میڈیا اور دینی مدارس
تحریر: محمد نفیس خاں ندوی
آج کا دور میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے ،جسے کمیو نیکیشن ایج(Communication Age) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اخبارات وجرائد، ریڈیو وٹیلی ویژن،اورسیٹ لائٹ وانٹرنیٹ نے نشریات کا ایک ایساجال بچھا دیاہے کہ پوری دنیا گھر کے آنگن و ڈرائنگ روم میں سمٹ آئی ہے، اس جدید دنیا کو ’’گلوبل ولیج‘‘ (Global Village) کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، اس سے ایک طرف جہاں علوم وفنون اور تعلیم وتفریح کے وافر سامان مہیا ہوئے ہیں، وہیںدوسری طرف انسانی جذبات واحساسات اور افکار وخیالات بھی پوری طرح متاثر ہوئے ہیں،چنانچہ یہ کہا جانے لگاہے کہ اب جنگیں کسی میدان میں نہیں بلکہ میڈیا کے نیٹ ورک پر لڑی جاتی ہیں، میڈیا نے انسانی ذہنوں کو پوری طرح سے ہائی جیک کرلیا اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، ہم کیا کھائیں کیا نہ کھائیں، کیا دیکھیں کیا نہ دیکھیں، کس سے محبت کریں اور کس سے نفرت کریں ، کیا پڑھیں اور کیا نہ پڑھیں ……آج یہ ساری باتیں میڈیا طے کرتا ہے۔
میڈیا محض حصول اطلاعات کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ کشمکش کا ایک وسیع میدان بھی ہے، سامراج کا عالمی تسلط، تہذیب مغرب کی تشکیل، اور عالمی منڈیوں پر قبضے کا کھیل اسی میڈیا کی بساط پر کھیلا جاتا ہے ، آج ہر خبرو اشتہار، ہر ڈاکومنٹری اور ٹاک شو، ہر فلم اور ہرڈرامہ سماج پر براہ راست اپنا اثر چھوڑرہا ہے، کسی معصوم کو سنگین مجرم اور کسی درندہ صفت کو مسیحا ثابت کرنا میڈیا کے لیے بالکل آسان ہے،میڈیا کی اس طاقت کا اندازہ ہمیں اب ہوا ہے جبکہ ہمارے دشمنوں نے میڈیا کی اس اثر آفرینی اور اس کے مؤثر کردار کا ادراک بہت پہلے کرلیا تھا۔
چنانچہ یہودی پرٹوکول میں صاف صاف لکھا ہے:
"آزادی کی مختلف تشریحات کی جاسکتی ہیں، ہم اس کی تعریف اس طرح کریں گے: آزادی ایک ایسا حق ہے جس کی تعریف قانون کے تحت کی جائے گی، یہ قانون ہم وضع کریں گے جس پر تشریحات کے غلاف چڑھا دیے جائیں گے، اور پوری دنیا پر بذریعہ ذرائع ابلاغ نافذ کریں گے، انسانوںکے جذبات کااتارچڑھاؤہماری گرفت میں ہوگا،جسے ہم اپنے مقاصدکی تکمیل کے لیے استعمال کریںگے، ۔۔۔۔۔ پروپیگنڈہ، خبریں، پمفلٹ اورکتابوں سمیت ہر ذریعۂ ابلاغ پر ہماری اجارہ داری ہوگی، ۔۔۔۔۔ ایک بھی خبر ہماری دسترس سے نکل کر لوگوں تک نہ پہنچ پائے گی، جس کے لیے عالمی خبر رساں ادارے قائم اور استعمال کیے جائیں گے۔۔۔۔ دنیا پر بذریعہ ذرائع ابلاغ حملے کی حکمت عملی ادوارکے ارتقاء کے ساتھ ساتھ جدت اختیار کرے گی، مخالفین پر ہماری برتری قائم رہے گی یہاں تک کہ وہ اپنے ذرائع ابلاغ کا مؤثر استعمال نہ شروع کردیں، اور ہم انھیں کسی صورت اس قابل ہونے نہیں دیں گے، یہ آزادیٔ اظہار ایک ایسی طرز ہوگی جس کا پرچار بھی ہم کریں گے اور تنقید بھی ہماری گرفت میں ہوگی،پوری دنیا ہمارے تیار شدہ فکری سانچے سے نہیں نکل سکے گی”
"ہم میڈیا کو اپنے قبضے اور قابو میں رکھیں گے،ہم اپنے دشمنوں کے قبضہ میں کوئی ایسا مؤثر اور طاقتور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو مؤثر ڈھنگ سے ظاہر کرسکیںاور نہ ہم ان کو اس قابل رکھیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گذرے بغیر کوئی خبر سماج تک پہنچ سکے، ہم ایسے اخبارات کی سرپرستی بھی کریں گے جو انتشار و بے راہ روی ، جنسی واخلاقی انارکی، استبداد اور مطلق العنان حکومتوں کی مدافعت اور حمایت کریں گے، ہم یہودی ایسے مدیروں اور نامہ نگاروں کی ہمت افزائی کریں گے جن کا مجرمانہ رکارڈ ہو ‘‘ (یہودی پروٹوکول)
