ماں
عبدالکریم شاد
لوگ کہتے ہیں برا مجھ کو بھلا کہتی ہے ماں
میری خاطر دوسروں کے طعنے بھی سہتی ہے ماں
…
سب کو تر کرتی ہے لیکن خشک خود رہتی ہے ماں
ایک دریا کی طرح گھر میں سدا بہتی ہے ماں
…
اپنے بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ کے لیے
ہنستے ہنستے زندگی کے سارے غم سہتی ہے ماں
…
وہ تو رکھ لیتی ہے پتھر اپنے دل پر عارضی
ورنہ مجھ سے اصل میں ناراض کب رہتی ہے ماں
…
سب کی سنتی ہے شکایت ایک اک کر کے مگر
خود کسی بھی حال میں ہو کچھ نہیں کہتی ہے ماں
…
اپنے اچھے اور برے کا کچھ نہیں اس کو خیال
رات دن اولاد کی ہی فکر میں رہتی ہے ماں
…
جانے کیا سوتے میں چہرے پر مرے رہتا ہے نقش
ٹکٹکی باندھے مجھے بس دیکھتی رہتی ہے ماں
…
دیکھ کر آگے نکل جائیں اگر بیٹے کبھی
پھر بھی بیٹوں کو کبھی اندھا نہیں کہتی ہے ماں
…
رخصتی کا وقت ہو یا میری آمد کی گھڑی
روتے روتے میرا چہرہ چومتی رہتی ہے ماں
…
جس پہ میری کام یابی کی ہے چھت ٹھہری ہوئی
تیری ناراضی سے وہ دیوار اب ڈہتی ہے ماں!
…
ہائے ان چھالوں کا دوں گا حشر میں میں کیا حساب
تیرے ان قدموں تلے جنت مری رہتی ہے ماں!
…
میرے آنسو پونچھ دیتی تھی مجھے پچکار کر
تو نہیں ہے تو مسلسل آنکھ یہ بہتی ہے ماں!
…
اب نہیں ملتا جو مجھ کو لطف تیری ڈانٹ کا
ہے عبث تعریف میں دنیا جو کچھ کہتی ہے ماں!
…
دیکھ کر اب اپنے بچوں کو بہل جاتا ہوں میں
ان کی ہر مسکان میں تیری ادا رہتی ہے ماں!
…
تو نے دیکھے تھے مرے جو خواب پورے ہو گئے
یوں تو سب کچھ ہے مگر تیری کمی رہتی ہے ماں!
…
آنے جانے سے یہاں تھوڑا قرار آ جاتا ہے
اس محلے میں سہیلی اک تری رہتی ہے ماں!
…
زندگی بھر اس کا حق بھی ہو نہیں سکتا ادا
شاد جی! وقتِ ولادت درد جو سہتی ہے ماں
تبصرے بند ہیں۔