نصب العین: ایک امانت
محمد رشاد
دنیا کے نشیب وفراز کے ساتھ ہر دور میں مختلف قسم کے مفکر، مجدد اور انقلابی شخصیات آتی جاتی رہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کا ایک مقصد، ایک مشن اور نصب العین رکھتے ہیں، جس کی تکمیل اُن کا خواب ہوتی ہے، اور جس کے حصول کے لیے وہ سب کچھ داؤ پر لگانے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پورے اخلاص کے ساتھ اپنے مشن کے لیے جٹ جاتے ہیں اور اس کے لیے کسی بھی طرح کی مصالحت کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اپنے مشن اور مقصد کی طرف لوگوں کو دعوت عام دے کر ایک ایسی جماعت تیار کرتے ہیں جو ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے جن کے اندر وہی فکر، وہی جذبہ اور وہی اخلاص موجود ہوتا ہے۔ تاکہ ایک طرف تو وہ مفکر اپنی فکر کے مطابق اپنے مقصد کے لیے بہتر طریقے سے کام کرسکتے اور دوسری طرف طرف ایسی جماعت کی تیاری کرسکے کہ وہ اس کی زندگی کے بعد بھی اس مشن کے لیے کوشاں رہے۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری نظر میں اصل مفکر، مجدد اور انقلابی شخصیات انبیاء علیہم السلام اور وہ علماء و صالحین ہیں جنھوں نے وقتاً فوقتاً اللہ کے دین کے لیے ایثار و قربانی کی مثالیں قائم کردیں۔
یہ تمام وہ لوگ تھے جن کی زندگی کا ایک مقصد اور نصب العین تھا اور جنھوں نے ساری زندگی اس کوشش میں صرف کردی کہ اللہ کے دین کا نفاذ ہوجائے اور انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں اللہ رب العزت کا قانون جاری و ساری ہوجائے۔
لیکن تاریخ انسانی کییہ ایک حقیقت ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام انبیا و مجددین، مصلحین و مفکرین جس نصب العین کے لیے زندگی بھر کام کرتے رہے اور جن اصولوں کی بنیاد پر انھوں نے اپنے مقصد اور مشن کے لیے جماعتیں تیار کیں، ان کی زندگی کے بعد ان جماعتوں نے اور جماعتوں کے افراد نے اپنے مقصد، مشن اور نصب العین کو بھلادیا۔ اور ان اصولوں اور اخلاقی اوصاف سے مصالحت کرلی، جن کی بنیاد پر ایک جماعت اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے کھڑی کی گئی تھی۔ نتیجہیہ ہوا کہ ایک مدت کے بعد وہ جماعت پستی کا شکار ہوگئیاور اس کے افراد دینی اصولوں اور اخلاقی اوصاف کو ترک کردینے کے سبب اللہ کی مدد و نصرت سے محروم ہوگئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب میں بھی بہت سی دینی تحریکیں اٹھیں اور ان کے ائمہ نے اپنے نصب العین اور مقصد کے لیے عوام الناس کو جوڑا، ان کی فکر کو پروان چڑھایا اور پھر ایک جماعت کی تشکیل کی تاکہ عظیممقاصد کا حصول چاہے ان کی زندگی میں نہ ہو تو زندگی کے بعد بھی اس کے لیے کوششیں انہیں اصولوں اور اخلاقی اوصاف کے ساتھ جاری رہیں جن کی بنیاد پر وہ تحریک اٹھی اور تشکیل جماعت ہوئی۔ ان قائدین و ائمہ نے اپنے مشن کے لیے اور اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لیے اپنے مال، اپنے اہل و عیال اور اپنی جانوں تک کی قربانی دے دی۔
ان کی زندگی میں اور زندگی کے بعدبھی،یہ فرض تھا ان تمام حضرات پر جو کہ ان تحریکات اور جماعتوں سے منسلک ہوئے اور جنھوں نے حلف اٹھایا کہ اس تحریک کے لیے صدق دل اور خلوص سے قربانیاں پیش کیں جس کے حصول کے نام پر وہ ان تحریکات سے جڑتے ہیں اوران اصولوں اور اخلاقی اوصاف پر بھی عمل پیرا ہوں جن کی بنیاد پر وہ تحریک اٹھی اور ایک صالح جماعت کی تشکیل ہوئی۔