یہودی پروٹوکول کے ان اقتباسات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ یہودیت اپنے مقاصد کوپورا کرنے کے لیے میڈیا کو ایک مؤثر اور کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے ،اوریہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج کسی بادشاہ، کسی پوپ، کسی فاتح جنرل یا کسی اعلیٰ ترین بزنس مین کے پاس وہ طاقت نہیں جو ان چند درجن یہودیوںکے پاس ہے جو عالمی میڈیا کوکنٹرول کرتے ہیں ،اور یہ طاقت ہر گھر میں گھس کر اہل خانہ سے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے اور لوگوں کی ذہن سازی کرتی ہے، چنانچہ آج ہمارے ذہنوں میں دنیا کی وہی تصویر ہے جو میڈیا تیار کرتاہے اور پھر وہی یہ بھی طے کرتا ہے کہ اس تصویر کے بارے میں ہمیںکیا سوچنا ہے؟!
چند صدیوں قبل یورپ کے لیے سب سے بڑا دشمن کمیونزم کا نظریہ تھا، جس کا یورپ نے پوری توانائی سے مقابلہ کیا، لیکن جب کمیونزم زوال پذیر ہوا اور سویت یونین بکھر چکا تو مغربی طاقتوں نے ایک بار پھر اپنے ازلی دشمن کی طرف رخ کیا،یعنی وہ دشمن جس سے وہ کئی صدیوں تک نبردآزما رہے اور صلیبی جنگوں میں شکست سے دوچار ہوتے رہے،فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار ان کی قیادت امریکہ کے ہاتھوں میں تھی۔
چنانچہ مغربی مفکر لارینس براؤن (Lawrence Brown) نے کھلے لفظوں میں یہ اعتراف کیا :
"پہلے ہم یہودی خطرے سے ڈرتے تھے ،زرد خطرے(جاپان،چین) سے ڈرتے تھے اور اشتراکیت سے ڈرتے تھے لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا،اس لیے کہ یہود ہمارے دوست نکلے،چنانچہ ان پرظلم کرنے والا ہمارا جانی دشمن ہوگا۔پھر دوسری جنگ کے دوران اشتراکی ہمارے حلیف بنے۔رہازرد خطرہ (جاپان،چین )تو اس سے نمٹنے کے لیے بڑی جمہوری حکومتیں کافی ہیں ،لیکن ہم کو حقیقی خطرہ مسلمانوں سے ہے،کیونکہ مسلمانوں کے پاس دوسروں کو زیر کرنے اور اپنی خواہش کے تابع بنانے کی زبردست صلاحیت و قدرت موجود ہے ،اور یہ مسلمان زبردست ،حیرت انگیز ،حیات بخش طاقت و قوت کے مالک ہیں”۔
یورپ وامریکہ نے ہمیشہ سے مسلمانوں کو اپنا سیاسی ،دینی اورثقافتی حریف سمجھا ، اور انھیں اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ صرف اسلام ہی انھیں براہ راست چیلنج کرتا ہے،کیونکہ مغرب کے مقابل یہی ایک مخصوص تہذیب ہے جس کے وابستگان اپنے تمدن کی برتری کے قائل ہیں، یہ ایک مختلف اور متصادم تہذیب ہے جس کے پیروکار اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کی آفاقیت کے داعی ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی بظاہر زوال پذیر لیکن بالاتر طاقت یہ تقاضا کرتی ہے کہ’’ اسلامی تمدن‘‘ کو دنیا میں پھیلایا جائے۔یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے ڈرامہ کے بعد صدر بش نے اپنے خطاب میں کھل کرکہا کہ ہمارا اصل مقابلہ سیاسی اسلام اوراسلامی بنیاد پرستی سے ہے۔اس کے واقعہ کے بعد مغربی طاقتوں نے دنیا کو ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے عنوان سے ایک نیا موضوع دیا جس پر عالمی میڈیا نے بحثوں کا آغاز کیا،سیاسی بیانات جاری ہوئے ،سچی جھوٹی خبریں شائع کی گئیں، ڈاکومنٹریز تیار ہوئیں، فلمیں بنائی گئیں ، اورجب ان پرپیگنڈوں کی کچھ مخالفت ہوئی تو میڈیا نے اپنا زور کچھ کم کردیا لیکن اس وقت تک عمومی ذہن سازی ہوچکی تھی اور مشرق ومغرب کے دانشور کبھی کھلے لفظوں اور کبھی بند جملوں میں یہ بات کہنے لگے کہ:
Every Muslim is not a terrorist but every terrorist is a Muslim.
