلے دعوے کی حقیقت کو اپنے ایک مضمون ”موقفان متناقضان لحریۃ الرأی ”میں عالم آشکار کیا، اور مغرب نے جو متضاد آزادی رائے کا ڈھونگ رچ رکھا ہے، اس کو عیاں کیا، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں مغرب کایہی طرز ہے اس جانب بھی روشنی ڈالی،رقم طراز ہیں : ”فان لہا معیارا لحریۃ التعبیر یختلف عن معیار مخترعی ھذا المصطلح، و یوجد ھذا التناقض فی کل مجال من مجالات الحیات” صور و أوضاع ‘‘۔ (البعث الااسلامی اکتوبر 2018)
وہ عظیم صحافی تھے، انہیں صحافت کے میدان میں درک حاصل تھا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ1953سے 1973 تک آل انڈیاریڈیو میں بحیثیت ترجمان اور اناؤنسر ملازمت کیا کرتے تھے اور غیر معمولی عزت و عظمت کے حامل تھے،ان کی خوبی یہ تھی کہ انہیں انگلش عربی اردو تینوں زبانوں میں مہارت حاصل تھی، اور تینوں زبانوں میں ان کا قلم سیال تھا، اگرچہ عربی میں زیادہ لکھتے تھے، راشٹریہ سہارا میں بھی ان کے مضامین نگاہوں سے گذرے ہیں ، جن میں ان کی فکری بلندی تجزیہ کی قوت عالم اسلام کے احوال پر نظر، عیاں ہوتی تھی، اور الفاظ کی سادگی و شائستگی بھی ان کی سادہ شخصیت کی جانب اشارہ کرتی تھی۔
آپ محض صحافت ہی تک محدود نہیں رہے، بلکہ آپ نے حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی کے مشورہ کے مطابق درس و تدریس کو بھی آپنے مشغلہ بنایا، اور کامیاب مدرس ثابت ہوئے، بی بی سی کی ملازمت کو ترک کرکے دارالعلوم ندوۃ العلما کے شعبئہ تدریس سے وابستہ ہوگئے، آپنے ادب عربی کی تدریس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، کلیتہ اللغۃ العربیہ کے عمید ہوئے، جو صلاحیت ان کے پاس تھی، اسے طلبہ میں منتقل کرنا شروع کیا، طلبہ میں زبان و بیان کی قدرت پیدا کی، انہیں مضمون نگاری و انشا پردازی کی باریکیاں سکھائیں ، اور ایک بڑا طبقہ اس بات کا معترف ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں قلم کے شہسوار تیار کئے، جو عظیم ترین خدمت ہے، زبان و ادب کے ساتھ ساتھ اسلامی افکار نظریات کو آپ نے تدریس کا موضوع بنایا، طلبہ کو اسلام افکار نظریات کی حکمتوں اور باریکیوں پر مطلع کیا، اور فکر و نظر کی بالیدگی کے واضح ترین نمونے پیش کئے، جس کا اعتراف ان افراد کے جملوں سے ہوتا ہے، جو آپ کے درس میں شریک رہے، آپ کے ایک عظیم شاگرد اکرم ندوی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں :
”مولانا کے درس کی اہم خصوصیت افادہ ونفع رسانی ہے، مولانا کے ہر درس میں عقل ودماغ کو نئے مواد ملتے، ہر مجلس میں علم وادب کی نئی معلومات حاصل ہوتیں ”(مضمون ایک مثالی معلم کی کہانی ایک شاگرد کی زبانی، ڈاکٹر اکرم ندوی)