چنانچہ وہ نصب العین جس کے نام پر اراکین جماعت سے جڑتے ہیں، ان کے لیے ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن افسوس صد افسوس ہم ماضی قریب میں اٹھنے والی تحریکات اور جماعتوں کا جب جائزہ لیتے ہیں تو اس دردناک حقیقت کو نا چاہتے ہوئے بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان تحریکات میں بھی آہستہ آہستہ وہ عناصر شامل ہوتے گئے جو نصب العین کی امانت کے ساتھ خیانت کرتے ہیں اور ان اخلاقی اصولوں کا خون کرتے ہیں جن کی بنیادوں پر وہ تحریکات اور جماعتیں اٹھی تھیں۔
یہ افراد اورعناصر وہ ہیں جو دوہرے منھ لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کا حال کچھ عجب ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک طرف تو بانیاں تحریکات کو اپناامام، رہنما اور قائد تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو دوسری طرف لوگوں کو وہ تعلیم دیتے ہیں جو ان ائمہ، رہنماؤں اور قائدین کی تعلیماتکے صریح خلاف ہوتی ہیں۔
یہ ایک طرف تو اسی نصب العین کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں جس کے لے اسلاف تحریک نے قربانیاں دیں اور دوسری طرف تمام ایسی کوششیں کرتے ہیں کہ لوگوں کی رائے اس نصب العین کے خلاف ہموار ہوجائے اور وہ نصب العین اس تحریک کے لیے باقی ہی نہ رہے۔ یہ افرا د تحریکوں اور جماعتوں سے ایک طرف تو یہ حلف لے کے اٹھتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی اس تحریک کے اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے لگادیں گے اور دوسری طرف گروپ بندیوں کی شکل میں گروہوں کے ذریعے وہ ناپاک سازشیں اور سیاست کرتے ہیں کہ تحریک کا عمومی مزاج بدل جائے اور وہ اپنے مقصد کے لیے کام نہ کرپائے۔
ان حضرات کا یہ معاملہ سمجھ سے باہر ہے کہ آخر انہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟ اگر ان کا مقصد زندگی اور نصب العین اس تحریکیا جماعت کے نصب العین کے خلاف ہے تو انہیں چاہیے تو یہ کہ اپنی فکر کی بنیاد پر ایک الگ تحریک اور جماعت کھڑی کریں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر وہ اپنی فکر، مقصد زندگی اور نصب العین کو حاصل کرنے کی کوشش ایسی جماعت کے ذریعے کریں گے جس سے وہ فکری اختلاف رکھتے ہیں تو نہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ ہی وہ جماعت اپنے نصب العین کا حصول کرسکتی ہے جس میں یہ عناصر شامل ہوتے ہیں۔
لیکن اس کے برخلاف صورت حال یہ ہوتی ہے کہ کئی مرتبہ تحریک کی قیادت تک ان ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو اس تحریک کا رخ اس کے نصب العین سے موڑ دیتے ہیں یا موڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا نتیجہ تحریک اور جماعت میں انتشار، ٹکراؤ اور بے چینی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے بنیادی چیزیہ ہے کہ ایسے کسی فرد کی شمولیت اس تحریکیا جماعت میں بالکل برداشت نہ کی جائے جو بنیادی طورپر تحریک کے نصب العینیا بنیادی نظریات و تصورات یا بنیادی اخلاقی اصولوں سے اختلاف رکھتا ہو۔ اگر کسی کوتاہی کی وجہ سے ایسے کسی فرد کی شمولیت ہو بھی جائے تو جس وقت بھی اس کے غلط افکار و نظریات کا اندازہ ہو اسی وقت اس کا تحریک سے اخراج ہوجانا بہت ضروری ہے کیونکہ ایسے عناصر و شخصیات کو پنپنے دینا مستقبل کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک آدمی کی بھی شمولیت کو برداشت کرنے کا مطلب ایسے عناصر کے لیے داخلہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلنے کے مترادف ہوتا ہے۔