(یعنی ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے)
اسلام اور مسلمانوں کواپنا سب سے بڑا دشمن تسلیم کرنے کے بعد مغربی وفسطائی طاقتوں نے سب سے پہلے علمائے دین اور مدارس اسلامیہ کو نشانہ بنایا، اور میڈیا نے ان کے خلاف پروپیگنڈوں کا سلسلہ شروع کیا کہ یہ دینی مدارس ہی تو ہیں جہاں دہشت گردی کی فصل تیار کی جاتی ہے، اور طالبان والقاعدہ جیسے دہشت گرد پیداکیے جاتے ہیں، شور برپا کیا گیا کہ یہ دینی مدارس ہی دہشت گردی کے مراکز ہیں، جہاں دہشت پیدا کرنے والی تعلیم وتربیت دی جاتی ہے، اورپھر حکومتوں سے پر زور مطالبہ کیا گیا کہ ان مدارس پر کڑی نظر رکھی جائے، نیویارک ٹائمز کا مشہور صحافی تھام فرائڈ مین نے اپنے ایک مضمون میں لکھا :
"دینی مدارس اور جامعات ہی دہشت گردی کا گڑھ ہیں، یہیں سے دہشت گردی کے لیڈر پیدا ہوتے ہیں ، اس لیے دہشت گردی کے ان سوتوں کو خشک کرنے ضرورت ہے۔”
مغربی میڈیا کے علاوہ ہندوستانی میڈیا نے بھی یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ قرآن مجید میں غیر مسلموں اوراہل کتاب سے نہ صرف نفرت کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ ان کے قتل عام کی اجازت بھی دی گئی ہے، اس لیے اصل مسئلہ خود قرآنی تعلیمات کا پیدا کردہ ہے، جس کے نتیجہ میں تشدد اور انتہا پسندی کا مزاج پروان چڑھتا ہے ، اس لیے ضرورت قرآنی مراکز یعنی مدارس کے نظام کو تبدیل کرنے کی ہے، تاکہ کسی طالب علم میں جہاد اورقتال کا تصور بھی پیدا نہ ہو، اس کے بعد مغربی اقوام نے مسلم ممالک پر زور زبردستی کرکے مدارس کے نصاب تعلیم کو تبدیل کرانے کی کوشش کی ، اور اُن قرآنی آیات اوراحادیث کو نصاب سے خارج کرنے کی مانگ کی جو جہاد،حجاب، یہودیوں کی مسلم دشمنی اور کفار سے محبت ودوستی کی مخالفت وغیرہ سے متعلق ہیں۔
امریکہ نے اسلامی دہشت گردی کا ایسا صور پھونکا جس سے ساری دنیا مسحور ہوگئی، اوراس کے ہاتھوں میں ایسا ہتھیار آگیا جس کا استعمال موقع اور مصلحت کے لحاظ سے کبھی اور کہیں بھی کیا جاسکتا ہے، ہر تشدد اور تخریب کاری اور ہر بم دھماکہ کا تعلق بلا تامل اسلامی دہشت گردی سے جوڑا جاسکتا ہے، اور افسوس کی بات تویہ ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے ملک میں اٹھا یا جارہا ہے، کہیں بھی کوئی ناشدنی واقعہ پیش آتا ہے تو بغیر کسی تحقیق اور بلاثبوت وشہادت کے اس واقعہ کو اسلامی دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے، پھر مدرسوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں، یا فرضی مڈبھیڑمیں ان’’ دہشت گردوں‘‘ کو مار گرایا جاتا ہے ،اس پر طرفہ تماشا یہ کہ پھر ان دہشت گردوں کی جیب سے نہ صرف ان کی ذاتی تفصیلات اور آگے کے عزائم معلوم ہوجاتے ہیں بلکہ یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ کس مدرسہ سے ان کا تعلق رہا ہے!پھر یہ ساری باتیں خاص کر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگتی ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے قبل فروری 2002ء میں جب موجودہ حکومت ہی برسر اقتدار تھی تو وزیر اعظم مسٹر واجپئی نے مدرسوں کے سروے کے لیے چار کابینی وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی تھی جس کے نگراں جناب ایل کے ایڈوانی تھے، اس کمیٹی نے چونکا دینے والی رپورٹ پیش کی تھی،جس میں مدارس اسلامیہ کو ملک کی سا لمیت کے لیے خطرہ اور ظلمات پرستی اور دہشت گردی کی تربیت گاہ بتایا گیا تھا، اور پھرالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بار بار ان الزامات کی تشہیر کی جس کے نتیجہ میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء جیسے عظیم ادارے بھی نشانہ پر آگئے تھے۔