مولانا نے تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی عظیم ترین خدمات انجام دیں ہیں ، تاریخی، تنقیدی، فکری موضوعات پر آپ کا قلم رواں دواں تھا، تاریخ الأدب العربي، العصر الجاہلي، عربی زبان وادب کی تاریخ آپ نے تحریر فرمائی، جس میں عرب اور اہل عرب، عربی زبان وادب کی روایت، شعر اور نثر اور اس کے ساتھ ساتھ عظیم ترین ادبا آپ کے زیر قلم تھے، تاریخ یونہی مشکل ترین فنون میں سے گردانا جاتا ہے، اور عربی زبان وادب کی تاریخ مرتب کرنا کس درجہ مشکل ترین کام ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے، کتاب کا مطالعہ اس بات کو عیاں کردیگا کہ مولانا نے تاریخ نگاری کاحق ادا کیا ہے، اور اسی پر بس نہیں بلکہ مولانا نے جدید عربی زبان وادب کو بھی موضوع گفتگو بنایا، اور دور حاضر عربی ادب کی صورت حال پر روشنی ڈالی، جدید دور کے ادباء کی خدمات کا ذکر کیا، ان کی تصنیفات پر بھی قلم اٹھایا۔
اس سلسلے میں ”أعلام الأدب العربي في العصر الحدیث” آپ کی معرکتہ الآرا تصنیف ہے، مصادر العربی پر بھی آپ کی کتاب موجود ہے، اس میدان کو بھی آپنے تشنہ نہیں چھوڑا، عربی زبان و ادب میں مولانا کی خدمات بے مثل ہیں۔ مولانا نے شخصیت نگاری، سوانح وسیرت نگاری کے میدان بھی بلند ترین خدمات اجام دیں ، وہ ایک عظیم سوانح نگار تھے، انہوں نے اردو اور عربی دونوں زبانوں میں سوانح لکھیں ، نیی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو سپرد قطاس کرنے فریضہ بھی انجام دیا، اور شمائل نبوی کے ذریعہ بھی اپنی قلم کی آب وتاب میں اضافہ کیا، حضرت مولانا علی میاں کی زندگی اور ٹیپو سلطان کی شہید کی زندگی کو بھی سپرد قرطاس کیا۔
مولانا محض دارالعلوم ندوہ کے معتمد تعلیمات نہیں تھے، بلکہ وہ ماہر تعلیم تھے، موجودہ نظام تعلیم اور اس کہ قباحتیں و مضرتیں ، قدیم نظام تعلیم اور اس کی خوبیاں و خصوصیات، مغربی پرستی، نظام تعلیم میں مغریب کی اندھی تقلید، اور مغریبی نظام تعلیم کی خامیاں، اور اس نظام کامقصد ان تمام پہلوؤں پر آپ بخوبی مطلع تھے، اور اپنی کتاب ”نظام تعلیم و تربیت اندیشے، تقاضے اور حل” میں انہوں نے اس کو بھرپور طریقے سے بیان کیا ہے، اور میدان تعلیم میں مسلمانوں کی مکلمل طور پر رہنمائی کی ہے۔ مولانا نے اسلامی زندگی کے تمام پہلوؤں کو روشناس کرایا، اور واضح کیا کہ دورِ حاضر میں کس طرح عوام و خواص بے ضابتگی کی زندگی میں مبتلا ہیں ، اور اسلامی زندگی جس توازن کی حامل ہے، اس سے کوسوں دور ہیں ، اس جانب تاکید کرنے کے لئے انہوں نے وہ حدیثیں مرتب کیں ، جو زندگی کے توازن اور اسلامی طرز زندگی کو عیاں کرتی ہیں۔ انہوں نے عالمی مسائل کو بھی موضوع گفتگو بنایا، اور فلسطین جیسے حساس مسئلہ پر اپنی کتاب ”مسئلہ فلسطین” میں سیر حاصل بحث کی ہے، اسرائیل اور اس کی دسیسہ کاریوں کا فردہ فاش کیا، اور مسئلہ فلسطین کی حقیقت کو امریکی و برطانوی دستاویزات کی روشنی میں کیا، جو ان کی عالمی مسائل پر نگاہ اور تحقیقی کی مزاج کی بین سلیل ہے۔
مولانا کی شخصیت کے ان تمام پہلوؤں پر تحقیق و تجزیہ کے لئے وقت اور محنت شاقہ درکار ہے، آنے والا وقت آپ کی شخصیت کے مزید پہلوؤں کو نمایاں کریگا۔
آپ ملت اسلامیہ کے عظیم فرزند تھے، خدا کرے کے آنے والی نسل ان خصوصیات کی حامل اور خانودہ حسنی کی روایتوں کی امین ہو،جس طرح آپ کے بچے تصنیف وتالیف کے کام مشغول ہیں ، اس سے یہ واضح امکان موجود ہے کہ اس خانوادے کا فیضان اسی آب وتاب کے ساتھ بھی جاری رہے گا۔
تبصرے بند ہیں۔