تحریک سے اخراج کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ تحریکی رفقاء اس انسان سے ملنا جلنا چھوڑ دیں اور اس کا سماجی بائیکاٹ کردیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس انسان کو تحریک کے باقاعدہ رکن کی حیثیت سے قبول نہ کیا جائے لیکن بہرحال اسے اپنے سے قریب کرنے، اس کی تربیت کرنے، اس کی فکر کو پروان چڑھانے کی پوری کوشش جاری رکھی جائیں اور جب یہ نظر آئے کہ اس شخص کی فکر ہم آہنگ ہوگئی ہے اور اب وہ تحریک کے نصب العین سے اتفاق رکھتا ہے اور اس کے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے تو اس کی دوبارہ شمولیت ہوسکتی ہے۔
ایک اور کام جو ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے وہ یہ کہ تحریکی رفقاء کی مسلسل تربیت کی جائے اور تحریک کے نصب العین کا بار بار تعارف کرایا جائے۔ وہ نظریات و عقائد جس سے وہ تحریکیا جماعت اور اس کے اسلاف اختلاف رکھتے ہیں، ان نظریات و عقائد سے اختلاف کی بنیادی وجوہات کو بار بار ذہن نشین کرایا جائے اور تحریک کی منفرد حیثیت کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ یہاں نظریات و عقائد سے مراد وہ ہیں جن سے تحریک کے بانیان نے قرآن و سنت کی بنیاد پر اختلاف کیا ہو اور جن کو اختیار کرنا اور ان میں ذرہ برابر حصہ دار بننا بانیانِ تحریکات کی نظر میں صریح گناہ اور حرمت کاکام ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے افراد تحریک میں شامل ہوجاتے ہیں جو ان کاموں کو جائز ہی نہیں بلکہ ضروری سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پوری جماعت ان نظریات کو جائز سمجھے اور عمل کرے حالانکہ اسلاف جماعت ان کو حرام ٹھہرا چکے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے دوسری بنیادوں پر انھوں نے تحریک اٹھائی ہوتی ہے۔ نتیجتاً ایسے افراد کی شمولیت جو حرام ٹھہرائے گئے کاموں کو جائز اور ضروری سمجھے جماعت اور تحریک میں انتشار اور بدنظمی کا باعث بنتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت کے بنیادی اصولوں سے کسی بھی طرح کی مصالحت نہ کی جائے۔ خواہ حالات کیسے بھی ہوں۔ تحریک کے عمومی مزاج کو اور بانیان و اسلاف کے عقائد و نظریات کو باقی رکھنا تحریک کے مقصد کے حصول کے لیے نہایت ضروری ہے۔
ایسے نظریات و عقائد اخلاقی و اصولی ضوابط اور نصب العین کو باقی رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہیہی وہ بنیادیں ہیں جن پر کہ ایک تحریک اور جماعت کھڑی ہوئی ہے اور جن کی وجہ سے اس کی اپنی ایک منفرد پہچان ہوتی ہے جس سے کہ عوام الناس کے سامنے بھی اس جماعت کا مقصد اور مشن واضح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اس تحریکیا جماعت میں ایسے لوگوں کی شمولیت ہوتی ہے جو کہ اس کے نصب العین، مقصد، مشن اور نظریات و عقائد سے اختلاف رکھتے ہوں تو نتیجتاً اس تحریک اور جماعت کے قول اور عمل میں کھلا تضاد نظر آنے لگے گا جس کو کہ عام انسان اور خاص کر مسلمان ضرور محسوس کریں گے اور یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال ہوگی، جو کہ تحریک کے مقاصد کے حصول میں ناکامی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم قیامت کے روز سب سے بدترین اس شخص کو پاو?گے جو دوغلا ہے، ادھر لوگوں سے کچھ بات کرتا ہے اور اُدھر لوگوں سے کچھ بات کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ4822)