لیکن ملکی سطح پر اس کا رد عمل ظاہر ہوا تو حکومت کے تیور کچھ کم ہوئے ، پھر حکومت نے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور ’’مرکزی مدرسہ بورڈ‘‘ اور ’’گرانٹ ان ایڈ‘‘کی تجاویز پیش کیں تاکہ مدارس اور ان کے تعلیمی اہداف کو سرکاری گرفت میں لینا اور ان کا عوامی رابطہ ختم کرنا آسان ہوسکے جس کا لازمی نتیجہ اس صورتحال کا پیدا ہونا ہے جس کاتجربہ ہم اندلس کی سرزمین پہ کرچکے ہیں، افسوس کہ ایک طرف صوبہ یوپی وبہار میں بہت سے مدارس ’’گرانٹ ان ایڈ‘‘ کی طلائی زنجیروں میں جکڑ کر اپنی افادیت کھوچکے، تو دوسری طرف مہاراشٹر حکومت نے دوسری پالیسی اختیار کرتے ہوئے مدارس کو غیر معیاری قرار دے دیا اور انھیں اسکول کے زمرہ سے ہی خارج کردیا۔اب شاید ہی کوئی دن گذرتا ہو جب پرنٹ یا الکٹرانک میڈیا سے یہ آواز نہ آتی ہوکہ مدرسے ناکارہ ہوچکے ہیں اس لیے ان پر پابندی عائد کردینی چاہیے۔
میڈیا کے پرپیگنڈوں سے نہ صرف مدارس اسلامیہ کی شبیہ خراب ہوئی بلکہ بعض اہم دینی ہستیوں کے ’’سیاسی قتل‘‘ کی کوششیں بھی کی گئیں اور خاص کر ہمارے دارالافتاء اور کارِ افتاء میں مشغول شخصیات کو بھی داغ دار کیا گیا؛ شاہ بانو کیس، گڑیا عارف کیس اور عمرانہ کیس میں میڈیا نے جو ہنگامہ برپا کیا وہ اہل نظر سے قطعی مخفی نہیں، بلاشبہ بعض مسائل میں وضاحتوں کے بعد میڈیا کے نمائندوں نے آکر معذرت بھی کرلی لیکن بند کمروں کی معافیوں سے دامن پہ لگے داغ آسانی سے دھل نہ سکے،اورمیڈیاء کی منفی رپورٹوںسے جہاں غیر مسلموں کی سوچ متعفن ہوئی وہیں عام مسلمانوں کے ذہن بھی مکدر ہوئے، جس کا منطقی نتیجہ ہے کہ آج ایسے مسلمانوں کی کمی نہیں جو مدارس کے پورے نظام کو بے کار اور غیر سود مند خیال کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں مدارس اسلامیہ اپنی افادیت کھو چکے ہیں،اور ا ن کے ذریعہ امت کا مال اور وقت کے علاوہ صلاحیتیں بھی ضائع ہورہی ہیں، اور پھر اپنی زبانوں سے طرح طرح کے تیکھے و کڑوے بلکے طنزیہ جملے بھی ادا کرتے ہیں، جن کا براہ راست سامنا ہمارے ان علماء وفضلا ء کوکرنا پڑتا ہے جو مدارس کی ضروریات کے لیے عوامی رابطہ میں رہتے ہیں۔
بلاشبہ ہمارا یقین ہے کہ مدارس اسلامیہ ہی باطل طاقتوں کی راہ میں سنگ گراں کی طرح حائل ہیں، مسلمانوں میں دینی شعور بیدار رکھنے والی یہ شمعیں ان سیاہ ارادوں کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انہیں مدارس نے ہر دور میں ایسے نامور قائدین پیدا کیے ہیں جنھوں نے دنیا کی تاریخ کا دھارا بدل دیاہے ،اوردین کی حفاظت کا کام ایسے نازک حالات میں انجام دیا ہے جب حکومتیں اس کے چراغ کو اپنی مذموم سیاستوں سے بجھانے میں مصروف تھیں، اوراگر کہیں اسلامی اقدار کو ٹھیس پہنچائی جاسکی ہے تو وہ بھی ان مدارس کی غفلت کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتوں نے جہاں عام مسلمانوں کے خلاف ہراس کی فضا بنائی وہیں مدارس اور اہل مدارس کے خلاف کھل کر پرپیگنڈہ کیا اور اپنے منصوبوں میں اس بات کی صراحت کی کہ اسلام پسند عناصر پر قدغن لگا کر ہی عوام پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے اور اس سلسلہ میں میڈیا ایک مؤثر اور کار گر ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
