نفرت کی سیاست!
وصیل خان
کسی بھی ملک کی تشکیل کا مقصد معقول نظم و نسق اور امن و انصاف کا قیام ہوتا ہے اور اس کے حصول کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ قوانین و آئین وسیع تناظر میں اس طرح مرتب کئے جائیں کہ رعایا کے ساتھ کسی بھی طرح کا کوئی ظلم و جبر نہ ہوسکے اور سبھی کو یکساں انصاف اور آزادی ٔ ضمیرحاصل ہو۔ بدقسمتی سے اگر ایسا ممکن نہ ہوسکا تو پورے ملک پر اس کے انتہائی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ ملک بدامنی اور انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ آج کم و بیش یہی صورتحال ہمارے سامنے ہےجس کے نتیجے میں نفرت ،بغض و عداوت اور فرقہ پرستانہ سیاست کی ایسی تیز آندھی چل پڑی ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ اس بدترین صورتحال کے تدارک کیلئے اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والی نسلوںکے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ تاریخ کے اوراق میں یوں تو بیشمار واقعات مثبت و منفی شکلوں میں موجود ہیں ہمیں اپنی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان واقعات سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ زندہ قومیں ان واقعات کی روشنی میں اپنے گردو پیش کے حالات کاصحت مندانہ تجزیہ کرتی ہیں اور پھرسخت جدوجہد کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کرلیتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ ماضی میں خلیفہ ہارون رشید کے دور اقتدار میں (یاد رہے کہ اس وقت کوئی پارلیمانی نظام نہیں تھا بلکہ بیشتر خلیفہ یا بادشاہ مطلق العنان ہوتے تھے ) ایک بڑھیا فریاد لے کر دربار میں پہنچی اس نے خلیفہ سے کہا کہ میرے ساتھ انصاف کیجئے اور میری وہ زمین واپس دلوایئے جس پر میری مرضی کے خلاف جبرا ًقبضہ کرلیا گیا ہے ،خلیفہ نے استفسار کیا کہ بڑی بی تمہیں انصاف ضرور ملے گا لیکن اس شخص کا نام تو بتاؤ جس نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے۔ بڑھیا نے بڑی بے خوفی کے ساتھ قدرے بلند آواز میں کہا کہ وہ شخص اس وقت نہ صرف اس دربار میں موجود ہےبلکہ آپ کے ہی ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔خلیفہ کے دائیںجانب اس کابیٹاولی عہد سلطنت موجودتھا، خلیفہ نے شہزادے سے پوچھا ، کیا تم پر بڑھیا کے لگائے گئے الزامات درست ہیں ،شہزادہ گھبراگیا ،اس پر سکتہ جیسی کیفیت طاری ہوگئی ،خوف کے سبب وہ اٹک اٹک کر جواب دے رہا تھا اس کے برعکس بڑھیا کافی تیز اور تیکھے انداز میں اپنا موقف پیش کررہی تھی ،کچھ درباریوں نے اس کے انداز تخاطب پر برہمی کا اظہارکیا ،اسے درباری توہین قرار دیتے ہوئے خلیفہ سے شکایت کی لیکن خلیفہ نے ان کی باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے کہنے دو صداقت نےاس کی آواز کو تیز کردیا ہے اگر وہ اپنے موقف میں درست نہ ہوتی تو اس کی آواز میں اتنی شدت اور بے باکی نہ ہوتی ،اس کے برعکس شہزادے کی آواز میں کمزوری اور خوف کے ملے جلے اثرات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اس کا موقف مضبوط نہیں، اس کے من میں کھوٹ ہے۔ خلیفہ نے اسی وقت فیصلہ سناتے ہوئے شہزادے کو حکم دیا کہ وہ ابھی اور اسی وقت بڑھیا کی زمین واپس کردے بالآخر بڑھیا دربار سے اس حال میں باہر نکلی کہ اس کی زمین اسے مل چکی تھی اس نے خلیفہ کو ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوئے یہ دعا بھی کہ اللہ خلیفہ کی حکومت کو مزید مستحکم کرے تاکہ میری طرح کوئی بھی مظلوم کبھی خلیفہ کے انصاف سے محروم نہ رہے۔