نصب العین ایک امانت ہے۔ اس کو بچانا، اس کا تحفظ کرنا اس کی اہمیت کو لوگوں کے سامنے واضح کرنا کسی بھی دینی تحریک کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح راہ کا انتخاب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
تحریکوں اور جماعتوں میں پیدا ہونے والی اس طرح کی صورتحال کے سدِ باب کے لیے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں :
’’اس خطرے کے سدباب اور تحریک کو اس کے بنیادی اصولوں پر برقرار رکھنے کے لیے دو صورتیں اختیار کی جاتی ہیں :ایک یہ کہ جو لوگ تعلیم و تربیت اور اجتماعی ماحول کی تاثیرات کے باوجود ناکارہ نکلیں، تکفیر کے ذریعے سے ان کو جماعت سے خارج کردیا جائے، اور اس طرح جماعت کو غیر مناسب عناصر سے پاک کیا جاتا رہے۔
دوسرییہ کہ تبلیغ کے ذریعے سے جماعت میں ان نئے لوگوں کو بھرتی کا سلسلہ جاری رہے جو کہ رجحان و ذہنیت کے اعتبار سے اس تحریک کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں اور جن کو اس کے اصول و مقاصد اس طرح اپیل کریں جس طرح ابتدائی پیروؤں کو انھوں نے اپیل کیا تھا۔‘‘ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان، حصہ دوم)
آگے مولانا محترم فرماتے ہیں :
’’یہ اور صرف یہی دو صورتیں ایسی ہیں جو کسی تحریک کو زوال اور کسی جماعت یا پارٹی کو انحطاط سے بچاسکتی ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ رفتہ رفتہ لوگ ان دونوں تدبیروں کی اہمیت سے غافل ہوجاتے ہیں۔ جماعت کے باہر سے نئے لوگوں کو اندر لانے کی کوشش کم ہونے لگتی ہے۔ جماعت کی افزائش کے لیے تمام تر نسلی افزائش ہی پر اعتماد کرلیا جاتا ہے۔ اور جو لوگ اس طرح جماعت کے اندر پیدا ہوتے ہیں ان میں سے ناکارہ لوگوں کو خارج کرنے میں بھی ’’خونی رشتوں اور معاشرتی تعلقات اور دنیوی مصلحتوں کی خاطر تساہل برتا جاتا ہے۔ طرح طرح کے بہانوں سے جماعتی مسلک میں ایسی گنجائشیں نکالی جاتی ہیں، کہ ہر قسم کے رطب و یابس اس میں سما سکیں اور اس مسلک کو اتنا وسیع کردیا جاتا ہے کہ سرے سے اس کے سرحدی نشانات اور امتیازی حدود باقی ہی نہیں رہتے، یہاں تک کہ بھانت بھانت کے آدمی جماعت کے دائرے میں جمع ہوجاتے ہیں، جن کو کسی قسم کی مناسب اس کے مسلک سے، اس کے اصولوں سے اور اس کے مقاصد سے نہیں ہوتی۔ پھر جب جماعت میں اس کے اصولوں سے حقیقی مناسبت رکھنے والے کم اور مناسبت نہ رکھنے والے زیادہ ہوجاتے ہیں تو اجتماعی ماحول اور تعلیم و تربیت کا نظام بھی بگڑنے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر نسل پہلے کی نسل سے بدتر اٹھتی ہے۔ جماعت کا قدم روز بروز تنزل و انحطاط کی طرف بڑھنے لگتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس مسلک کا اور ان اصول و مقاصد کا تصور بالکل ہی ناپید ہوجاتا ہے، جن پر ابتدا میں وہ جماعت بنی تھی۔ اس مقام پر پہنچ کر حقیقت میں جماعت ختم ہوجاتی ہے۔ اور محض ایک نسلی اور معاشرتی قومیت اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ وہ نام جو ابتدا میں ایک تحریک کے علمبرداروں کے لیے بولا جاتا تھا، اس کو وہ لوگ استعمال کرنے لگتے ہیں، جو اس تحریک کو مٹانے والے اور اس کے جھنڈے کو سرنگوں کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ نام جو ایک مقصد اور ایک اصول کے ساتھ وابستہ تھا، وہ باپ سے بیٹے کو ورثہ میں ملنے لگتا ہے بلالحاظ اس کے کہ صاحبزادے کی زندگی کے اصول اور مقاصد اس نام سے کوئی مناسبت بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کے ہاتھ میں پہنچ کر وہ نام اپنی معنویت (Significant)کھودیتا ہے۔ وہ خود بھول جاتے ہیں اور دنیا بھی بھول جاتی ہے کہ یہ نام کسی مقصد، کسی مسلک، کسی اصول کے ساتھ وابستہ ہے، بے معنی و مفہوم نہیں ہے۔‘‘(تحریک آزادی ہند اور مسلمان، حصہ دوم)