اس سے پہلے مسلمانوں نے مستشرقین کے سلسلہ میں غفلت سے کام لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مستشرقین کی تحریروں اور کتابوں کی وجہ سے بہت سے دماغوں میں اسلام کے ماضی کی طرف سے بدگمانی، اس کے حال کی طرف سے بے زاری ، مستقبل کی طرف سے مایوسی،اور اسلام و پیغمبر اسلام اور اسلامی مآخذ کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہوگئے۔میڈیا کے سلسلہ میں بھی ہم بہت دنوں تک غفلت کا شکار رہے،بلکہ ایک لمبی مدت تک ہم میڈیا کے بعض وسائل کے جواز وعدم جواز کی بحثوں میں ہی الجھے رہے۔
اﷲ کا شکر ہے کہ ادھر کچھ عرصوں سے مدارس اسلامیہ نے اس طرف توجہ کی ہے، اور متعدد اسلامی اداروں سے مجلات و رسائل اور خبر نامے شائع ہونے لگے ہیں جو فکر اسلامی اور مسلمانوں کے مسائل پر مشتمل ہوتے ہیں، اور بعض رسائل میں اسلام مخالف افکار و رجحانات کا علمی تجزیہ بھی کیا جاتا ہے، لیکن مجھے معاف رکھا جائے کہ ابھی ہمارے عالمی ادارے بھی اس سلسلہ میں ابتدائی مراحل سے گذر رہے ہیں، اور کئی دہے گذرنے کے باوجود رسائل وجرائدکے میدان میں کوئی قابل تقلید معیار قائم نہ کرسکے ، جبکہ بعض اداروں میں میڈیا وصحافت کے مستقل شعبے بھی قائم ہیں لیکن ان شعبوں سے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آرہے جس کی بنیادی وجہ میڈیاکے جدید وسائل سے دوری اور ہماراوہ نظام تعلیم ہے جس میں پریکٹیکل کے بجائے نظریاتی بحثوں پر زور ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ ہندستانی مسلمانوں کے حق میں یہ دینی مدارس ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں،اور بقول علامہ اقبال ’’اگر ہندستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سوسالہ حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر اور الحمراء اور باب الاخوتین کے نشانات کے سوا اسلام کے پیرؤوں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندستان میں بھی تاج محل اور لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔‘‘
اس لیے ضرورت ہے کہ مدارس اسلامیہ کا میڈیا سے رشتہ مضبوط ہو، اورخاص کر مرکزی مدارس میںمیڈیا کے تجزیہ کا شعبہ یعنی Media Monitoring System بھی قائم ہو، جس میں الکٹرانک اورپرنٹ میڈیا کاجائزہ لیا جائے، اوراس کے منفی نظریات کا محاسبہ کیا جائے، اس کے علاوہ پریس اور میڈیا کے سامنے مدارس کے حقائق پیش کیے جائیں ،جس کا طریقہ یہ ہے کہ پریس اور میڈیا کے افراد سے پہلے روابط استوار کیے جائیں، انھیں مدارس کے مشاہدے اور اور معاینے کے لیے مدعو کیا جائے،اس کے علاوہ میڈیا میں ارباب مدارس کے انٹرویوز جاری کیے جائیں، پریس کانفرنسیں کی جائیں، اخبارات میں مضامین اور بیانات شائع کیے جائیں،اور ضرورت پڑنے پر حکومت کے ذمہ داروں کو احتجاجی میورنڈم بھی دیا جائے۔ اس طرح بہت ممکن ہے کہ مدارس اسلامیہ کے سلسلہ میں بدگمانیوں کا خاتمہ ہو اور مدارس کی معنویت اورملک وملت کے حق میں ان کی افادیت واضح ہو۔وماذلک علی اﷲبعزیز۔
(مضمون نگار ماہنامہ پیام عرفات کے مدیر مسئول ہیں۔)(دار عرفات، تکیہ کلاں، رائے بریلی)
9918818558
تبصرے بند ہیں۔