دو انتہاؤں کے درمیان

ابوفہد

  ایک طرف اشتراکیت ہے اور دوسری طرف سرمایہ داری۔ اشتراکیت یہ ہےکہ سرمایہ سب لوگوں میں برابرسرابر تقسیم ہو۔یہ ایک انتہا درجے کا غیر فطری نظام تھا اس لیے تادیر نہ چل سکا۔ ا س کے بالمقابل دوسری انتہاپر سرمایہ دارانہ نظام ہے، یہ بھی اپنی نہاد میں غیر فطری ہے ، تاہم اس کی نہاد میں وہ انتہا نہیں جو اشتراکیت میں تھی، اس لیے یہ کچھ دُور تک چل سکا ۔یہ نظام ایک زمانے سے دنیامیں رائج ہے اور اب وہ اپنی انتہاکو پہنچ چکا ہے، اس کی انتہائی حدیہ ہے کہ سرمایہ منجمد ہوتا جارہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ایسی رپورٹس آرہی ہیں کہ ساری دنیا کی دولت صرف چند ہاتھوں میں سمٹ رہی ہے۔

اس نظام کے غیر فطری ہونے کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے۔ خود ہمارے ملک ہندوستان میں بھی یہی صورت حال ہے کہ ملک کی ساری دولت چند ہاتھوں میں سمٹ آئی ہے۔ اور یہ سب اس کے باجود ہے کہ دنیا کے تقریبا ہر ملک میں ٹیکس کا نظام موجود ہے، ٹیکس کے علاوہ لوگ عطیات بھی دیتے رہتے ہیں، چیریٹی کرتے رہتے ہیں، پھر بھی دنیا کی حالت یہ ہے کہ دولت کا ارتکاز روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اور یہ طے شدہ بات ہے کہ دولت کا ارتکاز جتنا بڑھتا جائے گا غریبی اور بھکمری اتنی ہی پھیلتی جائے گی۔اوریہ اسی نظام کا شاخسانہ ہے کہ آج کی متمدن دنیا میں بھی بیسیوں ممالک ایسے ہیں جہاں غربت کی شرح چالیس پچاس فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیویلپمنٹ کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 104 ممالک میں 1.3 ارب افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو ان ممالک کی آبادی کا چوتھا حصہ بنتا ہے اور دنیا کی 75 فیصد آبادی ان ممالک میں رہتی ہے۔

ان دو انتہاؤں کے درمیان اسلامی نظام ہے، اس نظام میں زکوٰۃ کا جو نظم ہے اور زکوٰ ۃ کے علاوہ بھی صدقات وخیرات کا جو ایک پورا سسٹم ہے ، نیزمختلف طرح کے کفارے ادا کرنے کا جو حکم اورنظم ہے وہ دولت کے اسی ارتکاز کو روکنے کے لیے ہے۔ آج کی دنیا میں جس طرح سے سرمایہ داری مین اسٹریم میں ہے اگر اسلام اور اس کااقتصادی نظام اسی طرح مین اسٹریم میں ہوتا تو یقینا ایسا ہوتا کہ دولت کا ارتکاز رک جاتا اور غربت خود بخود سمٹتی اور سکڑتی چلی جاتی یا کم از کم ایسا نہ ہوتا کہ دولت چند ہاتھوں میں آجاتی۔جہاں کہیں بھی اسلامی نظام کو راہ ملے گی وہاں دو چیزیں خاص طور پر پروان چڑھیں گی ایک ’قسط‘ یعنی انصاف کی فراہمی اور دوسرے’ وسط‘ یعنی ہر معاملے میں راہِ اعتدال۔ انتہاؤں سے گریز اور وسط پر ارتکاز۔ یہ دوچیزیں ایسی ہیں کہ انہیں کسی بھی معاشرے میں بنیادی اور اساسی اہمیت حاصل ہے۔

یہ دو چیزیں جس معاشرے میں ہوں گی وہاں نا انصافیاں ختم ہوجائیں گی اور سرمائے کا ارتکاز رک جائے گا۔سرمایہ انسانی معاشرے میں اس طرح گردش کرنے لگ جائے گا جس طرح کائنات کی رگوں میں پانی دوڑتا پھرتا ہے اور جانداروں کی رگوں میں خون گردش میں رہتا ہے۔ انصاف اور سرمائے کو اسی طرح گردش میں رہنا چاہئے کہ یہی چیز انسانی معاشروں کی زندگی کی اساس ہے۔ اور اسلام اس کی ضمانت دیتا ہے۔قرآن میں زکوٰۃ کی علت یہی بتائی گئی ہے کہ زکوٰۃ اس لیے فرض کی گئی ہے کہ سرمایہ چند ہاتھوں میں ہی گردش نہ کرتا رہے۔ اور اس امت کو امت وسط اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ جن اصولوں پر عمل کرتی ہے وہ اسے اعتدال پر رکھتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