مندرجہ بالا تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان ہے کہ کچھ حضرات اس غلط فہمی کا شکار ہو جائیں کہ میں افراد جماعت و تحریکات کے درمیان کسی بھی طرح کے اختلافات کی گنجائش کا قائل نہیں اور میں ان باتوں سے یہ مراد رکھتا ہوں کہ تحریک کے تمام افراد کو اسلاف پرست ہونا چاہئے اور خالص دقیانوسی انداز میں ہر معاملہ میں لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔ حالانکہ یہ میری مراد نہیں ہے اور میں اس کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں۔ کیونکہ آج کل بہت سے حضرات غلط باتوں کو منوانے کے لئے بھی اختلافات کی گنجائش کی بات کرتے ہیں اور اس گنجائش کا غلط فائدہ بھی اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اختلافات کے معاملہ میں بنیادی اور اصولی بات سمجھ لینی چاہئے اور وہ یہ کہ اختلافات علمی و فکری بھی ہوتے ہیں اور عقیدہ اور نظریات پر مبنی بھی ہوتے ہیں۔ جہاں تک بات علمی اختلاف کی ہے تو وہ ہمیشہ سے امت میں رہا ہے اور خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان بھی رہا کرتا تھا اور اس طرح کے اختلافات کی بلا شبہ گنجائش ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر رفع الیدین کچھ لوگ کرتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے مگر دونوں کی نماز ہو جاتی ہے۔ یہ وہ اختلافات ہیں جو قرآن وسنت سے براہ راست نہیں ٹکراتے اور ان کو حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔
لیکن کچھ اختلافات وہ ہیں جو براہ راست قرآن و سنت سے ٹکراتے ہیں اور یہ نظریاتی اور عقیدہ پر مبنی اختلافات ہیں جس کی گنجائش ایک جماعت میں اگر رکھی گئی تو وہ جماعت زبردست انتشار کا شکار ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک انسان یہ کہتا ہے کہ موجودہ حالات کے تحت مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان نظام کفر سے تعاون کریں اور اس کی کفریہ قانون ساز مجالس میں شرکت کریں کہ جس میں قوانین قرآن وسنت کے مطابق نہیں بلکہ کثرت رائے کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ خالصتا عقیدہ کا مسئلہ بن جاتا ہے کیوں کہ قرآن و سنت کے صریح خلاف یہ عمل ہے جس کو علما قطعی حرام اور ناجائز ٹھہرا چکے ہیں۔ اور اس طرح کے اختلافات (کہ جس میں کسی عمل کو ایک طرف تو کچھ لوگ جائز اور ضروری سمجھیں لیکن وہیں دوسری طرف کچھ لوگ اس کو صریح حرام اور ناجائز سمجھیں ) کی گنجائش رکھنا انتہائی خطرناک اور تحریک کے لئے مہلک ہے۔
نصب العین ایک امانت ہے۔ اس کو بچانا، اس کا تحفظ کرنا اور اس کی اہمیت کو لوگوں کے سامنے واضح کرنا کسی بھی دینی تحریک کے لیے نہایت اہم اور ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح راہ کا انتخاب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
٭٭٭
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