یادش بخیر تھا کبھی دور مئے نشاط، ہمارا ملک ہندوستان بھی اک دور میں سونے کی چڑیا کہلاتا تھا جہاں امن و انصاف کا بول بالاتھا لیکن یہ باتیں اب صرف کتابوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہیںجو محض فکشن اور افسانہ لگتی ہیں (اب تو کتابوں میں بھی تحریف کی جانے لگی ہے ) بی جے پی کے دور اقتدار میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کا عمل بے حد تیز ہوگیا ہے جہاں کئی سالوں سے گایوں کے تحفظ کے نام پر تشدد جاری ہے اور اب تک اموات کی تعداد سو سے تجاوز کرچکی ہے مہلوکین کو انصاف تو کجا ان کے ورثا پر تشدد اس لئے کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی زبان کیوں کھولتے ہیں اور انصاف کی گہارکیوں لگاتے ہیں ،اس معاملے میں جن انصاف پسند شہریوں نے ان کی آواز میں آواز ملائی ان کے گریبان پر بھی ہاتھ ڈالے گئے اور انہیں خاموش رہنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔رام پنیانی ،عامر خان اور نصیر الدین شاہ جیسے متعدد لوگوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہیں دیش دروہی تک کہہ دیا گیا اور پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا گیا۔
ذہن پر زورڈالیں اسی گندی ذہنیت نے ماضی میں راجستھان کے راجسمندمیں ایک انسان کو کاٹا ، جلایا پھرویڈیو بھی بنایا اور سب کو دکھا دیا۔ جو کاٹا گیا ،جلایا گیا ،مسلمان تھا ، جو ماررہا تھا وہ ہندو تھا۔ موجودہ سیاست اور ٹی وی مسلسل جو زہر بورہے ہیںوہ درخت اب بہت تناور ہوچکا ہے۔ فرقہ پرستی اب تو انسانی بم میں بھی تبدیل ہونے لگی ہے۔ ایسے بہت سے انسانی بم ہمارے درمیان گھوم رہے ہیں۔ اس کی چپیٹ میں کون آئے گا کسی کو پتا نہیں۔ ممکن ہے اسکول سے لوٹتے وقت ، کالج میں کھیلتے وقت ، کسی معمولی جھگڑے میں تشدد کا یہ خون سوار ہوجائے اور بات بات میں آپ کے گھر کا بھی کوئی شخص قاتل بن جائے ،اس کو یہ طاقت اسی گندی سیاست اور سوچ سے مل رہی ہے جس کو آپ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دن رات پال پوس کے بڑا کررہے ہیں ،کٹر پن اور مذہبی پہچان کی سیاست کیلئےبہت سے قاتل چاہئیں جودوسروں پر حملہ کرنے کے کام آسکیں۔ اس طرح کی سیاست سے خود کو دوررکھیں ورنہ آپ انسانیت سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔ ان حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ دنوں ملک کے سیکڑوں فلمسازوں نے ووٹرس سے اپیل کی ہے کہ وہ حالات کا درست تجزیہ کرتے ہوئے ملک میں تیزی سے پھیلتی جارہی فرقہ واریت کے خلاف اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں ان کے مطابق ’’ ہمارا ملک اب تک کے سب سے مشکل دور سے گزررہا ہے۔ سنسکرتی طور سے زندہ اور جغرافیائی طور سے مختلف ،ہم ایک ملک کے طور پر ہمیشہ متحد رہے ہیں لیکن اب یہ سب کچھ داؤ پر ہے۔ یاد رکھیں اگر ہونے والے انتخابات میں ہم نے دانشمندی کے ساتھ حکومت کا انتخاب نہیں کیا تو فاشزم کا خطرہ پوری طاقت کے ساتھ ہم پر حملہ کرے گا۔ ‘‘ ملک میں پولرائزیشن اور نفرت کی سیاست ، گئورکشا کے نام پر تشدد، دلتوں، مسلمانوں اور کسانوں کو حاشئے پر دھکیلے جانے کی سیاست کے خلاف ہمیں متحد ہونا ضروری ہے اور ایک ایسی حکومت کے انتخاب کیلئے ہمیں آگے آنا ہے جو ملک کے آئین کی پاسداری کرے اور سبھی قسم کی سینسر شپ سے پرہیز کرے۔ فلمسازوں کے بعدہی تقریبا ً ۲۰۰کے قریب قلمکاروں کی جانب سے بھی اسی قسم کا اعلان سامنے آیا ہے ان قلمکاروں میں امیتاؤ گھوش ، اروندھتی رائے ،گریش کرناڈ، نین تارا سہگل اور رومیلا تھاپر شامل ہیں ان کے مطابق یہ وقت بڑا نازک ہے اور نفرت کی سیاست کو ووٹ کی طاقت سے ختم کرنے کیلئے یہ بڑا اہم موقع ہےجس کا استعمال کرکے ہم ملک کے آئینی اور قانونی حقوق کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ آؑپ کیا سوچ رہے ہیں۔ ؟
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